• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم دنیا کے دو نہایت اہم ملکوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کئی برسوں سے جاری شدید کشیدگی کا خاتمہ اور سفارتی تعلقات کی بحالی پر اتفاق پوری عالمی برادری کے لیے بلاشبہ بڑی خوش آئند پیش رفت ہے جس سے جنگ زدہ مسلم ملکوں یمن اور شام سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں پائیدار قیام امن کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔عالمی امن کے حوالے سے اس امید افزاء پیش رفت میں چین کی دور اندیش اور صاحب بصیرت قیادت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جس پر وہ بجاطور پر خراج تحسین کی حقدار ہے۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سعودی عرب، ایران اور چین کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق تہران اور ریاض نے اتفاق کرلیا ہے کہ دوماہ کے اندر باہمی سفارتی تعلقات کی بحالی کا عمل مکمل کرلیں گے اور دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے سفارت خانے اور مشن کام شروع کردیں گے ۔ایران کی سرکاری خبر ایجنسی ’ارنا‘ کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے حالیہ دورے کے بعد سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری نے چین کا دورہ کیا تاکہ مسائل حل کرنے کے لئے سعودی وفد کے ساتھ وسیع مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ایرانی نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری اور سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان کئی دنوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں نے تعلقات کی بحالی کا معاہدہ کرلیا، پھر ایک تقریب میں ایران، سعودی عرب اور چین کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق دو ماہ میں سفارتی تعلقات کی بحالی اور باہمی خودمختاری کے احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیتے ہوئے دونوں ممالک نے 17 اپریل 2001 کو طے پانے والے سیکورٹی تعاون کے معاہدے پر عمل درآمد پر اتفاق کر لیا ہے۔ دونوں ممالک نے 27 مئی 1998 کے عام معاہدے پر بھی اتفاق کرلیا ہے، جس کا مقصد اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری، تکنیکی، سائنسی، ثقافتی، کھیلوں اور نوجوانوں کے امور میں تعلقات کو فروغ دینا تھا۔اپنے مشترکہ بیان میں تینوں ممالک نے علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ہر تدبیر بروئے کار لانے پر زور دیا۔ واضح رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 2019ء سے تعلقات میں شدید کشیدگی تھی جب سعودی عرب نے ایران پر سعودی آئل ڈیپو پر ڈرون حملہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا تاہم ایران نے اس الزام کی تردید کی تھی۔یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی سعودی عرب پر سرحد پار میزائل اور ڈرون حملے کرتے رہے ہیں اور 2022 میں وہ حملے متحدہ عرب امارات تک جا پہنچے تھے۔ امید کی جانی چاہیے کہ سعودی ایران تعلقات کی بحالی جلد ہی یمن اور شام میں جاری جنگ اور بدامنی کے خاتمے کا باعث بنے گی جیسے کہ ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہ نے اپنے بیان میں اس معاہدے کو بجاطور پر مشرق وسطیٰ میں روشن امکانات کا نقیب قرار دیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے بھی سعودی ایران معاہدے پر اظہار مسرت اطمینان بخش بات ہے۔وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان کے مطابق امریکا معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ ہے اور یمن میں جنگ کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کے سلسلے میں کسی بھی کوشش کا خیر مقدم کرتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی اس معاہدے پر تینوں ملکوں خصوصاً چین کی قیادت کی دور اندیشی اور فراست کو سراہتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ یہ اہم سفارتی پیش رفت علاقائی اور عالمی امن و استحکام میں نہایت معاون ثابت ہوگی۔ بلاشبہ جنگ اور خوں ریزی کسی مسئلے کاحل نہیں ، تنازعات کا منصفانہ تصفیہ نیک نیتی سے کیے جانے والے افہام و تفہیم کے عمل ہی سے ممکن ہوتا ہے۔

تازہ ترین