پاکستان میں دو طرح کے لوگ ہمیشہ سے پائے گئے ہیں۔ ایک محب وطن اوردوسرے غدارانِ وطن۔ آپ 1948 سے سال 2022 تک کی وہ فہرست نکال لیں جس میں محب وطن اور غدار رہنماوں کے نام درج ہیں۔پھر محب وطن رہنماوں کی قربانیاں دیکھیں اور غداروں کے جرائم دیکھیں۔محب وطن رہنماوں کی قربانیوں میں جمہوریت دشمنی اور آئین بیزای ملے گی۔ غداروں کے جرائم میں جمہوریت پسندی اور آئین مزاجی ملے گی۔قومی مفاد کہہ لیں یا ملکی مفاد کہہ لیں، یہ دراصل عوامی مفاد ہی ہوتا ہے۔عوامی مفاد کا تعین عوام کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ معاشرے میں جتنا تنوع ہوتا ہے اُتنا ہی مفادات میں ٹکرائو کا امکان ہوتاہے۔ مفادات کے ٹکرائو میں طاقتور طبقہ غالب آتا ہے اور کمزور طبقوں کا مفاد مارا جاتا ہے۔تصادم کے امکان کو ختم کرنے کے لئے اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لئے آئین جنم لیتا ہے۔ آئین دراصل اجتماعی شعور سے جنم لینے والا پلیٹ فارم ہے جس کی تعمیر میں ہر طبقے کی مشاورت شامل ہوتی ہے۔ یہی پلیٹ فارم ہوتا ہے جسے آپ ملک کہتے ہیں یا ریاست کہتے ہیں۔ اس کی ذاتی اہمیت عوام سے اور عوامی مفاد سے زیادہ نہیں ہوتی۔
ریاست کی حیثیت عوامی مفاد سے بڑھ جائے تو سمجھ جائیں کہ بندوق کو دلیل جیسی حیثیت حاصل ہوچکی ہے اور یہ دلیل جب بھی جاتی ہے اشرافیہ کے حق میں جاتی ہے۔اشرافیہ کے مفادات عوام کے مفادات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ آئین کو وہ اپنے مفادات کے راستے میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ آئین کی دستاویز کو ایک طرف رکھ کر 'بیانیےمیں پناہ لے لیتا ہے۔
آئین یقین ہوتا ہے اور بیانیہ گمان ہوتا ہے۔آئین بندوبست کرتاہے اور بیانیہ خواب دکھاتا ہے۔بیانیے میں انسانی حقوق اور بنیادی انسانی ضرورتوں کا سوال نہیں ہوتا۔اس میں حب الوطنی، مذہب پسندی، غیرت، شجاعت اور شہادت جیسے ماورائی حوالے ہوتے ہیں جنہیں آپ دیکھ سکتے ہیں نہ چھو سکتے ہیں۔آئین میں بنیادی سوال ہی انسانی حقوق اور بنیادی ضرورتوں کا ہوتا ہے۔اس میں روٹی، کپڑے، تعلیم، صحت، روزگار، امن، انصاف اور خوش حالی جیسے منطقی حوالے ہوتے ہیں، جنہیں آپ دیکھ بھی سکتے ہیں اور چھو بھی سکتے ہیں۔سابق وزیراعظم حکومت میں تھے تو بیانیے پر چل رہے تھے، باہر ہیں تو بیانیے میں پناہ لی ہوئی ہے۔خان صاحب کےاس غیر سیاسی، غیر جمہوری اور غیر آئینی مزاج کو آپ اُن کی زندگی کے ایک اہم واقعے کی روشنی میں زیادہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ جنرل مشرف نے 1999 میں منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو خان صاحب نے مسرت کا بھرپور اظہار کیااورمشرف کو ویلکم کیا۔ مشرف کو ووٹ دیا۔ بعد ازاں انہوں نے توبہ کرلی۔ غور صرف اس بات پر کریں کہ وہ آج بھی اپنی اس توبہ کی وجہ کیا بتاتے ہیں؟ کیا اس لئےتوبہ کی کہ منتخب حکومت کا دھڑن تختہ غیر جمہوری تھا؟ نہیں۔ کیا اس لئے کی کہ مشرف کا منصب غیر آئینی تھا؟ نہیں۔کیا اس لئے کی کہ مشرف نے عدالتوں کا گھیرائو کرنے کے لئے پی سی او نافذ کیا؟ نہیں۔ پھر کیوں کی؟ فرماتے ہیں،
