• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ہمارے ملک میں، ملک کے چاروں طرف ہو کیا رہاہے، ترکیہ کے زلزلے کی تباہ کاریوں کو جو لوگ رپورٹ کر رہے تھے انہیں نہ صرف منع کیا گیا بلکہ دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اس طرح دہلی میں ایک نشست میں ہمارے پرانے دوست اشوک واجپائی کو بھی مدعو کیا تھا۔ جب وہ شعر پڑھنے آگے بڑھے تو کسی نے روک کر کہا سیاسی نظم نہیں پڑ ھ سکتے وہ الٹے پائوں واپس ہوگئے۔ یہیں جاوید اختر کا مضحکہ خیز بیان سامنے آیا ہے کہ ہم نے تو پاکستان میں غربت دیکھی ہی نہیں۔ ظاہر ہے جب آپ 5اسٹار ہوٹل میں رہیں گے، مالداروں کے گھروں میں بلائے جائیں گے اب بھلا کوئی پوچھے وہ علی ظفر کے گھر کھانے پر کیوں گئے۔ اس لئے نا، جیسے نصرت فتح علی نے آپ سے شاعری لکھوائی۔ آپ ان کے گھر گئے آپ کسی ادیب کے گھر تو نہیں گئے اور جن گھروں میں گئے وہاں فرش اتنے صاف تھے کہ آپ کو ان پر شیشے کا گمان ہوا ہوگا۔ شبانہ سے شادی کرنے سے سرخاب کے پر لگ گئے۔ چلیں رہیں خیر سے کہ زویااور فرحان اختر، دونوں کو باپ کا اسٹائل پسند ہے، ویسے ہمارا بھی دوست ہے برا نہیں کہیں گے۔

آج کل پاکستان کے مختلف حصوں میں بسنت منائی جا رہی ہے۔ پنجاب میں دس سال سے پابندی ہے کہ وہاں کی ڈورمیں تانبے کی تار یا اتنا موٹا شیشہ ملایا جاتا ہے جس کے سبب یہ ڈور جس کے پاس سے گزرتی ہے اس کو معدوم کر جاتی ہے۔ مخمصہ یہ ہے کہ پنجاب میں ایسی ڈور بنانے والوں کو پکڑا کیوں نہیں جاتا۔ یا پھر یہ بھی کسی اسکیم کے تحت پنجاب کی بسنت و بہار کو ختم کرنے کی منظم کوشش ہے۔ اس وقت جب کہ ہر ضلع، ہر صوبہ اپنی ثقافت کا دن منا رہا ہے سرکاری نمائشیں ہو رہی ہیں کسی اور شہر میں ڈور سے گلے نہیں کٹ رہے ۔

پاکستان میں مہنگائی اور ڈاکوئوں کے جانکاہ مسائل سے ذہنوں کو مصروف کرنے کے لئے موسم بہار کے نام پر کہیں ادبی کانفرنس، کہیں ڈریس شوز اور مشاعرے کروائے جا رہے ہیں۔ مگر پاکستان بھر میں کہیں بھی انڈیا کی طرح شاعری اور مزاحمتی شاعری پڑھنے پر سخت بندشیں نہیں ہیں۔ شری شرما جیسی خاتون تک کوبولنے سے منع کیا گیا ہے۔

