• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

یہ اطلاعات تو آپ تک پہنچ ہی گئی ہوں گی کہ سندھ حکومت کو امریکہ کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لئے بھیجے جانے والے چاول، گندم کی بوریاں لاڑکانہ کے بازاروں میں سر عام فروخت ہو رہی ہیں۔ضمیر فروشوں کی دیدہ دلیری تو دیکھئے کہ امدادی تھیلوں پر واضح لکھا ہے کہ یہ امداد خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر دی گئی ہے۔ یہ برائے فروخت نہیں۔ یہ وہی بدنسل ہے جس نے آزاد کشمیر کے تباہ کن زلزلے میں لوٹ مار کی۔ کوئی بہت زیادہ دور کی بات نہیں چند دن پہلے سابق آمر جنرل پرویزمشرف اس دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہوئے۔ وہ خود کو طاقتور ترین انسان سمجھتے تھے۔ مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر اپنے دشمنوں کو مکے لہرا لہرا کر للکارتے تھے۔ کارگل جنگ کی آڑ میں اقتدار میں آئے، بھارت سے ایسے تعلقات خراب کئے کہ اب تک خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ وکلاپر گولیاں چلوائیں، لال مسجد میں بے گناہ نمازیوں کو شہید کیا۔ افغانستان کی جنگ میں پاکستان کو ایسا جھونک کر گئے کہ آج تک پوری قوم دہشت گردی کی صورت میں اس کا کفارہ ادا کررہی ہے۔ ڈالروں کے عوض بے گناہوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ اس سارے کھیل میں کروڑوں ڈالر، ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک بنے۔ بے تحاشا جائیدادیں بنائیں۔ عدلیہ سے غدار قرار پائے، بیرون ملک فرار ہوئے۔ مرتے دم تک مگر ملک میں واپس نہ آسکے۔ انتقال ہوا تو خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔ چند روز زیر بحث رہے آج صرف اپنے سیاہ دور کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے اس میں بڑی نشانیاں ہیں، آپ کو یہ بھی یاد ہو گاکہ جب چھوٹے میاں، وزیراعظم بنے تو اُچھل اُچھل کر کہتے تھے کہ اپنے کپڑے بھی بیچ کر غریب کا سہارا بنوں گا۔ وزیراعظم کو غریب کا سہارا تو کیا بننا تھا اُلٹا غریب کے کپڑے ہی اٹھا کر آئی ایم ایف کو دے دیئے اور آئی ایم ایف ہے کہ لنڈے کے ان کپڑوں کے عوض نئے قرضے دینے کو بالکل بھی تیار نہیں،اب ہم سب عریاں ہیں۔ وزیراعظم نے اگربڑی تباہی کی چھوٹی چھوٹی نشانیاں دیکھنی ہوں تو کسی بھی پاسپورٹ آفس کے باہر چلے جائیں جہاں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی لمبی لمبی قطاریں ہمیں خبر دار کررہی ہیں کہ ہمارا ہنر مند، ڈگری یافتہ ، پڑھا لکھا نوجوان اس نظام سے باغی ہو چکا ہے اور وہ ایسے ملک میں رہنے کو تیار نہیں جہاں انجینئر ،پلمبر کا کام کرنے پر مجبور ہو۔ ڈاکٹر، مستری کا کام کرنے پر مامور ہو۔ جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ریڑھیاں لگا رہے ہوں، کچھ ایسے بھی مجبور ہیں جو ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے درجۂ چہارم کی نوکریاں حاصل کرنے کے لئے انٹرویو دے رہے ہیں۔ یہ کیسا نظام ہےجہاں ایک جج کے اردلی کی تنخواہ و پنشن، ڈاکٹر، انجینئر سے زیادہ ہو۔ جہاں جج کی مراعات سوچ سے بالا تر ہوں۔ جہاں کچھ اداروں سے متعلق لوگوں کو غیر معمولی اور انوکھے مواقع حاصل ہوں اور ان کے مقابلے میں دوسرے اداروں کے اہلکار ان مراعات اور سہولتوں سے محروم ہوں اور پھر ہم توقع رکھیں کہ اس ملک کا نظام ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم ایک ایسے غیر منصفانہ معاشرے کے مکین ہیں جہاں مخصوص اداروں کے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد پیسے بنانے، کمانے والے سرکاری محکموں ، کارپوریشنوں اور اتھارٹیوں میں سابقہ محکمے کی پنشن کے علاوہ بھاری تنخواہوں، مراعات کے عوض نئی نوکریاں منتظر ہیں اور عام پڑھا لکھا نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے دھکے کھا رہا ہے۔ اقرباپروری، کرپشن، قومی خزانے کو لوٹنے، ترقیاتی منصوبوں کے نام پر اربوں کھربوں روپے کے ڈاکے مارنا اور پھر پکڑے بھی نہ جانا یہ اب معمول کی کارروائیاں تصور کی جاتی ہیں کہ اس سے زیادہ آسان کام کیا ہوگا کہ آپ اربوں روپے لوٹیں، پکڑے جائیں تو کروڑوں روپے کے عوض اپنے حق میں انصاف کے نام پر کلین چٹ لے کرمارکیٹ میں ایک نئے نام سے معزز شہری کے طورپر لانچ کر دیئے جائیں۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ کس طرح آئی ایم ایف نے پوری قوم کی گردن پر شکنجہ کس رکھا ہے اور ان اگلے پچھلے حکمرانوں کی پیشانی پر پریشانی کی کوئی ایک بھی جھلک نظر نہیں آتی۔ آئی ایم ایف نے نویں جائزے کے دوران جب سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور اہم اداروں کے عہدیداروں کے تمام اندرونی، بیرونی منقولہ و غیر منقولہ اثاثوں کو نہ صرف منظر عام پر لانے بلکہ الیکٹرونک سسٹم کے ذریعے پبلک کرنے کی شرط رکھی تو تھوڑی سی امید پیدا ہوئی تھی کہ یہ نظام کسی حد تک ٹریک پر آجائے گا لیکن کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ بابوؤں نے یہ شرط صرف گریڈ 17 تک ہی محدود کروادی۔ باقی سب بچ نکلے۔ کاش ! آئی ایم ایف ہم پر ایک احسان اورکردے کہ آئندہ جب بھی قرضے کی قسط کا معاملہ زیر بحث آئے تو اس شرط کو لامحدود کردے یا پھر موجودہ حکمرانوں کو تھوڑی بہت شرم آئے تو عام انتخابات سے قبل اپنے اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور امیدواروں، پاکستان کے شاہی خاندانوں، ججوں، جرنیلوں کے اندرونی و بیرونی ، منقولہ و غیر منقولہ اثاثوں اور ٹیکس کی تفصیلات بھی پبلک کی جائیں اور جب وہ اقتدار میں آئیں اور رخصت ہوں تو اپنے اثاثوں کی مکمل تفصیلات دے کر جائیں گے۔ یاد رکھئے اگر ہم نے من حیث القوم ان تمام ”پوشیدہ قومی امراض “ کی سرجری نہ کی تویہ اشرافیہ کا یہ کرپٹ نظام زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں کہ جہاں ایک سے بڑھ کر ایک انوکھا لاڈلا لایا جاتا ہے اور اپنے پیچھے کرپشن کی نئی داستانیں چھوڑ کر چلاجاتا ہے۔

تازہ ترین