• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقیاتی منصوبوں کو چھوٹی اسکیموں میں تبدیل کرکے مقامی افراد کے مفادات کے مطابق ڈھالا گیا ۔ اس عمل کے دوران یہ احساس ختم ہوگیا کہ کسی کو ترجیح دی جارہی ہے یا تعلقات کا خیال کیا جارہا ہے ۔ اس کی زیادہ تشہیر بھی نہیں کی گئی ۔ مثالی طو ر پر شہر سے دیہی علاقوں کی طرف وسائل کی منتقلی کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے، لیکن اہداف کے بغیر ضلعی سطح پر ایسے منصوبوں کے فوائد اور منظور کردہ اسکیموں کے منفی نتائج برآمد ہوسکتےہیں ۔دیہی اور شہری منصوبوں کو ایک سطح پر لانے کا عمل تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادیوں کی شناخت نہیں کرتا اور نہ ہی وہاں بڑھتی ہوئی ضروریات کا احاطہ کرتا ہے ۔

اسٹڈی سے پتا چلتا ہے کہ اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کیلئے ضلعی ناظم کے پاس زیادہ چوائس نہیں ہوتی، سوائے اس کے کہ وہ تحصیل ناظموں اور یونین کونسل کے اراکین کے دبائو کو دیکھتے ہوئے ان وسائل کو مساوی تقسیم کرے ۔ یہاں وسائل کی مساوی اور منصفانہ تقسیم کے درمیان فرق مسائل کو دیکھتے ہوئے سمجھا جاسکتا ہے ۔ مساوی تقسیم کسی کمیونٹی کی ضروریات اور بیرونی عوامل کے درمیان تعلق سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ امیر اور غریب کمیونٹی کو اپنی نوعیت کی انتہائی ضروریات کے باوجود مساوی وسائل ملیں گے جو کہ منصفانہ تقسیم نہ ہوگی ۔ دراصل منصفانہ تقسیم، اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی حالت اور عطیات کی فراہمی کے درمیان تعلق کو دیکھتی ہے ۔ غریب ، پسماندہ اور جغرافیائی طور پر مشکل حالات میں زندگی بسر کرنے والے اور علاقے کے خدوخال کی وجہ سے محدود ذرائع آمدنی رکھنے والے افراد کیلئے اُن کی نسبت زیادہ وسائل مختص کئے جانے چاہئیں جو پہلے ہی خوش حال اور آسودہ ہیں ۔ اس لئے عوامی وسائل غریب عوام کی نجی آمدنی کے معاون بن کر اُن کی غربت کم کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ 2001 کے نظام کی دو اختراعی خصوصیات قابل ذکر ہیں۔ کسانوں، مزدوروں، اقلیتوں، ہمارے معاشرے کے پسماندہ طبقات کیلئے ،خواتین اور دیگر کیلئے ایک تہائی نشستیں مختص کرنا قابل تحسین اقدام تھا۔ اسی طرح، تحصیل کی سطح پر دیہی اور شہری انتظامی اکائیوں کے انضمام سے دیہی علاقوں کو تحصیل کونسل میں دستیاب وسائل سے یکساں طور پر مستفید ہونے کا موقع ملتا۔اگر انحصار کی سابق ضرورت برقرار رہتی تو بھی مرکز کی گرفت سے آزاد مقامی نظام تک رسائی اراکین قومی وصوبائی اسمبلی تک رسائی سے کہیں زیادہ آسان اور موثر تھی ۔

کچھ خامیوں کے باوجودتجرباتی مطالعے اور سروے بلدیاتی نظام کی خالص مثبت کامیابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ چاروں صوبوں کے 21اضلاع سے 12,000گھرانوں کے سوشل آڈٹ سروے 2009-10 میں دیکھنے میں آیا کہ 56فیصد پنجاب اور سندھ میں اعلیٰ تناسب کے ساتھ بلدیاتی نظام کو جاری رکھنے کے حامی ہیں۔یونین کونسلوں سے اطمینان کی سطح 33.8فیصد تھی ۔ خواتین کی شرکت کی حمایت اور سماجی قبولیت کے حوالے سے صورتحال بہتر ہوتی دکھائی دی۔ ساٹھ فیصد خواتین یونین کونسلرز کا خیال تھا کہ ان کے حلقوں کے لوگ ان سے خوش ہیں۔

