• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں تو برسوں سے اس نظام کے خلاف لکھ رہا ہوں، بول رہا ہوں کہ اس نظام کی جھولی میں خیر نہیں ، یہ نظام پستی کا سفر ہے، اس نظام نے ہمارے لوگوں کی آسوں، امیدوں پر پانی پھیرا ہے، اس نظام نے لوگوں کی خدمت نہیں کی بلکہ لوگوں کی زندگیوں کو تباہ و برباد کیا ہے، ان کے راستے میں مشکلات اسی نظام کے طفیل ہیں ۔ 75برسوں میں یہ نظام چند خاندانوں کی خدمت کرتا رہا اور لوگوں کی اکثریت کی زندگیوں میں زہر گھولتا رہا ہے ۔ متعدد مرتبہ ارباب بست و کشاد سے درخواست کی کہ خدارا اس نظام کو تبدیل کر دیں ، یہ نظام ہمیں تنزلی کی طرف لے جا رہا ہے جبکہ ہمیں ترقی کی طرف جانا ہے ۔

صاحبو!

اب حالت یہ ہے کہ اس نظام کا حصہ رہنے والے بڑے بڑے کردار اس کے خلاف تقریریں کر رہے ہیں۔ اب حالت مزید بگڑ گئی ہے کہ آج کی بیوروکریسی میں شامل چند ایک لوگوں سے بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی ہے ان کا خیال ہے کہ یہ نظام گر چکا ہے، ملک بہت پیچھے چلا گیا ہے، اب ہم روئیں بھی تو ہمارا رونا کس کام آئے گا، میں انھیں تسلیاں دیتا رہا، ان کے سامنے امید کے چراغ جلاتا رہا ، انھیں بہت سی قوموں اور ملکوں کی مثالیں دیتا رہا مگر وہ میری ساری تسلیاں،امیدیں اور مثالیں ماننے پر تیار نہ تھے، میں نے انھیں بہت سمجھایا کہ بس اب نظام بدلنے والا ہے، جونہی نظام بدلے گا تو ہم ترقی کے راستے پرگامزن ہو جائیں گے۔

ایک چیز طے ہے کہ اب نظام بدلے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہوگا کیونکہ موجودہ نظام میں اتنا زہر بھر چکا ہے کہ اگر یہی نظام رہا تو یہ ہم سب کو کھا جائے گا اور وہ جو خود کو بہت محفوظ تصور کرتے ہیں ، وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے کیونکہ جب معاشرے میں توڑ پھوڑ ہوتی ہے تو پھر وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔ جب انسانوں کا سمندر بپھر جاتا ہے تو اس کے سامنے پھر کوئی کھڑا نہیں رہ سکتا، انسانوں کے بپھرے ہوئے سمندر کے سامنے ٹھہرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا اور اس وقت تو بالکل بھی ممکن نہیں ہوتا جب ادارے مفلوج ہو چکے ہوں۔

ہمارے بوسیدہ نظام کا مکروہ’’چہرہ‘‘ کس قدر بھیانک ہے، اس کا اندازہ اس گفتگو سے لگائیے جو ایک عام پاکستانی نے مجھ خاکسار سے کی ۔ اس کے چہرے پر مایوسی کے بادل تھے، وہ رنجیدہ تھا، اسے پورے نظام سے نفرت تھی، وہ بے یقینی کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کہیں زندگی اور موت کے پل پر کھڑا ہو ، ایک لمحہ اسے زندگی بخش سکتا ہے اور ایک دوسرا لمحہ اسے موت کی وادی میں دھکیل سکتا ہے۔ وہ میرے پاس بیٹھا اس انتظار میں تھا کہ کب باقی لوگ جائیں تو وہ اپنی بپتا بیان کرے۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار بڑھتے جا رہے تھے ۔

