سپریم کورٹ میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 90 روز میں ہر صورت انتخابات ہونے چاہئیں۔
عدالت عظمیٰ میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران عارف علوی کے وکیل نے اعتراف کیا کہ صدر نے خیبر پختونخوا میں تاریخ دے کر آئینی اختیار سے تجاوز کیا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ صدر عارف علوی نے خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کی ایڈوائس واپس لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے اعتراف کیا کہ صدر کے پاس کے پی میں انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو مشاورت کےلیے بلوایا تھا لیکن ای سی پی نے مشاورت سے انکار کردیا۔
صدر مملکت کے وکیل نے مزید کہا کہ صدر مملکت نے آئین و قانون کے مطابق تاریخ دی، 90 روز میں ہر صورت انتخابات ہونے چاہئیں، عدالت ازخودنوٹس لینے اور درخواستیں سننے کےلیے بااختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر کو آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، کابینہ نے صدر کو کہا ہے کہ آپ کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی ہوسکتی ہے۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جہاں آرٹیکل 6 لگتا ہے، وہاں نہیں لگاتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا صدر نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرکے ہائیکورٹ کے فیصلے کی توہین نہیں کی؟
ڈاکٹر عارف علوی کے وکیل نے کہا کہ دراصل صدر مملکت ہائی کورٹ میں فریق نہیں تھے، انہوں نے خیبر پختونخوا کے الیکشن کی تاریخ دے کر آئینی اختیار سے تجاوز کیا ہے۔
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں مختلف فیصلے آئے تو اپیل سپریم کورٹ میں ہوگی، اس دوران 90 دن کی آئینی مدت گزر گئی تو آئین کی خلاف ورزی کا کون ذمہ دار ہوگا۔
اس موقع پر ن لیگی وکیل نے کہا کہ ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست اُس وقت آئی جب سپریم کورٹ میں دوسری سماعت تھی۔
انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ آیا، ایک آئینی عدالت نے اس معاملے پر فیصلہ دے دیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اس دوران اگر آرٹیکل 224 کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو کون ذمہ دار ہوگا؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فرض کریں قومی اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے اور مردم شماری الیکشن سے ایک ہفتہ پہلے مکمل ہو تو کیا انتخابات ملتوی ہوجائیں گے؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ مردم شماری کا اعلان کس نے کرنا ہے؟ جس پر ن لیگی وکیل نے جواب دیا کہ مردم شماری کا اعلان تو وفاقی حکومت ہی نے کرنا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ 31 اپریل کو مردم شماری مکمل ہو کر نوٹیفائی ہوجائے گی؟ اس پر ن لیگی وکیل نے کہا کہ اس کی یقین دہانی تو وفاقی حکومت ہی کرواسکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے کہا کہ سب چھوڑیں اس آدمی کا نام بتائیں، جس نے تاریخ دینی ہے، اس جملے پر عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔
دوران سماعت پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے تجویز دی کہ عدالت ہائیکورٹس کو 184/3 کے تحت جلد فیصلہ کرنے کا کہہ سکتی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس وقت یہ بات کر رہے ہیں جب پلوں کے نیچے سے پانی گزر گیا، ہم کسی کو نہیں آئین کو دیکھ رہے ہیں، عدالت کسی فریق کی نہیں بلکہ آئین کی حمایت کر رہی ہے۔