’’مشرف نے کہا تھا کہ میں احتساب کرکے سیاست دانوں کو سزائیں دوں گا۔ جب مجھے اندازہ ہوا کہ وہ سزائیں نہیں دے رہے تو میں نے بھی حمایت واپس لے لی۔‘‘ اگر معاملات کو دیکھنے کا انداز اس قدر غیر سیاسی اور غیر آئینی ہو تو اس کے سادے سے دو مطلب نکلتے ہیں۔ ایک، آپ طبقات کی شمولیت پر یقین نہیں رکھتے۔ دوسرے، آپ مشاورت پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر ان دو چیزوں پر آپ یقین نہیں رکھتے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپ ملکی مسائل کو بڑھاوا تو دے سکتے ہیں، کم نہیں کرسکتے۔
شمولیت اور مشاورت پر یقین نہ رکھنے والی بات ایک ہوائی تجزیہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کی عملی مثالیں بچشمِ سر دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثلاً، حکومت بنانے کے لئےخان صاحب کے حصے میں وہی اتحادی آئے جو جنرل مشرف نے اپنے لئے تخلیق کئے تھے۔ ایک پرویز الٰہی بچے تھے وہ بھی حجلہِ انقلاب میں داخل ہوگئے ہیں۔ خان صاحب تخت پہ تھے تو کابینہ تشکیل دیتے وقت منتخب اراکین کو انہوں نے یکسر نظر انداز کیا۔ کاروبارِ مملکت ایسے افراد کو سونپا جن میں سے آدھوں کا حلقہ نہیں تھا، آدھوں کا سرے سے پاکستان میں قیام ہی نہیں تھا۔اس سب پر مستزاد یہ کہ اٹھارہویں ترمیم کے خلاف مہم چلائی گئی۔ اٹھارہویں ترمیم کی مخالفت ہو یا پاکستان میں صدارتی نظام کی بات، پاکستان کے تناظر میں یہ سب عوامی شمولیت اور مشاورت سے انکار کے سوا کچھ نہیں ہے۔
آج کی تاریخ میں بھی غداری کی ایک لکیر بیانیے سے گزر کر آرہی ہے اور دوسری لکیر آئین کے اندر سے ہوتی ہوئی جارہی ہے۔ تقدس کی ہوائیںآج بھی بیانیے کے حق میں ہی جارہی ہیں۔ مگر 'وقت پر الیکشن کروانے والی ایک آواز نے اتفاق سے پی ٹی آئی کو آئین کے ساتھ کھڑا کردیا ہے۔آئین پسند دانشور بھی گھبرا کر ہلکے پھلکے سُروں میں خان صاحب کے ہم نوا ہوگئے۔ مگر علی کاظمی کی رائے میں یہ بات اتنی سیدھی اور سادہ اس لئے نہیں ہے کہ یہ کہانی ایک مہینہ پہلے سے شروع نہیں ہوئی۔ اس کہانی میں کئی ابتدائی موڑ ہیں، جہاں مسلم لیگ کی پنجاب حکومت گرائی گئی، اپنی عدالت کے طے شدہ اصول کو مسخ کرکے کہا گیا کہ کچھ ووٹ نہیں گنے جائیں گے۔
اس سب سے ہٹ کر اس بات پر بھی تو ذرا سا دھیان دیجیے کہ ہماری سیاسی تاریخ کے سارے ہی غیر آئینی کردار آئین کے ساتھ کیسے کھڑے ہوگئے؟یہ روشنی سی جو لمحۂ موجود میں آئین سے پھوٹتی ہوئی نظر آ رہی ہے، در اصل بیانیے سے پھوٹ رہی ہے۔ غالبؔ نے کیا کہا تھا ،
ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)