• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توبہ کا در ندامت کی دستک سے کھلتا ہے، معافی کا سورج پشیمانی کے اُفق پر طلوع ہوتا ہے، فرد کا بھی یہی معاملہ ہوتا ہے، قوموں کا بھی یہی طریق ہے، ذاتی زندگی میں اگر ہم سے کوئی زیادتی سرزد ہو جائے، اور بعد میں ہمیں احساسِ ندامت بے خواب کر دے، تو ہم کیا کرتے ہیں؟ معافی مانگتے ہیں، کوئی تلافی کی صورت ڈھونڈتے ہیں، ضمیر کی خلش مٹاتے ہیں تاکہ ہمارے سینے سے اس نا انصافی کا بوجھ ہٹ جائے، ہم سبک سار ہو جائیں اور رات کو گہری، میٹھی نیند سو سکیں۔ ریاستوں اور قوموں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے، جب اجتماعی ضمیر جاگتا ہے تو ریاستیں اپنے ماضی کے گناہوں پر معافی مانگتی ہیں، ابھی حال ہی میں نیدر لینڈ نے ڈیڑھ سو سال پہلے غلاموں کی تجارت میں ملوث ہونے پر معافی مانگی ہے، ڈنمارک، فرانس، برطانیہ اور یورپی پارلیمان پہلے ہی اس معاملے میں ندامت کا اظہار کر چکے ہیں، فرانسیسی صدر میکرون نے کچھ عرصہ پہلے الجیریا کے ان سپاہیوں سے معافی مانگی تھی جو فرانسیسی فوجوں کے شانہ بہ شانہ اپنے ہی ہم وطنوں کیخلاف لڑے مگر بعد میں فرانسیسی فوج نے انکا قتلِ عام کردیا ۔ماضی کے جرائم پر ندامت کے اظہار کی ایسی بہت سی مثالیں ہیں ۔