میں بھی اس کی بے چینی کو بھانپ گیا سو میں نے دوسرے لوگوں سے کہا کہ ہاں بھئی جس جس نے جو جو کہنا ہے جلدی کہے کیونکہ مجھے دور سے آئے ہوئے اس شخص کی بات سننی ہے۔ جب باقی لوگ چلے گئے تو وہ بولا.....’’صاحب! میں ایک دیہاتی آدمی ہوں، میرے دشمن طاقتور ہیں ، انہوں نے میرے بھائی کو قتل کیا ، اب وہ مجھے ہر صورت میں گاؤں سے نکالنا چاہتے ہیں ، ویسے تو میں ایک طرح سے گاؤں سے نکلا ہوا ہوں کیونکہ گاؤں میں صرف میرے بیوی بچے ہیں،میں تو اب لاہور شہر میں مزدوری کرتا ہوں....‘‘ وہ یہ کہہ کر چپ ہو گیا اور پھر رو پڑا، تو میں نے اس سے پوچھا ، آپ کو مشکل پیش کہاں آرہی ہے ؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہنے لگا...’’ مشکل کوئی ایک ہو تو بتاؤں، میں نے آپ کو بتایا ہے کہ پہلے میرے بھائی کو قتل کیا گیا ، بھائی کی تدفین سے فارغ ہو کر میں نے تھانے کا رخ کیا تو ایف آئی آر کے اندراج کیلئےمجھے انتظار کروایا گیا کہ جب تک تھانیدار نہیں آئے گا ، ایف آئی آر درج نہیں ہو گی، خدا خدا کر کے تھانیدار آیا پھر ایف آئی آر درج ہونے لگی تو مجھے کہا گیا کہ فلاں فلاں کا نام نکال دو، میں نے عرض کیا کہ وہی تو میرے بھائی کے قاتل ہیں ، میں کیسے ان کا نام نکال دوں، انہوں نے میرے کہنے کے باوجود تین کمزور آدمیوں کا نام لکھ کر دو طاقتوروں کیلئے نامعلوم لکھ دیا ۔ میں نے احتجاج کرنا چاہا تو مجھے دھمکایا گیا ۔ خیر ایک کمزور سی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد میں جب بھی پولیس والوں سے ملزمان کی گرفتاری کا پوچھتا تو وہ مجھے ڈانٹ دیتے یا کہتے کہ پیسے لاؤ، ہماری گاڑیوں میں پٹرول ڈلتا ہے۔ میں مجبور تھا، اس لئے میں نے کئی مرتبہ پولیس والوں کا منہ بند کرنے کے لئے پیسے دئیے ، دو ملزم گرفتار ہوئے تو مقدمہ عدالت کی طرف چلا گیا ۔اس دوران طاقتوروں نے میرے خاندان پر بہت پریشر بڑھا دیا۔ اب میرے اوپر بوجھ مزید بڑھ گیا ۔ میری فیملی کے علاوہ میرے بھائی کے بیوی بچوں کا خرچہ بھی میرے ذمے تھا، پولیس کو پیسے الگ دیتا، جب مقدمہ عدالت گیا تو پھر وکیلوں کا سامنا کرنا پڑا ، وہاں بھی سارا کھیل پیسے کا تھا، وکیلوں کو الگ پیسے دیتا، ان کے منشیوں کو الگ پیسے دینا پڑتے۔ یوں گھر اور گھر سے باہر کے اخراجات کے سبب مجھے قرض بھی لینا پڑا۔ مقدمہ ابھی عدالت میں ہے، طاقتور مجھے گاؤں سے نکالنا چاہتے ہیں، یہ سب کچھ اس نظام کی وجہ سے ہے ، آپ سوچیں کہ ایک میرا بھائی قتل ہوگیا ، میرے بھائی کے بچے یتیم ہو گئے ، میرے اوپر دو فیملیوں کا بوجھ پڑ گیا ، پولیس والوں کو پیسے دینا پڑے، وکلاء اور منشیوں کو بھی پیسے دئیے مگر مجھے انصاف ابھی تک نہیں ملا۔ ہمارا بندہ بھی گیا، پیسے بھی گئے اور ہمیں بے گھر کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے ۔ یہی ہمارے لولے لنگڑے اور مکروہ نظام کا بھیانک ’’چہرہ‘‘ ہے، میں کدھر جاؤں ، اپنا مقدمہ کس کے سامنے رکھوں.....؟‘‘

بس اب حالات ہمیں اس موڑ پر لے آئے ہیں کہ اب کوئی فیصلہ ہوگا بقول زبیر ہاشمی

غریب شہر کے نعروں سے گونجتی ہے فضا

امیر شہر کا وقتِ حساب آپہنچا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین