• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم آج کل پاکستان کے آئین کے 50 سال مکمل ہونے پر دبے دبے لفظوں میں تعریف کررہے ہیں۔ ہر چند آمروں نے اسے کاغذ کا ایک پرزہ کہا، بہت سے اپنی جمعیت کو قائم رکھنے کو آٹھویں ترمیم ایسی لائے کہ اس کا بھگتان ساری دنیا کے سامنے اب تک بھگت رہے ہیں ۔

آئین میں سات تبدیلیاں تو خود بھٹو صاحب کرگئے ، بعد میں ضیا الحق نے کھیل کھیلا، ان کے ساتھ جسٹس منیر کی رپورٹ اور قرارداد مقاصد نے اسلام کی نئی تاویلات سامنے لانا شروع کیں۔ اب ہر آمر نے اپنے نام پر اسلام کی توجیہات پیش کیں، اپنے حق میں ریفرنڈم کروائے، جو نو دولتیے سیاست میں آئے، انہوں نے امیرالمومنین بننے کے خواب دیکھے، سیاست کے نام پراپنی اسلامی توجیہہ پیش کرنے کے لئے کوئی22فرقے بن گئے، اسلام کے نام پر امریکہ کی دولت کے سہارے آٹھ آٹھ سال تک براجمان رہے، کوئی سب سے پہلے پاکستان کا فریبی نعرہ لگاکر خود ہی فوج کا سربراہ رہا اور خود ہی صدر بن گیا۔ ہر شام طبلہ بجاتا رہا اور جس حد تک آسائشیں حاصل کرسکتا تھا، حاصل کیں اور کیوں نہ کرتا کہ موصوف جرنیلوں، ججوں اور مذہب کے ٹھیکیداروں کی آڑمیں ہمارے بچوں کو دہشت گرد بناتے دیکھتے رہے، اب جو مڑ کر آئین کے ساتھ روا رکھی گئی، دانستہ تبدیلیاں جس میں صرف ایک تبدیلی تھی، وہ اٹھارویں ترمیم جس کے باعث60برس بعد صوبوں کو آئینی حقوق دینے کا اعلان کیاگیا مگر صوبے بھکاریوں کی طرح مرکز سے جائز اور واجب حق مانگتے رہے۔ ابھی تک صوبوں اور مرکز میں سوکنوں جیسا سلسلہ جاری ہے۔ مزیدبرآں افغان قرون وسطیٰ سے بھی پرانے زمانے کا کوئی اسلام بناکر عورتوں کو گھروں میں مقید کرکے اپنے اس عمل پر نازاں ہیں۔ ابھی8مارچ کو گزرے چند دن ہوئے ہیں، خاردار تاریں اور کنٹینر کس کے کہنے پر اور کس کو روکنے کے لئے لگائے گئے تھے جب کہ دوسری طرف برقع پوش خواتین کی نگرانی اور رہبری پولیس کررہی تھی۔ فرزانہ باری سے لے کر ہماری نوجوان نسل جسے اس ملک کو اگر بڑھانا ہے تو ان سب پر ڈنڈا بازی کس کے حکم پر کی گئی۔ میں شہبازشریف کو30برس سے کام کرتے دیکھ رہی ہوں۔ یہ صاحب دلی دروازے میں ایم این اے کے دفتر میں بیٹھ کر کام کیا کرتے تھے۔ اس علاقے میں اسپتال اور تھا نہ اپنی نگرانی میں تیار کروایا، ممبر پارلیمنٹ تھے مگر ہمیشہ اکانومی کلاس میں بیٹھتے تھے۔ شہباز صاحب کے علاوہ خاتون دوئم کی کتاب جو دنیا بھر میں مشہور ہوئی، بعنوان My feudal Lordاس پر ریویو کرنے کے لئے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور کبھی شام کو ہماری طرف ادیبوں سے ملنے آجاتے، چوندے چوندے فقرے سنا جاتے۔ تہمینہ درانی اپنی طرز کی وہ عورت ہے جو امیری کے چودہ طبق دیکھنے کے باوجوداس وقت ڈھائی لاکھ عورتوں کے شناختی کارڈ اور ہمارےروایتی پہناووں کو الگ شان کے ساتھ فروخت کروانے کے لئے، قدم کیوں نہیں اٹھا رہیں۔ گائوں گائوں اسکول اور صحت کے مراکز کے لئے مقامی سرداروں سے رقم لے کر پاکستان کے بچوں کو یہ کیوں نہیںبتا رہیں کہ افغان منشیات کیسے ہمارے بچوں کو برباد کررہی ہیں؟ یہ کیوں نہیں بتاتیں کہ پاکستان بنانے والوں میں ہم جیسے بچے بھی شامل تھے اور آج کہیں اسکول ہے تو استاد نہیں۔ ہر سال50لاکھ بچے پیدا ہورہے ہیں۔ نفسیاتی طور پر مردوں کو آگاہ کریں اور اس طوفانِ پیداواری کے آگے بند باندھیںجس میں آدھی عورتیں جان سے چلی جاتی ہیں، اس وقت آپ کے ہاتھ میں حکومت ہے، زبردستی پیسے نکلواکر ہمارے سیلاب میں اجڑے لوگوں کو چھت فراہم کریں۔ اگر ہماری بچی حدیقہ کیانی اب تک100گھر بنا چکی ہے، یہ ساری عورتیں جو نت نئے کپڑے پہنے مہنگے ہوٹلوں میں کھانا کھا رہی ہوتی ہیں، ان کی جیب خالی کروائیں۔ سب سے ضروری اور اہم تبدیلی یہ ہوگی کہ ہم آٹھویں ترمیم ختم کرائیں۔ وڈیرہ شاہی اور سرداری نظام کے سربراہوں کو الیکشن مت لڑنے دیں۔ قانون بنایا جائے کہ ہر علاقے میں صرف دو امیدوار ہوں گے تاکہ تانگے والی پارٹیاں نکال دی جائیں۔ پاکستان کے آئین کے50 برسوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس انجام کو پہنچ رہے ہیں کہ سسکتی جمہوریت اور بڑھتی فسطائی تنظیمیں اتنی مستحکم ہوگئی ہیں کہ جس کو چاہیں، چاہے وہ نقیب ہو کہ ظل ِشاہ، بلاوجہ، بلاسبب ان کے بدن کے چیتھڑے کرکے، خود کو اپنے عہد کا طرم خان سمجھنے لگے ہیں۔