اگر ریاستِ پاکستان نے آج تک کسی قوم، قومیت یا فرد سے معافی نہیں مانگی تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ ریاست ’معصوم عن الخطا‘ ہے، اور اس نے آج تک کبھی کوئی جرم ہی نہیں کیا۔ لیکن جرم کرنا اور جرم کا اقرارکرنا دو یک سر مختلف باتیں ہوا کرتی ہیں۔ یہ جو ریاستی اقرارِ جرم ہوتا ہے یہ صرف اور صرف اجتماعی ندامت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے جبکہ ریاستِ پاکستان کے ضمیر پر ہر داغ ہے بہ جُز داغِ ندامت۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے گناہوں پر نادم کیوں نہیں ہیں؟ ہم میں وہ اخلاقی جرات کیوں نہیں پیدا ہو سکی جو احساسِ شرمندگی اور اظہارِ شرمندگی کی اساس ہوا کرتی ہے؟ غالباً یہ ’’مطالعہء پاکستان‘‘ کی قائم کردہ فضا میں پروان چڑھنے والی نسلوں کا المیہ ہے ، جن ریاستوں میں تاریخ کا قتل کر دیا جائے وہاں کون سا گناہ اور کون سی ندامت۔ جب ریاست گناہِ کبیرہ کرتی ہے، اپنے لوگوں کا قتلِ عام کرتی ہے، اور اس کے بعد ایک حمود الرحمٰن کمیشن بناتی ہے، اور پھر اُس کمیشن کی رپورٹ ہی چُھپا لیتی ہے، تو کہاں سے آتی اجتماعی ندامت، کہاں سے آتا جُرم کا احساس، اور کس نے مانگنی تھی معافی۔ جس قوم کو آج بھی یہ پڑھایا جا رہا ہو کہ مشرقی پاکستان اسلئے ہم سے علیحدہ ہوا تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن غدار تھا، اور یہ ہندوستان کی مکروہ سازش تھی، اور یہ امریکی بحری بیڑے کی بے وفائی تھی، اور یحیٰی خان شراب بہت زیادہ پیتا تھا، وغیرہ وغیرہ، تو اس سارے قصے میں اجتماعی ندامت اور بنگلہ دیش سے معافی کا ذکر کہاں سے آنا تھا ۔ یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے اندر بسنے والی قومیتوں، صوبوں اور علاقوں کے ساتھ بھی وہ انسانیت سوز سلوک کر چکا ہے جن کا مداوا تو اب ممکن نہیں مگر کم از کم ان سے معافی مانگ کر ان کے زخموں پر مرہم تو رکھا جا سکتا ہے، اپنے ضمیر کا بوجھ تو ہلکا کیا جا سکتا ہے، مستقبل میں ان جرائم کا اعادہ نہ کرنے کا عزم تو کیا جا سکتا ہے۔ آج اگر ریاست میں یہ جرات نہیں ہے تو کبھی تو یہ ہمت کرنی پڑے گی، رستے ہوئے زخموں پر پھاہا تو رکھنا پڑے گا۔کبھی تو بلوچستان میں فضائی بمباری کرنے والوں کو اظہارِ شرمندگی کرنا ہو گا، کبھی تو مسنگ پرسن کے اہلِ خانہ سے معافی مانگنا ہو گی، کبھی تو اکبر بگٹی کے ورثاء سے اس ریاست کو صدقِ دل سے علانیہ معافی مانگنا ہو گی۔پچھلے پینتالیس سال سے پختونوں کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے والے کب اعترافِ جرم کریں گے؟ پہلے طالبان پالے گئے، پھر ان کو سرحد پار دھکیلا گیا، اور ایک دفعہ پھر انہیں پاکستان لا کر آباد کر دیا گیا، کوئی تو مجرم ہے، کسی کو تو معافی مانگنا ہوگی۔چار آئین شکنوں کی طرف سے کون معافی مانگے گا؟ اور وہ عدالتیں جو آئین شکنوں کے حرم آباد کرتی رہیں ان کے جانشینوں کو بھی کبھی تو قوم کے سامنے اعترافِ جرم کرنا پڑے گا۔ بھٹو کے قاتلوں کو کبھی تو قوم سے معافی مانگنا پڑے گی۔کوئی بھی معافی، تلافی نہیں ہو سکتی ہے۔ مگر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا تو کیا جا سکتا ہے، آئندہ کیلئے توبہ تو کی جا سکتی ہے۔ ایک نیا آغاز تو کیا جا سکتا ہے۔ویسے نئے آغاز کا ایک بہترین موقع نواز شریف کا معاملہ بھی ہے، اس حوالے سے معافی مانگتے ہوئے تو شاید اداروں کو ابھی شرم آتی ہو، مگر کسی اعلان کے بہ جائے ریاستی ادارے اپنے عمل سے شرمندگی کا اظہار کر سکتے ہیں۔

نواز شریف کے خلاف ، بلکہ کروڑوں لوگوں کے خلاف، اس ملک کے خلاف، کیا سازش کی گئی، سازشی کون تھے، یہ اب کوئی راز نہیں ہے۔جج ارشد ملک نے پہلے بتا دیا تھا، اب باجوہ صاحب بھی بول پڑے ہیں۔ فیض حمید ، ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ اُس سازشی کہانی کے کردار ہیں جنہوں نے پاکستان کو پٹری سے اتار کر کروڑوں لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ بلا شبہ، یہ گینگ قومی مجرم ہے۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ نواز شریف کو جیل بھیجنے اور تاحیات نااہل کرنے والوں کا دل ابھی بھرا نہیں، اس وقت بھی یہ کوشش جا ری ہے کہ اگلا الیکشن بھی نواز شریف کے بغیر کروا دیا جائے۔ ابھی بینچ فکسنگ کا شوق پورا نہیں ہوا، ابھی اداروں کی بے توقیری میں شاید کچھ کسر باقی ہے۔کون سی ندامت، کہاں کی معافی۔ سوشل میڈیا پر کل ایک ٹرینڈ تھاـ: یہ جو ملک کی حالت ہے.....اس کے پیچھے عدالت ہے۔

تازہ ترین