عجب تماشہ چل رہا ہے۔ الیکشن کے شیڈول کا اعلان کیا ہوا پنجاب کے دل لاہور میں پولیس نے دفعہ ایک سو چوالیس کی ”خلاف ورزی“ پر قانون و آئین میں دیئے گئے حقوق کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ”گلو بٹ “ کی یاد تازہ کر دی ۔پی ٹی آئی کی انتخابی مہم شروع کرنے والے کارکنوں کو آغاز میں ہی دھرلیا گیا ، ہر طرف آنسو گیس کی شیلنگ ، عام شہریوں کی گاڑیوں کی ڈنڈوں سے پٹائی ایسے کی گئی جیسے یہ بھی پی ٹی آئی کے کارکن ہوں۔
میڈیا کا کلا بھی گھونٹا جارہا ہے اور آئین میں دی گئی آزادیٔ اظہار رائے کی پامالی کو معمول بنالیا گیا ہے ۔ عالمی میڈیا اس کے خلاف سرخیاں لگارہا ہے اور عالمی اداروں نے بھی ان پامالیوں کا نوٹس لیا ہے ۔ حکومت کے جو کام کرنے کے ہیں۔ اُن کو پس پشت ڈال کر چند لوگوں کے ہاتھ میں ڈنڈا تھما دیا گیا ہے کہ وہ کروڑوں ”باغیوں“ کو سیدھا کریں اور ناپسندیدہ اور ”شر پسند “ میڈیا کی طنابیں پیمرا کے ذریعے کھینچنے کے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔ بھلا لندن بیٹھے کراچی کے ماضی کے طاقتور نے تو سنگین جرم کیا تھا اور ملک کی اساس کو داؤ پر لگادیا تھا اس کی ”زبان بندی “ ضروری تھی ،عمران کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے ۔ وہ ملک میں بیٹھا ہوا ہے بیرون ملک بیٹھ کر زہریلا پروپیگنڈہ نہیں کررہا جوکہتا ہے سب کے سامنے کہتا ہے ۔ اسے سامنے بٹھاؤ پوچھو کہ جناب کا مزاج اتنا گرم اور برہم کیوں ہے ، کیوں آپ آپے سے باہر ہورہے ہیں ؟الزامات کا نوٹس لیا جائے،کوئی الزام درست ثابت ہوتا ہے تو کارروائی کی جائے ۔ عام لوگ بھی خا صے باشعوراور سمجھدار ہیں وہ اچھے برے کی تمیز رکھتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کی ریلیوں کی کوریج پر پابندی کس قانون کے تحت لگائی گئی ؟ کوئی بتانے کو تیار نہیں ہے۔
عجب طرز سیاست ہے کہ مہنگائی ختم کرنے کیلئے رات کی تاریکی میں آنے والے خود ہی مہنگائی کررہے ہیں ۔ عام شخص یہ سمجھتا ہے کہ دس گیارہ ماہ قبل سب ٹھیک چل رہا تھا ،غیر ملکی قرضے بھی ادا ہورہے تھے،عوام کو ریلیف بھی مل رہا تھا اور بیرونی سرمایہ کاری بھی آرہی تھی ۔ اوورسیز پاکستانی بھی اربوں روپے بھیج رہے تھے اب ایسا یک لخت کیا ہوگیا کہ سب کچھ ماضی کا قصہ بنادیا گیا ۔ گھی چھ سو پچاس اور آٹا ایک سو پچاس میں بیچا جانے لگا ۔ دالوں ،سبزیوں ،پھل فروٹ کو بھی پر لگ گئے، ڈارکے آنے کے بعد ڈالرمزید اونچا اڑنے لگا۔ پٹرول ، بجلی ،گیس ،مٹی کا تیل،ہر شے مہنگی ہوگئی اب صرف” ہوا خوری“پر ہی ٹیکس لگانا باقی رہ گیا ہے ،سو وہ بھی عائد کردیجئے شایدکہیں آئی ایم ایف اس کا بھی مطالبہ کردے ۔ اس عالمی سود خور ادارے نے مطالبہ کیا کہ اشرافیہ کو نچوڑا جائے، اپنے خرچے کم کئے جائیں ،سبسڈیز کمزور اور متوسط طبقے کو دی جائیں لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔لوگ برملا کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے اگر پاکستانی عوام کو زندہ درگور کرکے ہی قرضہ دینا ہے تو میاں ہم غریب ہی بھلے ، زندہ بچیں گے تو قرضے کا سود واپس کریں گے جب سکت ہی نہیں رہے گی تو کہاں کا قرضہ ،کہاں کی واپسی ، کہاں کا سود ۔ہاں یہ ہوسکتا ہے جیسا کہ ملک عملاً ڈیفالٹ کرچکا ہے ہم قرضے کا سود بھی واپس کر نے کی پوزیشن میں نہیں رہے تو کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہماری اشرافیہ کی جو پاکستان سے باہر جائیدادیں ہیں اور جو اکاؤنٹس ہیں ان میں پڑی اربوں کھربوں کی رقم وصول کرکے رسید تھما دیں آخر انہوں نے ہی دوبارہ برسر اقتدار آکر یہیں سے دوبارہ مال بنانا ہے کیونکہ اس وطن کی مٹی بڑی ہی زر خیز ہے بلکہ تاریخی حقیقت تو یہی ہے کہ برصغیر پاک و ہند پر ایک سو سال تاج برطانیہ نے حکمرانی کی، کھربوں روپے لوٹے ،کوہ نور ہیرا تک اڑالیا ،کسی نے بھی پوچھا ؟انہیں کون پوچھے گا ، ریفرنسز بنیں گے ،مقدمات درج ہونگے ، بکسوں میں بھرے منوں کے حساب سے دستاویزی ثبوت عدالتوں میں لاکر پیش کئے جائیں گے جب فیصلے کی گھڑی قریب آتی نظر آئے گی تو منظر بدل دیا جائے گا ،سب ثبوت ردی بن جائیں گے ۔آج کل ایک گھڑی کا شور مچا ہوا ہے لیکن اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو نہیں دیکھا جاتا کہ وقت کس تیزی سے گزررہا ہے۔