• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان عوام میں جتنے مقبول ہو چکے ہیں وہ اس سے زیادہ مقبول نہیں ہو سکتے بلکہ اب وہ غیر مقبول ہی ہوں گے اور (ن)لیگ عوام میں جتنی غیر مقبول ہو چکی ہے وہ اس سے زیادہ غیر مقبول نہیں ہو گی بلکہ یہاں سے وہ اپنا مقبولیت کا سفر ہی طے کرے گی‘‘۔یہ منطق (ن)لیگ کے ایک سینئر رہنما اور میرے دوست مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے ریاست کو بچانے کیلئے مشکل فیصلے کئے اور ہمیں مزید وقت درکار ہے ، مگر اگلے انتخابات کا بروقت انعقاد بھی بہت ضروری ہےلیکن اُس سے پہلے ملکی حالات مدنظر رکھنا بھی ازحد ضروری ہے۔ پھر عمران خان کا احتساب بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ (ن)لیگ کی طرف سے آج کل اسی قسم کا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسی بھی بیانیے کے مقبول ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی قسم کے کنفیوژن کا شکار نہ ہو، اُسے پوری پارٹی تسلیم کرے اور اُس پر من و عن یقین رکھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زمینی حقائق بھی ایسے ہونا ضروری ہیں جو آپ کے بیانیے کو فروغ دے سکیں۔پھر اس طرح کی سوچ کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ آپ بھول جاتے ہیں کہ اگر اسٹیٹس کو برقرار رہا اور عمران خان کی مقبولیت اور آپ کی غیر مقبولیت میں کوئی فرق نہ آیا تو پھر آپ کیا کریں گے؟ کیونکہ آپ بے شک اب یا سال بعد بھی جو کچھ مرضی کر لیں، اس اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنا بڑا مشکل امر ہے۔ ویسے تو سیاست میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی لیکن اس تبدیلی کیلئے کسی ٹھوس وجہ یا منطق کا ہونا از حد ضروری ہے مگر (ن)لیگ کے اس بیانیے میں ایسی کوئی ٹھوس وجہ یا منطق نظر نہیں آ رہی۔ابھی تک آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہو سکا اور اسکی شرائط روز بروز مزید سخت ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ بھی واضح نظر آ رہا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو جون میں پاکستان کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑے گا جس کی شرائط مزید سخت ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے طے پانے والی شرائط کے نتیجے میں جو مشکل فیصلے کئے جاتے ہیں اُن سے براہِ راست ملک کا غریب طبقہ متاثر ہوتا ہے جبکہ ملک کی اشرافیہ، جس کی ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے بنائی گئی پالیسیوں کی وجہ سے ہم اس نہج تک پہنچے ہیں، پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ حکومتی پالیسیوں کے ردِ عمل میں بھی غریب طبقہ ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اس ساری رسہ کشی میں حکومت ایسے موقع کی تلاش میں ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکے لیکن بدقسمتی سے الیکشن اگر اپنے وقت پر ہوں یا سال بعد بھی، حکومت کی مقبولیت میں کوئی اضافہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کیونکہ اگر حکومت نے یہ مشکل فیصلے نہ کئے تو پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے پھر مقبول اور غیر مقبول کا کھیل تو رہا ایک طرف، سرے سے ان کی سیاست کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف اور (ن)لیگ کے حامیوں میں ایک بنیادی فرق بھی ہے کہ تحریک انصاف کے حامی عمران خان کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔ عمران خان جتنے مرضی یوٹرن لے لیں، جتنے مرضی بیانیے بدل لیں، جس طرح مرضی اپنی کابینہ سے ایک پراپرٹی ٹائیکون کے برطانیہ میں ضبط شدہ اثاثے واپس دلوا دیں، جتنی مرضی گھڑیاں بیچ لیں، اُن کے حامیوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ جبکہ (ن)لیگ کے لوگ اس لئےحامی تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ (ن)لیگ معیشت کو سنبھال لے گی، کچھ ڈلیور کرےگی، یا عمران خان کے غیر جمہوری اعمال اور آزادی اظہار پر حملوں کی وجہ سے (ن) لیگ کے حمایت میں کھڑے تھے۔ اب اگر (ن) لیگ ڈلیور نہیں کر پا رہی، جس میں(ن)لیگ والوں کی اپنی غلطی ہے کہ انہوں نے مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر پھر سے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ لگا دیا جن کی معیشت کو مصنوعی سنبھالا دینے کی حکمت عملی نے عوام کی اُس تکلیف کو ،جو محض چند مہینوں میں کم ہو جانی تھی،کئی سال طویل کر دیا ہے۔دیگر شعبے بھی سست روی کا شکار یا کنفیوژڈ نظر آتے ہیں۔ حکومت کی زیادہ تک پریس کانفرنسز اپنی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے کے بجائے عمران خان پر تنقید پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے حامیوں کا جوش و جذبہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں سے کافی زیادہ ہے۔یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ تحریک انصاف اپنے دورِ اقتدار میں صرف اس لئے غیر مقبول ہوئی تھی کیونکہ وہ عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر سکی تھی۔ اس دوران عوام کو شدید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام کی اس معاشی بدحالی کے تناظر میں اگر تحریک عدم اعتماد کے فوراً بعد انتخابات ہو جاتے تو کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم کلین سویپ کر جاتی۔ اب مگر لگتا ہے کہ حکومت یا پی ڈی ایم عوام کی معاشی بدحالی کو پس پشت ڈال چکی ہیں۔ عمران خان سیاسی حریفوں کو جیل میں ڈال کر اور آزادی اظہار اور صحافیوں پر پابندیاں لگا کر اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکے تھے، اور اب پی ڈی ایم بھی جو اسی پالیسی پر گامزن نظر آرہی ہے،اس کا انجام بھی تحریک انصاف سے مختلف نہیں ہوگا۔زیادہ افسوس اس بات کا بھی ہےکہ خان صاحب اگر پھر سے حکومت میں آتے ہیں تو وہ پھر سے اُسی انتقامی سیاست کی پالیسی پر رہیں گے اور ملک کے بنیادی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ پھر (ن)لیگ کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایسی حکومت کا کیا فائدہ جس میں نہ نوازشریف پاکستان واپس آ پا رہے ہوں اور نہ ہی حکومت عمران خان کو گرفتار کر پا رہی ہو۔ نہ ہی اُنہیں اداروں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے اور نہ وہ ملکی مسائل حل کر پا رہے ہیں۔ بلکہ جو لوگ جمہوریت کی بقا کی خاطر اس وقت حکومت کے حامی ہیں وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کیا عمران خان واقعی جمہوریت کیلئے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ جمہوریت بچانے کیلئے حکومت جمہوریت ہی کو ڈی ریل کرنے پر تیار ہے۔ ایسا بیانیہ نہ بن سکتا ہے اور نہ ہی بک سکتا ہے۔ حکومت کیلئے اپنی غلطیوں کی تلافی کرنا اس وقت بہت مشکل ہو چکا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین