• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گِدھوں کا پاکستانی آسمان پر منڈلانا یہی کچھ رقم کر رہا ہے ۔ ٹھیک ایک سال پہلے ، ڈونلڈ لو ، ’’المشہور مراسلہ‘‘کی وطنی سفیر سے گفتگو، کیاہم کوئی غلام ہیں ’’سے ’’حقیقی آزادی‘‘ کے حصول تک، عمران خان کی سیاست کو نئی بلندیوں سے متعارف کروایاگیا۔یہودی رُکنِ کانگریس بریڈ شیرمین کےبعد اب زلمے خلیل زاد کا خم ٹھونک کر سینہ سپر ہو نا ، کئی مزید فنکار میدان میں اُترنے کو ’’اے وطن! تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں‘‘۔

سات دہائیوں کے تعلقات کا لب لباب ، امریکہ سیاسی عدم استحکام ، معاشی بحران اور لا قانو نیت کی ہر مد میں بھر پور حصہ ڈالنے میں مستعد۔ 2 دہائیوں سے چین اور روس نے انگڑائی لی اور امریکہ کو محدود رکھنے کے لئے اقدامات ہوئے تو پاکستان کی قسمت جاگی۔ سی پیک اقتصادی منصوبہ ، تزویراتی بھی وجود میں آیا۔دوسری طرف چین کے پیش نظر تین رہنما اُصول پاکستان میں سیاسی استحکام، خوشحالی اور مثالی امن عامہ کہ سب کچھ چین کے اپنے مفاد میں تھا ۔ آہ! یہ منصوبہ بن کھلے مُرجھا گیا ۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی اچھی اور بُری تاریخ ، بیرونی محاذ پر بے شُمار اعزازات تو اندرون ملک سیاست میں دخل اندازی نے ہزیمت سے دو چاررکھا۔ ملکی سیاست کو اَبتر بنانے میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کا وسیع تجربہ ، آج تک سبق نہیں سیکھا۔ امریکہ کو پاکستان میں شعوری، لاشعوری SPACE دینے میں ہمیشہ مددگار بنے۔ ہر موقع پر امریکہ نے استعمال کیا اور مملکت کو کمزور کر کے چھوڑ دیا۔

نوازشریف حکومت کو جب زمیں بوس کیا تو وہم و گمان میں نہ تھا کہ سی پیک قصۂ پارینہ بن جائے گا۔ سیاسی بحران کی کوکھ سے معاشی اَبتری اور لاقانونیت کا جنم لینا فطری عمل تھا۔ FATF اور IMF کے شکنجے پہلے سے تیار تھے۔ عمران خان یا موجودہ حکومت کی ناکامی کی وجوہات یہی کچھ،ذاتی اغراض اور بد نیتی ، وطن عزیز امریکی مگرمچھ کے جبڑے میں پھنس چکا ہے۔ ’’پروجیکٹ عمران خان‘‘کی تباہ کاریاں کیا گُل کِھلا تیں؟ امریکہ کا بحران کو اپنی مرضی و منشاکے مطابق استعمال میں لانا ، ہمیشہ سے طے تھا ۔ افواج پاکستان کے سائز پر گفتگو، پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا خبروں کی زینت بننا،پاکستانی سیاست میں امریکی دخل در معقولات کا سلسلہ جاری ہے ۔آج بحران سے نکلنے کے راستے بندبلکہ بحران کو بڑھانے کے نئے نئے جتن سامنے ہیں ۔ اس سے بڑا حادثہ کیا ہو گا اگر آئین اور قانون کی پاسداری ، سیاسی معاملات میں عملداری ممکن بنائیں تو انارکی منتظر ہےجب کہ ماؤرائے آئین اقدامات ، تباہی و بربادی کے لئے اکسیر ثابت ہونے کو ہیں ۔