آج جبکہ روس اور امریکہ کے وزیر خارجہ، یوکرین کے مسئلے کے حل کے لئے بات چیت کر رہے ہیں، انڈیا میں جس طرح بی بی سی کی دستاویزی فلم پر سخت گیری اور دکھانے کی ممانعت کے علاوہ بی بی سی آفس کے لوگوں کو تنگ کیا جا رہا ہے ۔ اس سے بھی دس گنا زیادہ کشمیر میں پکڑ دھکڑ اور دوسرے ممالک میں پڑھنے کو جانے والے نوجوانوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ ایسی صورت حال تین برس سے جاری ہے اس وقت تو مودی صاحب بالکل اسٹالن بن کر ملک چلا رہے ہیں۔پاکستان میں اس وقت صرف اقتصادی ماہرین ہی نہیں وہ عورت جو لہسن چھیل کر بیچ رہی ہے ان سب باتوں کو میرے قلم نے کچھ اس طرح سوچا اور پیرہن پہنایا میں نے اس سے کچھ کھانے کو مانگا اس نے بھوک پلیٹ میں لاکر کر رکھ دی/ کیا سوکھی روٹی بھی نہیں کہ میں پانی لگا کر نرم کرلوں / مگر پانی کہاں ہے / سرکار کے سارے فلٹر خشک پڑے ہوئے ہیں/اچھا پھر بغیر دودھ کی چائے دیدو/ بھئی بتایا نا، پانی بھی غائب ہو گیا / دکان میں دودھ تو ہوگا وہ بھی نہیں/بھینسوں کو صرف گارا دیا جاتا ہے / ان کے تھنوں میں دودھ نہیں ہے/ اچھا مجھے آٹے کی بھوسی لادو/ واہ آٹا ہوگا تو بھوسی ہوگی/ بچے رورہے ہیں انکو بسکٹ ہی دے دو؍ ٹیکس لگ گیا ہے/ بسکٹ بہت مہنگے ہو گئے ہیں؍اچھا تو پھر میں سرکار سے شکایت کروں/ کیا کہا سرکار/ وہ کہاں ہے؍چلو پھر اجتماعی خودکشی کر لیں/ مگر قبر کے لئے تو پیسے دینے پڑیں گے۔ اب یہاں آکے شاعر اور ماہر اقتصادیات بھی چکرا گیا۔

کبھی اولیت سیلاب زدگان کو دی جاتی ہے مگر بلاول نے تو کل ہی کہا ہے کہ سندھ میں اب تک پانی کھڑا ہے جن پر یہ آفت نہیں پڑی وہ توجہ نہیں کریں گے۔ اب آٹے کا بحران ہےجبکہ میڈیا دکھارہا ہے کہ گودام بھرے ہوئے ہیں۔ مزدور سے لے کراسلام آباد کی آدھی ورکنگ کلاس کو دوپہر ہو کہ شام تنور پر کھانا کھانا ہوتا ہے۔آج وہ تیس روپے کی روٹی کیسے کھائیں کہ روکھی روٹی بھی نہیں کچھ دال، کچھ چنے، کچھ شوربہ! مگر اس کا مطلب ہے سو روپے کی ڈش، دیہاڑی بھی ڈیڑھ سو کی اور دوپہر ہی کا کھانا بھی ڈیڑھ سو کا تو گھر والے کیا کھائیں گے کہ مزدور کی دیہاڑی ہی ڈیڑھ سو روپے ہے۔پاکستان کی اقتصادیات میں محبوب الحق سے لیکر ہر طرح کے ماہرین اقتصادیات آئے۔ اپنی سی اور اپنوں کیلئے کرکے رخصت ہوئے۔ بزعم خود ڈار صاحب مانگنے اور روز انٹرسٹ ریٹ بڑھانے کے کون سا اکانومسٹ ہے جو اپنی تھیوری میں قابل عمل سمجھا جا سکتا ہو۔ ہم نے جس قدر اکانومی کو پڑھا ہے وہ تو مہنگائی کو منہ کھلا چھوڑ دینے والا عمل ہے۔ اب ایک اور فیشن پر توجہ فرمایئے کوئی قومی ادارہ ہے جو آئے دن ’’ہنرمند‘‘ خواتین کیلئے بڑے بڑے ہوٹلوں میں کثیر رقم خرچ کرکے ان کی بنائی پروڈکٹس دکھاتاہے۔ یہ ایک دفعہ کی نمائش ان عورتوں کو خود اعتمادی اور آگے بڑھنے کی سبیل بن سکتی ہے۔ ان کے لئے باقاعدہ سیل آئوٹ لیٹ بنائیں، ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی اشیا کو وزیر اعظم اور صدر صاحب مغربی ممالک سے آنے والے مہمانوں کو پیش کریں۔ سارے صوبوں کی ہنرمند عورتوں کو ایک دوسرے سےمتعارف ہونے اور ایک دوسرے کے کرافٹ سیکھنے کا موقع فراہم کریں تو ممکن ہے وہ خواتین ان بوتیکس کو مات دے سکیں، کم خرچ اور زیادہ کمائی ہو۔

تازہ ترین