• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ماہ دو کالموں میں چند ایسے افیون نما مفروضوں کا ذکر کیا گیا ، جن کے زعم میں ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے زندگی کی منزلیں سر کر رہے ہیں ۔ آج ایسے ہی چند مزید مفروضے ملاحظہ فرمائیے ۔
مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ ہم مغرب پرستی کے دشمن ہیں اور اپنی قوم کو اس لعنت سے بچانے کے لئے ہمہ وقت سر گرم عمل ہیں ۔ یہ مضحکہ خیز مفروضہ ہماری مایہ ناز منافقت کا آئینہ دار ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم مغرب یا مغرب پرستی کے نہیں بلکہ خود اپنے دشمن ہیں ، کیونکہ ہم بنیادی طور پر علم ، سائنس ، منطق ، دلیل، مکالمے ، رواداری ،و سیع النظری اور انسان دوستی کے دشمن ہیں ۔ ہم مغرب پرستی کی مخالفت کے فقط پھٹے ڈھول اور ٹین کنستر بجاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈھول اور ٹین ڈبے کھڑکانے والوں کی جیب میں بھی ہمہ وقت مغرب کی ’’لعنت‘‘ یعنی موبائل فون ٹمٹما رہا ہوتا ہے ۔ ان ’’لعنتوں‘‘ کی بجلی ، لائوڈا سپیکر ، ٹی وی اور کمپیوٹر سے لے کر سرجری کے آلات اور لائف سیونگ ڈرگز تک ، نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر جتنی ایک لمبی فہرست ہے کہ جن کے بغیر ہم نیکو کاروں کا ایک پل بھی نہیں گزر سکتا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آج امریکہ اور مغربی ممالک ہمارے لئے ویزے کھول دیں اور ہر کسی کو امیگریشن دینے کا اعلان کر دیں تو عبدالستار ایدھی کو انسانیت کی فلاح کے لئے کسی دوسرے ملک کا انتخاب کرنا پڑے گا کیونکہ کیا پرہیز گار اور کیا گناہگار، کوئی ایک بھی پاک سر زمین پر رہنے کے لئے دستیاب نہ ہوگا اور نہ ہی اس نظریاتی مملکت کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا کوئی ٹھیکیدار یہاں رہے گا۔ یاد رہے کہ جس ساحل پر طارق بن زیادکی طرف سے کشتیاں جلانے کی ایمان افروز روداد بیان کرتے ہم فرطِ جذبات سے غش کھا جاتے ہیں ، آج بھی اہل ایمان ا سپین کے اسی ساحل پر رات کے اندھیرے میں جوق در جوق اترتے ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ان کے ہاتھوں میں تلوار کی بجائے سیاسی پناہ کی درخواستیں ہوتی ہیں اور وہ مال غنیمت اکٹھا کرنے کی بجائے سوشل سیکورٹی (خیرات ) کی بھیک مانگتے ہیں ۔ غرض جو مغرب پرستی کی لعنت کی جتنی دہائی دیتا ہے وہ اتنا ہی بڑا مغرب پرست ہے کہ اس کا علاج مغرب کے بغیر مکمل ہوتا ہے ،نہ بچوں کی تعلیم اور نہ ان کا روزگار۔ البتہ ہم اس لحاظ سے مغرب پرستی کے ضروردشمن ہیں اور ضد مغرب ہیں کہ وہاں حقیقی جمہوریت ہے ،مساوات ،انصاف ، ایمانداری ، قانون کی پاسداری ، احترام آدمیت اور شخصی آزادیاں عروج پر ہیں ۔ سمندر کے اس پار کوئی وزیراعظم اپنی بیوی کے لئے ڈیڑھ ہزار پائونڈ کی سیکنڈ ہینڈ چھوٹی کار خریدنے خود شو روم پر چلا جاتا ہے ، کبھی کوئی وزیراعظم بیوی کے ہمراہ دو بچوں کی انگلیاں تھامے اور ایک کو اپنے بازوئوں میں اٹھائے سڑک پار کرتا نظر آتا ہے ،کبھی کوئی صدر ویت نام کے معمولی سے ریسٹورنٹ میں پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتا ہے ، کبھی کوئی وزیراعظم رعایا کے خیالات اور حالات جاننے کے لئے بھیس بدل کر ٹیکسی چلاتا ہے ، کبھی کوئی ملکہ خود سبزی لینے نکل کھڑی ہوتی ہے ، کبھی کوئی وزیراعظم ٹرین میں کھڑا اخبار پڑھ رہا ہوتا ہے اور کبھی کوئی خاتون وزیراعظم اتوار کو اپنے اور بال بچوں کے کپڑے دھوکر 10ڈائوننگ اسٹریٹ کے مختصر صحن میں سوکھنے کے لئے ڈال رہی ہوتی ہے ۔ مغرب کی ایسی نازیبا حرکات بتاتے ہوئے ہمارے فاضل واعظان کرام کے پیٹ میں قولنج پڑ جاتا ہے ۔ہمار ی مخصوص عینک کے محدب عدسوں سے مغرب کی فحاشی تو خوب نکھر کر نظر آتی ہے ، البتہ ان کی ایسی اعلیٰ اقدار دیکھتے ہوئے ہمارے یہ عدسے دھندلا جاتے ہیں اور ان کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ اغیار کی انہی اقدار کے ہم حقیقی دشمن ہیں کہ ان کے پرچار سے ہماری دکانیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں ۔ اپنی یہ چوری چھپانے کے لئے ہم نے مشہور زمانہ مفروضہ گھڑ رکھا ہے کہ مغربی معاشرے اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں اور کسی بھی وقت دھڑام سے زمین بوس ہو سکتے ہیں ۔ گویا خود ہمارا برگزیدہ معاشرہ مضبوط ستونوں پر کھڑا ہے ۔
مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ ہم دنیا بھر میں رمضان المبارک کا سب سے زیادہ احترام کرنے والی قوم ہیں اور ساری دنیا خصوصاً اسلامی ممالک کو ہمارے اخلاق و کردار کی تقلید کرنی چاہئے ۔ اسلامی دنیا کو تو خیر ویسے بھی ہم نے بزور بازو مجبور کر رکھا ہے کہ وہ ہمیں مقدور بھر خیرات بھی دے اور ہماری رہنمائی بھی قبول کر کے فلاح پائے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اگلے یہ ’’فلاح‘‘ پانا تو دور کی بات ہے ،ہماری ویزا کی درخواستوں کو بھی بہ نوکِ جوتا مسترد کر دیں ۔ تاہم رہنما تو رہنما ہوتا ہے چاہے وہ کشکول بدست ہی کیوں نہ ہو۔ خیر ! ہمارے اس مفروضے کو ان باتوں سے بھی تقویت ملتی ہے کہ یہاں رمضان آرڈیننس پورے جوبن پر ہوتا ہے اور پر شکوہ مساجد قابل رشک انداز میں آباد ہوتی ہیں ۔ چونکہ ہم بنیاد ی طور پر ظاہر پر توجہ مرکوز رکھنے اور نمائشی اقدامات کے شوقین ہیں ، سو حکومت اور انتظامی مشینری ماہِ صیام میں عوام کے اصل مسائل کو چھوڑ کر روزہ خوروں اور قبل از وقت پکوڑے تلنے والوں کے پیچھے پڑ جاتی ہے ۔ ہمارا یہ شوق اتنا بے باک ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان تعلق میں دخل اندازی سے بھی گریز نہیں کرتا اور کوئی بھی شخص ، چاہے اس کا اپنا روزہ ہے یا نہیں مگر وہ شک کی بنیاد پر کسی دوسرے کو روزہ خور قرار دے کر اسے سرِ عام گریبان سے پکڑ سکتا ہے ۔ اکثر غیر مسلم ممالک میں بھی رمضان المبارک میں مسلمانوں کے لئے اشیائے خوردونوش سستی کر دی جاتی ہیں ، مگر دنیا جانتی ہے کہ ہم اس کو موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنی چھریاں تیز کر لیتے ہیں اور مہنگائی ،ملاوٹ ،بے ایمانی اور ذخیرہ اندوزی کی مثالیں قائم کر دیتے ہیں ۔پھر اسی منافع سے عمرے کرتے ہیں یا مساجد کو بقعہ نور بناتے ہیں مگر غرباء ، مساکین ،بیوائوں اور یتیموں کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا۔ مراد یہ ہے کہ ہمارے نزدیک حقوق اللہ ادا کرنے کے بعد حقوق العباد کی کوئی خاص ضرورت نہیں ، چاہے وہ اس مبارک مہینے میں بھی بھوکے رہیں ۔ اگر ہم ان کی کچھ مدد کرتے بھی ہیں تو تصویریں بنوانے کے لئے کہ وہ نیکی ہی کیا ، جس کی تشہیر نہ ہو۔ پہلے بھی کسی کالم میں ایک بیمار اور مفلوک الحال بڑھیا کا ذکر کیا تھا ، جسے گائوں کے لوگ کھانے کو کچھ دے دیتے تو کھا لیتی ورنہ بے بسی کے عالم میں پڑی رہتی ۔ رمضان المبارک کا چاند نظر آیا تو ایک متقی حاجی صاحب اسے مبارک باد دینے اس کی جھونپڑی میں گئے اور کہا ’’ اماں! روزے آ گئے ہیں ‘‘ بڑھیا لاچار ی سے بولی ’’ بیٹا! روزے گئے کب تھے ؟‘‘ پس ہماری حقیقی پہچان احترام رمضان نہیں بلکہ جھوٹ ،دھوکہ ،فریب، غیرت کے نام پر اپنی ماریہ صداقتوں ، عنبرینوں اور زینتوں کو زندہ جلانا اور حافظ حمد اللہ کے دہان شیریں سے نکلنے والی مشکبو گفتگو ہے۔ دنیا ہمیں ایسے ہی ’’اخلاق و کردار‘‘ کے حوالے سے پہچانتی ہے۔
یاد آیا، کبھی مفروضہ ہم نے گھڑا تھا کہ اگر دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تو وہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ وہ مفروضہ کیا ہوا؟
تازہ ترین