جنرل باجوہ کے 6 سال مملکت کے لئےڈرائونا خواب ثابت ہوئے ۔گو آج کے پروجیکٹ عمران خان کی بنیاد جنرل کیانی کے زمانے میں، خدوخال راحیل شریف کے دور میں سنورے، پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا جنرل باجوہ کی ٹیم کے سر پر ہے ۔ عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی سی پیک کا ٹھپ ہونا، امریکہ کا کروفر سے دوبارہ آن دھمکنا منطقی نتیجہ تھا۔ اگرچہ عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے لئے جمہوری راستہ اختیار کیا گیا ۔ عمران خان نے شاطرانہ طریقے سےاُس کو اپنے خلاف امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت قرار دیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیے کوپذیرائی ملنا قابلِ فہم ہے۔میرے لئے اہم یہ بھی کہ مقبول رہنما کے مفادات اور پاکستان دُشمنوں کے مفادات ایک ہو چکے بلکہ ایک صفحہ پردونوں براجمان ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ میں رفعتیں اور پذیرائی ضرور، ایک سُقم الیکشن پر خِط تنسیخ پھر جاتی ۔عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ سے انتقام کی آگ بجھانا پہلی ترجیح بن گیا۔ عمران خان کی شخصیت کا ایک پہلو ہمیشہ سے رچا بسا کہ بدلہ لینے کے لئے اگر اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کرنے میں وطن عزیز کا نقصان ہو بھی جائے تو گھاٹے کا سودا نہیں ۔ درست کہ 10 اپریل سے 25 مئی تک ہونے والے لانگ مارچ کے دوران یہ کوشش رہی کہ دباؤ ڈال کر معاملہ فہمی سے شاید الیکشن کا انعقاد ممکن ہو جائے۔ 25 مئی لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد ایمان غالب کہ الیکشن والاباب بند ہو چکا ہے۔ آج کل اُس کا برملا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ الیکشن ممکن نہیں رہے ۔ دلچسپ پہلو اتنا کہ موجودہ حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان تینوں فریقین کے لئے الیکشن کا انعقاد ناممکن ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے لئےبُری خبر کہ عمران خان اپنے مشن کو خوش اسلوبی سے پایۂ تکمیل تک پہنچا چُکے ہیں۔ ملک کی کثیر رائے عامہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف منظم اور ہموار ہو چکی ہے۔مملکت میں چار سُو افراتفری عمران خان جئے یا مرے، ریاست ناقابل استعمال ہو چکی ہے ۔ عمران خان کے علاوہ کسی کے لئے بھی جائز حکومت کرنا ناممکن ہے۔ عرض کر دیا تھا، یہ فرینکسٹائن (عفریت) اسٹیبلشمنٹ نے محنت سے تیار کیا ۔ ادارے کا پوسٹر بوائے اور برانڈ بن کو اُبھرا ۔ مافوق الفطرت انسان کے طور پر پیش کیا گیا ۔ اُس کے مد مقابل سیاسی قوتوں کو دھونس دھاندلی سے ہٹادیا گیا ۔ اکلوتے عمران خان کے لئے خالی میدان مہیا کیا گیا ۔ جنرل باجوہ اور اُس کی ٹیم کی حماقتوں سے آج مملکت منہ کے بل اوندھی کھائی میں ہے۔

بد قسمتی کہ عمران خان کو ہینڈل کرتے ہوئے اُس کی مقبولیت اور کمزوریوں کا کما حقہ احاطہ نہیں کیا گیا ۔ عمران خان کی میڈیا ہینڈلنگ ، عوام الناس تک رسائی، تقریر اور انداز گفتگو غیر معمولی ہیں۔ سوشل میڈیا ، مین اسٹریم میڈیا ، جلسے جلوس، انٹرویوز وغیرہ کا موثر استعمال کیا۔ بذریعہ سوشل میڈیا اسٹیبلشمنٹ پرقیامت ڈھا رکھی ہے ۔ پچھلے ایک سال سے جس بہتات سے ٹی وی اسکرین عمران خان کو میسر رہی ہے ، 26سالہ سیاسی زندگی کا ٹوٹل اس سے کم ہے۔عمران خان کا دوسرا وصف لڑنے بھڑنے کے لئے جو خوبیاں درکار وہ بدرجہ اُتم موجود ہیں ۔ دلیری، خطرے کو بھانپنے کی صلاحیتیں اور جارحانہ انداز کی وجہ سے عوامی رائے عامہ کو قدم بہ قدم ساتھ رکھنا۔ آج موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں لڑائی میں عمران خان کے سامنے بے دست و پانظر آ رہے ہیں ۔ عمران خان کی کمزوری کا فائدہ نہ اُٹھایا گیا۔ سیاست سے یکسر نابلد بلکہ سیاسی حکمت عملی وضع کرنے کے لئے معمولی سوچ سمجھ سے بھی عاری ہے۔ 27برسوں سے ایک حکمت عملی نہیں جو ہزیمت، شرمندگی یا پریشانی کا باعث نہ بنی ہو۔ عمران خان کی کمزوری توجہ کا مرکز نہ رہی۔ مقابلہ تھا ہی نہیںکہ سیاست اور سیاسی حکمت عملی میں نوازشریف زیر کر سکتا تھا۔ نواز شریف کو سیاسی میدان سے باہر کر دیا گیا۔ پچھلے چند دنوں سے اسلام آباد میں ہوں۔ حکومتی حلقے، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے حلقے ، سب متفق کہ مملکت ہاتھ سے نکل چکی۔ عمران خان کی کامیابی میں مملکت خدادادِ اسلامیہ کا مستقبل تاریک اور ماورائے آئین تباہی و بربادی۔باقی رہے نام اللّٰہ کا۔

تازہ ترین