• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکیم نظامی کی فارسی شاعری کیلئے خدمات اظہر من الشمس ہے، مقررین

پشاور( وقائع نگار ) مشہور ایرانی قصہ گو شاعر حکیم نظامی کی فارسی ادب و شاعری کےلئے خدمات اظہر من الشمس ہے جس کا اعتراف آج دنیا کی مختلف زبانوں میں کیا جارہا ہے جس سے ثابت ہو تا ہے کہ ان کی شاعری میں عالمگیریت پائی جاتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار خانہ فرہنگ ایران-پشاور میں عظیم فارسی شاعرو قصہ گو حکیم نظامی کے قومی دن کی مناسبت سے "حکیم نظامی فارسی ادب میں مشہور قصہ گو ایرانی شاعر" کے عنوان سے کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے مہمان خصوصی ڈاکٹر تاج الدین تاجور نے کیا۔ کانفرنس میں شعراء و ادبا، صحافیوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے ڈاکٹر تاج الدین تاجور نے کہا کہ خانہ فرہنگ ایران کی پشاور میں ادبی و ثقافتی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہم نہ صرف عظیم فارسی شاعر و قصہ گو حکیم نظامی کے قومی دن کے موقع پر کانفرنس کے انعقاد پر خانہ فرہنگ ایران کو مبارک باد پیش کر تے ہیں بلکہ اس اہم ادارے کو صوبائی دار الحکومت پشاور میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کر تے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس دور میں جب نوجوان نسل سوشل میڈیا کے باعث علمی و ادبی سرگرمیوں سے دور بھاگ رہی ہے خانہ فرہنگ ایران نے فارسی اور اردو ادب کے عظیم شعرا ء اور ادباء کا ذکر زندہ رکھنے کے لئے بار گراں اٹھایا ہو ا ہے جس پر پاکستانیوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا اگر چہ ایران نے، حافظ شیرازی، فردوسی ، عمر خیام ، شیخ سعدی اور عطا نیشاپوری جیسے شہرہ آ فاق شعرا ء کو جنم دیا ہے تاہم اس میں حکیم نظامی ایک علیحدہ شناخت ہے جن کی شاعری پر آج بھی ایک زمانہ سر دھنتا ہے اس لئے ان کے دن کو عالمی سطح پر منا نا ایک اعلیٰ ترین کاوش جس کی جتنی تعریب کی جائےکم ہے۔ اس موقع پر پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف حسین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور حکیم نظامی کو خراج عقیدت پیش کیا جبکہ باقی مقالہ نویسوں نے بھی بیانات نظامی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: حکیم نظامی کے کلام میں پندگوئی کو اہم مقام حاصل ہے۔ انھوں نے مثنویوں میں اپنے لڑکے محمد نظامی کو نصیحتیں کی ہیں لیکن یہ نصیحتیں ہر نوجوان کے لیے ہو سکتی ہیں۔ ان کا پیرایہ بیان اثر پزیر اور دل نشین ہے۔ نصیحت عموما ناگوار ہوتی ہے لیکن ان کے کہنے کا انداز ایسا ہے کہ تلخی پیدا ہونے نہیں پاتی۔ مثنویوں میں کئی مختصر قصے نظم کیے ہیں اور ان سے اچھے نتائج استخراج کیے ہیں۔ ان کی مثنویاں نہایت سبک، مترنم اور رواں ہیں۔ ان میں نغمگی ہے اور سازوں کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہیں یہ خصوصیت فردوسی کے بعد حکیم نظامی میں نظر آتی ہے۔اس موقع پرخانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران-پشاور کے ڈائریکٹر جنرل مہران اسکندریان نے اپنے خطاب میں مہمان خصوصی اور کانفرنس میں شریک دوسرے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے حکیم نظامی کے مختلف پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حکیم نظامی وہ واحد شاعر ہے جو چھٹی صدی کے آخر تک فارسی میں تمثیلی شاعری کو اعلیٰ ترین سطح پر پہنچانے میں کامیاب رہا۔ اپنے زمانے کے دینی، علمی، ادبی اور ذوقی علوم کو سیکھنے کے بعد وہ ان مضامین میں کمال کو پہنچے اور اپنا وقت شاعری میں صرف کیا اور اس فن میں اپنی فطری صلاحیتوں اور ذوق کو آشکار کیا۔ حکیم نظامی کو اپنے علم، ادبی ہنر، شاعرانہ فن اور اس کے علاوہ، نظامی عقلی علوم میں فصاحت، جیسے فلسفہ، منطق، ریاضی اور فلکیات کے ساتھ قرآنی علوم، فقہ اور احادیث نبوی پر بھی عبور حاصل ہے۔کانفرنس میں مقالہ نویسوں نے حکیم نظامی پر لکھے گئے اپنے مقالے پیش کئے جن میں حکیم نظامی کے مختصر حالات اور ان کے پنچ گنج جو مخزن الاسرار، خسرو و شیرین، لیلی و مجنون، ہفت پیکر اور اسکندر نامہ پر مشتمل ہیں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، اور بہترین مقالہ نویس کا انتخاب کیاگیا۔
پشاور سے مزید