سوشل پالیسی ڈویلپمنٹ سینٹر (ایس پی ڈی سی) نے چاروں صوبوں کے 12اضلاع کا سروے کرتے ہوئے دیکھا کہ شرح خواندگی اور پانی کی فراہمی اور صفائی تک رسائی کی شرح بہتر ہوئی ، تاہم صحت کی سہولتوں میں بہتری کے اشارے نہیں ملتے۔ تبدیلی کا عمل پاکستان میں پرائمری سطح پر اندراج اور خواندگی میں تیزی سے بہتری لانے میں معاون ثابت ہو رہا تھا۔ مطالعے سے معلوم ہوا کہ 2001کے بعد تین قسم کی تبدیلیاں لائی گئیں۔ (a) سروس کی فیصلہ سازی کی سطح میں تبدیلیاں، یعنی صوبائی بیوروکریٹس سے لے کر ضلعی سطح کی بیوروکریسی تک،(b) فیصلہ ساز کے احتساب میں تبدیلیاں، یعنی بیوروکریٹس سے لے کر ضلعی سطح پر منتخب نمائندوں تک، اور (c) سروس کے لئے دستیاب مالی وسائل میں تبدیلیاں۔ محکمہ تعلیم، پرائمری ہیلتھ کیئر اور ضلعی اور تحصیل اسپتالوں کے انتظام میں تبدیلی کا سامنا کرنا پڑا، (d) جہاں پہلے صوبائی سیکریٹریٹ اور صوبائی کابینہ کے فیصلوں کو ضلع ناظم اور ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسرز کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ مقامی حکومت، دیہی ترقی کے محکمے، اور صوبائی حکومت کے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے محکموں کی طرف سے فراہم کی جانے والی میونسپل خدمات تحصیل میونسپل انتظامیہ کی واحد فعال ذمہ داری بن گئیں۔ یہ ایک بنیادی تبدیلی تھی کیونکہ وسائل مختص کرنے، منصوبوں کو ترجیح دینے اور نتائج کی فراہمی کا اختیار 48صوبائی محکموں کی بجائے مقامی حکومت کے 6000یونٹس کے پاس چلا گیا جبکہ اس تبدیلی سے پہلے ضلعی سطح پر صوبائی بیوروکریسی صرف غیر منتخب افراد کے سامنے جوابدہ تھی۔ صوبائی سیکرٹریٹ 2001کی منتقلی نے انہیں اضلاع اور تحصیل حکومتوں کے منتخب عہدے داران کے سامنے جوابدہ بنا دیا۔ سابقہ نظام کے تحت ضلعی انتظامیہ کا ڈی فیکٹو سربراہ ضلعی کمشنر ہوتا تھا جو غیر منتخب کمشنر کو رپورٹ کرتا تھا جبکہ منتقلی کے بعد وہ عوام کے منتخب کردہ ضلع ناظم کو رپورٹ کرتا تھا۔

مطالعے سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ صوبوں اور مقامی حکومتوں کے درمیان قواعد پر مبنی مالیاتی منتقلی کا نظام 2001 کے انتقال اقتدار کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ تقریباً 40فیصد صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ مقامی حکومتوں میں تقسیم کرکے پسماندہ علاقوں کو دیا گیا تاکہ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں اضلاع کی حد تک کسی نہ کسی طرح کی مساوات کو یقینی بنایا جا سکے۔ دوسری جدت یہ تھی کہ یہ مالیاتی وسائل بجٹ سال ختم ہوتے ہی تحلیل نہیں ہوجاتے تھے بلکہ متعلقہ مقامی حکومتوں کے ذریعے برقرار رہتے تھے۔ اس بندوبست سے وسائل کی تقسیم میں لچک اور ممکنہ طور پر کچھ بہتری آئی۔

تازہ ترین