• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کا بچت کرنے کا فیصلہ یقینا خوش آئند قرار دیا جانا چاہئے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ بچت کرنے کے نام پر حکومتی خزانے پر مزید بوجھ نہ پڑ جائے۔ اطلاعات کے مطابق بڑی گاڑیاں جن کے پاس ہیں ان سے واپس لے کر ان کی جگہ چھوٹی گاڑیاں دی جائیں۔ بظاہر تو یہ بہت اچھا فیصلہ لگ رہا ہے۔ لیکن کیا اس کا نتیجہ بھی مثبت ہوگا؟ جب بڑی گاڑیاں واپس لی جائیں گی تو ان کا کیا کیا جائے گا؟ اس کوئی وضاحت نہیں ہے۔ کیا ان کو بیچا جائے گا؟ یا ایسے ہی پڑے پڑے وہ برباد ہوجائیں گی۔ اگر بیچا جائے گا تو کس قیمت پر؟ مارکیٹ ریٹ پر یا concession پر ؟ دراصل ایک عجیب رویہ ہے سرکاری خرید و فروخت کا، اگر سرکاری طور پر کوئی چیز خریدی جاتی ہے تو (شفافیت کے تقاضےکو پورا کرتے ہوئے) اس کا ٹینڈر دیا جاتا جو کہ عموما مارکیٹ ریٹ سے کم از کم دس گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ( معلوم نہیں یہ کون سی شفافیت کا معیارہے؟) اس کے برعکس سرکاری طور پر کچھ فروخت کیا جاتا ہے تو اس کی قیمت مارکیٹ ریٹ سے بہت کم بلکہ انتہائی کم طے کی جاتی ہے۔ ایسے میں نقصان ہر حال میں سرکاری خزانے کا ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں بچت کے تحت مہنگی گاڑیاں واپس لے کر انہیں ارزاں داموں فروخت کرنے میں کون سی بچت ہوگی؟ پھر ان کے بدلے چھوٹی گاڑیاں خریدنے میں اس سے زیادہ پیسہ خرچ کر کے خزانہ پہ اور بوجھ ڈلے گا۔ اس سے بہتر یہ نہیں کہ وہ گاڑیاں جن کے استعمال میں ہیں انہیں ہی دے دی جائیں اور ان کی تنخواہ سے وہ پیسے جو کہ ان کی فروخت کے لئے لگائے گئے ہیں وصول کر لئے جائیں یا پھر ان کو واپس لینے کی بجائے انہیں کو رہنے دیا جائے اور ان کی maintenance اور پیڑول کی ذمہ داری انہیں افسران اور وزراء پہ ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی تنخواہیں یا سہولیات کم کردی جائیں بلکہ تمام مراعات ابتدائی طور پر روپے کی شکل میں دی جائیں اور پھر وہ خود ان پیسوں سے سارے اخراجات کریں یہ سلسلہ کچھ مدت تک رکھا جائے, اور پھر جائزہ لیا جائے کہ اس کا کوئی مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ اگر اس قدم کا قومی خزانے کو فائدہ ہوتا ہے تو اس پالیسی کو جاری رکھا جائے۔ ورنہ پھر ان لوگوں کی مراعات میں خاطرخواہ کمی کی جائے۔دوسرے نمبر پر جو قدم ہمارے خزانے پر مزید بوجھ کو کم کرسکتا ہے وہ ہے غیر ملکی سرکاری دوروں کا خرچ۔ سب سے پہلے سارے سرکاری خرچ پر ہونے والے حج اور عمرے پر پابندی عائد کی جائے۔ کیوں کہ یہ خالص نفلی عبادت ہے، اگر فرض بھی ہے تو صرف صاحب حیثیت پہ۔ لہذا کسی طور بھی مناسب نہیں کہ ایک مقروض ملک ہر تھوڑے دنوں کے بعد ایک ہجوم کے گناہ معاف کروانے کے لئے سرکاری خزانے پر بوجھ ڈالے۔ اس کے بعد ورلڈ ٹور کا شوق رکھنے والے اقتدار میں آتے ہی غیر ملکی دورں پہ نکل جائیں اور ساتھ میں اپنے ہمنواؤں کی فوج لے جائیں تاکہ اچھی کوریج ہوسکے(مال مفت دل بے رحم)۔ ایسے سارے سرکاری دوروں پہ سختی سے پابندی لگائی جائے۔ نوابی کا عالم یہ ہے کہ یہ ساری فوج ریگولر فلائٹ کی بجائے خصوصی طیارہ سے سفر کرتی ہے۔ کیا یہ سراسر زیادتی نہیں ہے ۔تیسرے نمبر پہ آتی ہے کابینہ کی تعداد۔ معلوم نہیں وزارت کے ساتھ ساتھ مشیران کا فیشن کیوں ہو چلا ہے۔ وزارتوں میں ویسے بھی وزیر صاحب کے ساتھ ساتھ وزیر مملکت کی شرکت لازمی ہوتے ہیں ایسے میں مشیر کی شمولیت ضرورت نہیں بلکہ احسان مند ہوں کا نذرانہ ہے۔ اس کے لئے ذاتی جیب سے خرچ کرنا مناسب ہے ناکہ یہ اعلان کرنا کہ مشیر کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہے۔ سراسر زیادتی ہے۔ چوتھے اور آخری نمبر پہ آتا ہے کہ جب بھی کوئی بڑی شخصیت کسی دورے پہ نکلتی ہے تو اس کی نظر میں آنے کے لئے سارے عہدہ دار اس کو گھیر لیتے ہیں۔ مثلا اگر وزیر اعظم کسی کی عیادت کے لئے جاتے ہیں تو سارے وزراء اپنے سارے کام کاج چھوڑ کے اپنی اپنی الگ سرکاری گاڑیوں میں وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ کس قدر وقت اور وسائل کا ضیاع۔ وزیر اعلٰی کسی دورے پہ نکلیں تو سارے وزراء، چیف سیکرٹری سمیت نا جانے کتنے لوگ ان گنت گاڑیوں میں سوار ہوجاتے ہیں۔ ایک شخص ایک ہی گاڑی میں سوار ہوگا ، اگر ایسا نہ ہوا تو وہ پروٹوکول کے خلاف بات ہوگی ۔ آخر یہ پروٹوکول کا بھوت کب ختم ہوگا؟

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین