• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کی اصلیت روحانی و باطنی اسرار محبت ہے اور محبت کی علامت سرخ رنگ ہے۔قلندر لعل شہباز کی ذات میں یہ رنگ پوری طرح سرایت کئے ہوئے تھا۔وہ ظاہری وجود پر سرخ لباس زیب تن کرتے تھے، ان کا چہرہ اور آنکھیںمستقل سرخ رہتے تھے جو اس بات کا واضح اعلان تھا کہ ان کا وجود ہر لمحہ سچے عشق کی انگیٹھی میں جل رہا ہے اور حالتِ وجد میں ہے ۔ تاہم ان کے نام کے ساتھ جڑا حوالہ، لال نہیں بلکہ لعل ہے۔ لعل یعنی ہیرا یا قیمتی پتھر تصوف میں گہری معنویت کا حامل ہے۔ہیرا ایک ایسا سُچا موتی ہوتا ہے جس کی مادی حیثیت تومسلم ہوتی ہے مگر اس میں رتی بھر کھوٹ یا میل نہیں ہوتی۔اس کا شفاف اور خالص ہونا اہمیت رکھتا ہے صوفی ،ولی بھی ہیرے کی مانند ہوتا ہے۔وہ مادی دنیا میں موجود ہوتا ہے ، اس کا وجود خاص ہوتا ہے۔وہ اپنے اندرکے میل کو خاکستر کرکے ایسی لطافت حاصل کرتا ہے کہ باہر کی کوئی کثافت اس پر حملہ آور نہ ہو پائے۔ ہر صوفی آزمائش کی آگ میں جل کر خود کو خالص بنانے کا جتن کرتا ہے لیکن کچھ کو قدرت پیدا ہی لعل کی صورت کرتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق بچپن میں شہباز قلندر پتھروں سے کھیل رہے تھے،کوئی صاحبِ نظر قریب سے گزرے تو بے ساختہ کہہ اٹھے، لعل، لعلوں سے کھیل رہا ہے۔یوں تو اندر کے حال سے واقف اولیاء اور زمانے کی آنکھ نے کئی لقب عنایت کئےمگر سب سے زیادہ لعل قلندر یا قلندر لعل سے پکارے گئے۔ رب نے لعل شہباز قلندر کو اس دنیا میں پیدائشی طور پر ولی کی سند کے ساتھ سرفراز کر کے بھیجا۔یوں انھیں ولایت کی مرتبے تک پہنچنے کے لئے صوفیا کے مروجہ راستوں اور آزمائشوں سے گزرنے کی ضرورت نہ ہوئی مگر انھوں نے علم کے حصول پر خصوصی توجہ دی۔ ظاہر اور باطن کی حقیقت سمجھنے کے لئے لفظ کے تن من میں جھانک کر اس سے جڑی معنویت کا سراغ لگانے کی کوشش کی تو لسانیات اور صرف و نحو میں ایسی کمال مہارت حاصل ہوئی کہ اس میدان میں بھی معتبر ٹھہرے۔قلندر تصوف کی اصطلاح میں اعلی درجہ ہے۔ جس تک پہنچ کر صوفی کا تن من سونے کی طرح صیقل ہو جاتا ہے، جسم ہر قسم کی دنیاوی خواہش اور مادی جکڑ سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یوں اس مقام پر صوفی کی ذات براہ راست ذاتِ حق سے تعلق استوار کر لیتی ہے اور درمیان موجود رابطے اور دھندلکے اوجھل ہو جاتے ہیں۔قلندر کیونکہ اعلی ترین درجہ ہے اور اس مقام پر اس کے وجود میں روحانی طاقت مادی کشش کو ملیامیٹ کرچکی ہوتی ہے۔اس لئے اس سطح پر مال و دولت، زمین اور شہرت کے بارے میں صوفی کے مزاج میںایک خاص قسم کی بے نیازی در آتی ہے جو بعض اوقات ملامتی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے۔اس کی ایک وجہ نفس کو غلام بنانیوالی مادیت یا ظاہریت سے ناپسندیدگی ہے اور دوسری یہ کہ قلندر حالتِ وجد و سرور میں رہتا ہے۔جسم سے زیادہ اس کی روح متحرک ہوتی ہے اسلئے ارد گرد موجود لوگوں کو اس کے رویے میں عجب تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔

لعل شہباز قلندر نے زندگی بھر رب کی مخلوق کی ظاہری و باطنی تربیت کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ان کو ترغیب دی کہ دلوں کو حرِص وہوس کے انبار سے نجات دلائیں۔نفی کے جھاڑو سے کونے کھدروں میں لگے جالے صاف کر کے محبت کے ایسےعطر کا چھڑکاؤ کریں جس کی خوشبو اثبات کی گواہی دے۔لعل شہباز متبرک خطہ آذر بائیجان کے شہر مروند سے اپنے مرشد شیخ جمال مجرد کے حکم پر ہندوستان آئے۔جہاں ان کی رہنمائی کے لئے چشتیہ اور سہروردیہ سلسلوں کی معتبر ہستیاں بہائوالدین زکریا،شیخ فریدالدین گنج شکر اور مخدوم جلال الدین سرخ بخاری منتظر تھیں۔انھوں نے ملتان میں ان بزرگوں سے فیض اٹھایا مگر اولیا کا شہر انھیں مستقل ٹھکانہ بنانے پر قائل نہ کر سکا۔ یہ اعزاز سندھ کی بھاگ بھری دھرتی کو حاصل ہوا۔قلندر نے سیہون شریف جو حملہ آوروں کا راستہ اور اڈہ ہونے کی وجہ سے ویرانی اور دہشت کی علامت تھا میں اپنا مسکن بنایا تو یہ علاقہ دنیا بھر کے اولیا، صوفیا اور درویشوں کا ڈیرہ اور اہل عشق و تصوف کی چِلہ گاہ بن گیا۔ اس ڈیرے نے ہر فرقےکے لوگوں کو محبت کی لڑی میں پرو رکھا ہے۔ یہاں بجنے والی نوبت مادیت کے جال میں مقید لوگوں کو جاگنے اور رقص کرنے کی دعوت دیتی ہے۔رقص متحرک ہونے کا نام ہے۔وجود کو اکٹھا کرکے آگے بڑھنے کی جستجو ہے۔اپنےاندر کی آواز کو سننے کا جتن ہے۔اس وقت پاکستان جس افراتفری سے گزر رہا ہے اس سے نکلنے کے لئے ہم سب کو آنکھیں بند کرکے سوچنے اور اندر کی روشنی میں سفر کرنے کی ضرورت ہے کہ کھلی آنکھوں میں پڑی گرد نے اشیا اور راستے کو دھندلا دیا ہے۔ اندھا دھند بھاگ دوڑ کی بجائے کچھ لمحے توقف کرکے اپنے ذمے واجب قرض کا حساب لگانا اور کفارہ ادا کرنا ہے۔ہمارے مسائل کا حل ہمارے اپنے پاس ہے۔ اندر کی آواز سنیں۔ ہر شفا اسی میں ہے۔

تازہ ترین