اب جب کہ50سالہ آئین کا جشن منانے کی بے سود کوشش کررہے ہیں کہ اسلامو فوبیا جو نفرت کا زہر ہے، وہ کس نے پھیلایا، مگر ساتھ ساتھ یاد آتا ہے کہ نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ ہوا تو وہاں کی خاتون وزیراعظم سب سے پہلے پہنچیں۔ اس کا اثر یہ بھی ہوا کہ سکھوں نے اپنے گردواروں کے دروازے، نماز پڑھنے والوں کے لئے کھول دیے اور باہر کھڑے ہوکر نگرانی بھی کرتے رہے۔آئین کی پچاس سالہ تقریبات میں یہ وضاحت سے بتایا جائے کہ اس آئین پر ہر طبقۂ خیال اور مذہب کے لوگوں نے متفقہ سائن کئے تھے۔ پچاس سالہ فرد ہوکہ درخت، دنیا کی ساری خوبیاں سیکھ لیتا ہے اور لوگوں کو چھائوں بخشتا ہے۔ میں پھر واپس بی بی تہمینہ درانی کو آواز دے رہی ہوں، آئین کے تحت عورتوں کے حقوق دلانا آپ کا فرض منصبی ہے۔ یہ بھی التجا کرتی ہوں کہ غلطیاں ممبران نے کیں، ان کو دہرائیں نہیں، ان کا سدِباب کریں، ماضی کو حال مت بنائیں۔ 46فیصد نوجوان رہنمائی چاہتے ہیں۔

تازہ ترین