سیاست اور تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے یہی پڑھا اور سنا تھا کہ ہتھکڑی سیاستدان کا زیور اور جیل دوسرا گھر ہوتی ہے۔برطانوی استعمار کا زمانہ ہو یا پھر قیام پاکستان کے بعد کا دور،سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والے بیشمار رہنمائوں نے قید وبندکی صعوبتیں برداشت کیں۔مولانافضل حق خیرآبادی انگریزوں کے دورِ حکومت میں کالے پانی کی سزا کاٹتے چل بسے۔ملا احمد اللہ شاہ مدراسی کو کلمہ حق بلند کرنےکی پاداش میں سور کی کھال میں پروکر نذر آتش کردیا گیا۔امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد طویل عرصہ پابند سلاسل رہے۔ 9اپریل 1943ء کو جب وہ قلعہ احمد نگر میں قید تھے تو ان کی اہلیہ زلیخا بیگم داغ مفارقت دے گئیں۔مولانا عبیداللہ سندھی کو ایک تاریک سرنگ میں قید رکھا گیا۔شیخ الہند مولانامحمود الحسن مالٹا میں اسیر رہے۔مولانا حسرت موہانی زندگی بھر جیل میں چکی پیستے رہے۔27برس جیل کاٹنے والے نیلسن منڈیلا، جو مزاحمت کا استعارہ سمجھے جاتے ہیں ، کہا کرتے تھے کہ انہوں نے حریت پسندی کا سبق باچا خان سے سیکھا۔فلسفہ عدم تشدد کے بانی باچا خان کو پہلی بار انگریز سرکار نے اپریل 1919ء میں ’’ریولٹ ایکٹ‘‘کے تحت گرفتار کیا۔ مقبوضہ ہندوستان میں انہیں سات بار حراست میں لیا گیا اور قید کا دورانیہ 14سال6ماہ9دن بنتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد باچا خان پہلی مرتبہ 15جون 1948ء کو گرفتار ہوئے اور پھر 12مختلف مواقع پر انہیں حراست میں لیا گیا۔مجموعی طور پر باچا خان کی حراست اور تحویل کا دورانیہ 39برس بنتا ہے۔
اگر قیام پاکستان کے بعد ابتلا و آزمائش کا ڈٹ کر سامنا کرنے والے رہنمائوں کی فہرست مرتب کرنے لگیں تو اخبار کے صفحات کم پڑ جائیں۔ایوب خان کے مارشل لاء دور میں سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کو نہ صرف ایبڈو کے تحت نااہل قرار دیا گیا بلکہ 31جنوری1961ء کوغداری کے الزام میں گرفتار کرکے قید تنہائی میں ڈال دیا گیا ۔سات ماہ بعد عوامی دبائو پر سہروردی کو رہا کیا گیا تو دل کا دورہ پڑنے کے بعد علاج کیلئے بیرون ملک چلے گئے ۔5 دسمبر 1963ء کو سہروردی بیروت کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے ۔ ان کی بیٹی بیگم اختر سلیمان ان کی موت کو قتل قرار دیتی ہیں اوردو باتیں ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حسین شہید سہروردی طبعی موت نہیں مرے ۔HR Talukdarنے اپنی کتاب Memories of Huseyn Shaheed Suharwardi میں لکھاہے کہ جب بھٹو ایوب کی کابینہ میں وزیر تھے اور سہروردی جلاوطن تھے تو انہوں نے دھمکی دی ،سہروردی کو بتا دو،پاکستان واپس آنے کی کوشش نہ کرے۔ایسی صورت میں میں ذاتی طور پر بندوبست کروں گا کہ وہ اس دھرتی پر قدم نہ رکھ سکے۔اس کے علاوہ سی آئی اے نے بھی سہروردی کے اہلخانہ کو متنبہ کیا کہ اپنے والد کو کہیں اپنا بہت خیال رکھیں ۔دنیا تہہ و بالا ہونے کو ہے اور وہ (یعنی اس کے مخالفین)اس کے درپے ہیں۔اس وارننگ کے تین دن بعد حسین شہید سہروردی ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے سایہ عاطفت سے نکلے تو عوام کی امیدوں کا مرکز بن گئے ۔ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تو سابق وزیراعظم کوگرفتار کرکے طویل عرصہ جیل میں رکھا گیا۔اسیری کے دوران ہی انہوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب صفحہ قرطاس پر منتقل کی ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا۔‘‘ اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کوپھانسی دیدی گئی ۔انہوں نے جس وقار اور عزم و حوصلے کے ساتھ ان حالات کا سامنا کیا،فیض کا یہ شعر ہی اس کی بہترین عکاسی کرسکتا ہے:
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
بھٹو کی موت کے بعد ان کی بیٹی بینظیر اور اہلیہ نصرت بھٹو نے استقامت کا بے مثال مظاہرہ کیا۔آصف زرداری نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کا داماد ہونے کا حق ادا کیا اور 11سال تک کوئی گلہ شکوہ کئےبغیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈٹ کر کھڑے رہے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں مجید نظامی نے ’’مرد حُر‘‘کا خطاب دیا۔جنرل پرویز مشرف کے دورِحکومت میں نواز شریف اٹک قلعہ میں قید رہے ۔جاوید ہاشمی اور یوسف رضا گیلانی طویل عرصہ پابند سلاسل رہے۔ جب پروجیکٹ عمران کا آغاز ہوا تو کئی سیاستدانوں کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔میاں نوازشریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ اڈیالہ جیل میں قید تھے تو ان کی اہلیہ کلثوم نواز کا انتقال ہوگیا۔چوہدری نثار علی خان کے خلاف الیکشن لڑنے والے انجینئر راجہ قمر الاسلام کو نیب نے گرفتار کرلیا تو ان کے کم سن بیٹے نے انتخابی مہم چلائی۔شہباز شریف،آصف زرداری، رانا ثناللہ ،فریال تالپور ،احسن اقبال ،خورشید شاہ، شاہد خاقان عباسی،خواجہ آصف ،جاوید لطیف ،خواجہ سعد رفیق سمیت کتنے ہی سیاسی رہنما بے بنیاد مقدمات میں گرفتار رہے۔میر شکیل الرحمان کو 8ماہ تک غیر قانونی حراست میں رکھا گیا۔رکن قومی اسمبلی علی وزیر طویل عرصہ تک انتہائی نامساعد حالات میں قید رہے۔
تاہم عصر حاضر کے ’’ٹیپو سلطان‘‘ کو زمان پارک میں محصور دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید اب سیاست کے انداز و اطوار بدل گئے ہیں۔ بہادری کا مفہوم اور بزدلی کے معانی بدل گئے ہیں۔قانون کی حکمرانی کا مطلب تبدیل ہو گیا ہے۔ اب سینہ تان کر گرفتاری دینا اور جیل جانا قابل فخر نہیں رہا بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو جتھوں کی طاقت سے پسپا کردینے کو کارنامہ خیال کیا جاتا ہے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب لیڈر پہلی صف میں سب سے آگے چلتے ہوئے قیادت کیا کرتے تھے اب تو پچھلی صفوں میں چھپ کر، جانبازوں کے حصار میں رہتے ہوئے سیاسی مخالفین کے ارادوں کو ناکام بنانا ہی کامیاب حکمت عملی کہلاتی ہے۔