• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا فسانہ وقتاً فوقتاً اجاگر کیا جاتا ہے۔ لیکن نہ تو اس معاملے کی بنیاد کو دیکھا جاتا ہے نہ اس فسانے کے تخلیق کاروں کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان سے کچھ افراد لاپتہ ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ یقیناً پریشان ہیں اور اپنے پیاروں کی گمشدگی پر شدید دکھی ہیں۔ یہ لاپتہ اور گمشدہ افراد کون ہیں اور کیوں لاپتہ ہیں اور ان کے لاپتہ ہونے سے کس کو اور کیا فائدہ ہے،وہ کون لوگ ہیں جو ان افراد کو لاپتہ کرتے ہیں۔ اگر یہ جبری گمشدگیاں ہیں تو کون لوگ ہیں جو بلوچستان کے غریب لوگوں کو جبری طور پر غائب کر دیتے ہیں اور ان ’’جبری گمشدگیوں‘‘ کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔؟ یہ وہ اہم نکات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان گمشدگیوں کا تدارک بھی تبھی ممکن ہے کہ ان سوالات کے جواب تلاش کئے جائیں۔

سول سوسائٹی کے ادارے آزادانہ طور پر جبری گمشدگیوں کے الزامات کی نگرانی، رپورٹنگ اور تحقیقات کر رہے ہیں۔ یہ ادارے مکمل طور پر آزاد اور غیر جانبدار ہیں اور وہ آزادی کے ساتھ واقعات اور شواہد کی بنیاد پر اپنا کام کر رہےہیں۔ ان تحقیقات کے نتائج سامنے آئےبھی ہیں اور مزید نتائج بھی سامنے آئیں گے۔ آئین پاکستان ہر شہری کو بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ عدل و انصاف برابری کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ قانون کی نظر میں سب پاکستانی برابر ہیں تو پھر تفریق کرنے کو قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینا ضروری ہے۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہر شہری کے فرائض بھی مقرر ہیں۔ دراصل قانون ایک دائرہ ہے اور قانون ِتحفظ اور حقوق اس وقت دینے کا پابند ہے جب شہری اس دائرے کے اندر رہتا ہو۔ اگر کوئی قانون کی خلاف ورز ی کرتا ہے تو یہی قانون اس کو روکنے کیلئے حرکت میں آتا ہے۔ اسی طرح ریاست کے متعین کردہ قواعد و ضوابط کی پابندی بھی لازم ہے اور آئین اس وقت تک شہری کو حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے جب تک کہ وہ ان قواعد و ضوابط کے تحت رہتا ہو۔

آخر کیا وجہ ہے کہ بلوچستان سے ہی بعض افراد لاپتہ ہو جاتے ہیں یا لاپتہ کئے جاتے ہیں۔ ان گمشدگیوں کے پیچھے کن کے مفادات اور کونسے عوامل کارفرما ہیں۔ اس بارے میں اب تک کی تحقیقات اور ذرائع کے مطابق یہ پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف ایک منظم سازش ہے۔ اس سازش کے تخلیق کار بھارت اور اسرائیل ہیں جو بلوچستان کے باغی اور گمراہ گروہوں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہی ممالک اور گروہ بلوچستان کے غریب اور معصوم افراد کو گمراہ کر کے یا وقتی لالچ دے کر اپنے ساتھ ملالیتے ہیں اوران میں اکثر ایسے ہیں جو اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر ان گروہوں کے ارکان سے جا ملتے ہیںاور غائب رہتے ہیں جن کو یہ گروہ اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس سازش کا اہم پہلویہ ہے کہ ان افراد کے لاپتہ ہونے کا الزام پاکستان کے ریاستی اداروں پر لگایا جاتا ہے۔ اس کے پس پردہ ان دونوں ممالک کے دو مقاصد ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستانی ریاستی اداروں کو بدنام کیا جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان کے سادہ لوح عوام کو ریاست کے خلاف اکسایا جائےتا کہ وہاں بدامنی کو فروغ دیا جا سکے۔ بلوچستان کے عوام کے حقوق اور وہاں کی ترقی کیلئے ہونے والے اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں اور بلوچستان کی ترقی کے سفر اور منزل کو کھوٹا کیا جا سکے۔ اسکے علاوہ گمشدہ افراد کی تعداد کے غلط اعداد و شمار کا حوالہ دیکر اس سازش کے پروپیگنڈے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے۔جہاں تک ریاستی اداروں کا تعلق ہے۔ تو وہ بھی آئین و قانون کے پابند ہیں۔ وہ بھی نہ صرف ریاست کے متعین کردہ قواعد و ضوابط کے پابند ہیں بلکہ یہی تو ان کی ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہے کہ وہ ریاست کے تحفظ کیلئے بنائے گئے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کرائیں اور یہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں لاگو قواعد و ضوابط ہیںکہ کسی بھی شکل میں ریاست کے خلاف ہونے والے اقدامات کو ریاستی تحفظ کے ادارے روکنے اور ایسے اقدامات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے ذمہ دار اور پابند ہیں تو اگر کوئی کسی بھی صوبے اور علاقے سے ہو اور ریاست کے خلاف کسی بھی سطح پر شریکِ عمل ہو تو اس کے خلاف کارروائی تو لازم ہے۔ اگر بلوچستان سے ایسے کسی جرم میں کسی کو حراست میں لیا جاتا ہے اور اس سے پوچھ گچھ ہوتی ہے اور اس کا جرم ثابت ہو جاتا ہے تو قصور کس کا ہے اور اگر کوئی بے گناہ ثابت ہو تو اس کو فوری رہا کرنا اس شہری کا حق ہے۔ یہ ریاستی ذمہ دار اداروں کا طریقہ ہی نہیں ہے کہ وہ بلاوجہ کسی شہری کو حراست میں لیں۔اس طرح کرنے سے اداروں کو کیا فائدہ ہے یا ریاست کیلئے کیا بہتری ہے اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے تاہم بلوچستان کے چند گمراہ لوگوں کے علاوہ تمام عوام محب وطن ہیں۔ان کی حب الوطنی کسی شک و شبے سے بالاتر ہے۔ان کو جائز حقوق فوری طور پر دئیے جائیں۔

تازہ ترین