• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھولوں کے کھلنے کا موسم آن پہنچا ہے۔ وطن عزیز کیلئے بھی یہی خبر ہے اور اس موسم کی رنگینیوں کو دوام بخشنے کی خاطر یہ عمل نہایت ضروری ہو چلا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو چین کے دورے پر روانہ ہو جانا چاہئے ۔ میرے لئے تو یہ ایک معمہ ہی ہے کہ وہ اب تک بیجنگ کیوں نہیں جا سکے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی آرمی چیف کی گفتگو اس کے وعدے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک انتہائی اہم عنصر کے طور پر موجود ہیں بالخصوص چین کے معاملے میں تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، چینی حکام ان کے دورے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں تاکہ اس سست روی اور نقصان کا ازالہ ہوسکے جو سی پیک اور دیگر امور میں عمران خان کی سابقہ حکومت اور اس دور کی اسٹیبلشمنٹ کےدور میں در آئی ۔ راقم الحروف اس زمانے میں بھی تواتر سے انہی صفحات پر اپنی گزارشات رقم کرتا رہا کہ سی پیک پر کام رک گیا ہے طویل عرصے تک جے سی سی کی میٹنگ ہی نہیں ہوئی ! اسی زمانے میں میری گزارشات کے جواب میں میرا نام لے کر مجھے مخاطب کرتے ہوئے سی پیک پر ایک کالم تحریر کروایا گیا مگر اس میں تمام منصوبے وہ بیان کئے جاسکے جو نواز شریف دور میں شروع ہو چکے تھے اور اپنے دور کو گول کر گئے ، سر پیٹ لیا ۔

اب اس صورت حال کو ماضی بنانے کی غرض سے جنرل عاصم منیر کو بیجنگ کی سرزمین پر پہنچ جانا چاہئے کیونکہ سی پیک اور دیگر معاشی اہداف کے معاملے میں دیر اس حد تک کر دی گئی تھی کہ یہ معاملہ مجرمانہ غفلت سے بھی آگے بڑھ گیا تھا چنانچہ اس نقصان کے ازالے کی غرض سے سی پیک پر کام کی رفتار کو دگنا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وقت کی کمی کے مسئلے سے بچا جا سکے ۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر اس تجویز پر بھی معقول شرائط کے ساتھ عملدرآمد کرنا ممکن ہو گا جو اس وقت گردش کر رہی ہیں کہ چین یہ آفردے رہا ہے کہ پاکستانی تاجر اپنی ایل سی چین میں کھولیں اور مصنوعات کو پاکستان میں وصول کریں مگر اس سب کیلئے سابقہ دور کے اقدامات کا ازالہ لازمی ہے ۔پاکستان کے لئے مثبت خبریں صرف چین سے ہی نہیں آرہیں بلکہ یورپی اقوام بھی آگے بڑھ رہی ہیں اور اس تصور کو بے بنیاد ثابت کر رہی ہیں کہ بھارت کی موجودہ معاشی صورتحال کے سبب دنیا پاکستان کو وہ اہمیت دینے پر تیار نہیں ہے جس کا پاکستان حقدار ہے ۔ مثال کے طور پر اٹلی کی جانب سے ٹھنڈی ہوائیں مسلسل چل رہی ہیں ۔ اٹلی اور پاکستان بہت سےبین الاقوامی امور پر بھی یکساںنقطہ نظر رکھتےہیں جیسے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد کو وسعت نہ دی جائے اور اس مقصد کیلئے دونوں ممالک نے پاک اٹلی کافی کلب بھی قائم کر رکھا ہے ۔

اسی طرح ایف اے ٹی ایف کے معاملات سے نبرد آزما ہونے کیلئے بھی اٹلی نے پاکستان کی خوب مدد کی اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ اٹلی اورپاکستان کی دفاعی معاملات میں بھی بہت پیش رفت ہو رہی ہے ، جس پر بھارت بہت چراغ پا ہے مگر اٹلی اس کی پروا نہیں کر رہا بالکل اسی طرح جس طرح جرمنی کی وزیر خارجہ نے برلن اور اسلام آباد میں کھڑے ہوکر کشمیر کے قضیے کے حل کیلئےاقوام متحدہ کی بات کی تھی اور اس کی بالکل پروا نہیں کی تھی کہ بھارت اس پر کیا ردعمل ظاہر کرے گا اور یہ بات بھارت پر اس قدر شاق گزری کہ وہ اب تک اس کےاثرات سے باہر نہیں آیا۔حال ہی میں اس نے جی ٹوئنٹی وزرائے خارجہ اجلاس کے وقت جرمن وزیر خارجہ سےایسا رویہ اپنایا کہ نہ تو ان کااستقبال کیا گیا اور نہ ہی ان کیلئے سرخ قالین بچھایا گیااور یہ اسی درد کا اظہار ہے جو بدستور بھارت کو ہورہا ہے ۔ قطر بھی حسب سابق پاکستان کی مدد کرنے کیلئے بہت متحرک ہے اور اس سلسلے میں پاکستان میں متعین سفیر قطر شیخ سعود بن عبدالرحمن آل ثانی بہت محنت کر رہے ہیں ۔ قطر بچوں کی تعلیم کیلئےپاکستان میں ایک بہت بڑے اسکول کے قیام کی راہ پر پر گامزن ہے جبکہ افرادی قوت سے لے کر مالی معاملات میںبھی پاکستان کےشانہ بشانہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب تو خبریں یہ بھی ہیں کہ پاک بحریہ اور پاک فضائیہ سے بھی قریبی تعاون زیر غور ہے ۔ پاکستانی افواج بری ، بحری ، فضائیہ کے افسران و اہلکار زبردست پیشہ ورانہ صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اظہار کے لئے ضروری ہے کہ ان کے پاس اپنے شعبے کی ضروری اشیاموجود ہو اور اسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے خبر ہے کہ قطر پاکستان کو گراں قدر چیزیں تحفے میں دینے والا ہے۔

ایک اور اہم مسئلہ کی جانب وزیر اعظم کے آفس اور وزارت خارجہ کی توجہ درکار ہے کہ رومانیہ پاکستان سے ورک فورس لے کر جانا چاہتا ہے جس کیلئےوہ اپنا ایک اور سفارت کار بھیجنا چاہتا ہے مگر پاکستان اس سفارت کار کے معاملات کو حل ہی نہیں کر رہا کہ یہ معاملہ آگے بڑھ سکے ۔ اگر ہم اس سارے منظر پر نظر ڈالیں تو ہمارے سامنے سب کچھ خوش کن ہے کہ چین سے قطر تک سب اچھا ہے، تاہم جہاں تک آئی ایم ایف سےمعاملات طے ہونے کی بات ہے تو مسئلہ یہ بنا ہوا ہے کہ عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف کو سی پیک کی تمام تفصیلات مہیا کر دی تھیں، آئی ایم ایف اب بھی یہ چاہتا ہے کہ اس نوعیت کی تفصیلات جو معاشی و دفاعی نوعیت کی ہوں اسے فراہم کی جائیں کیونکہ ماضی میں پاکستان ایسی مثال قائم کرچکا ہے ۔ ماضی میں بھی یہ ایک انتہائی غیر مناسب اقدام تھا اسی لئے موجودہ حکومت اس شرط سے جان چھڑا کر معاہدہ کرنا چاہتی ہے تاکہ کسی قیمت پر بھی پاکستان کے ریاستی راز کسی دوسرے کے علم میں نہ آئیں بس یہی ذرا سی مشکل ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین