• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے والد محترم سیّد علمدار حسین گیلانی 12دسمبر 1919ء بمطابق آٹھ محرم الحرام کو اپنے آبائی گھر واقع پاک دروازہ ملتان میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے وقت اُن کا نام سیّد ابوالحسن رکھا گیا۔ لیکن آٹھ محرم الحرام کی نسبت سے بعد میں علمدار حسین رکھ دیا گیا اور یہی نام معروف ہوا۔ والد نے ابتدائی تعلیم ملتان اور مظفرگڑھ میں حاصل کی کیونکہ دادا مخدوم غلام مصطفیٰ شاہ گیلانی اُن دنوں سَب ڈویژنل مجسٹریٹ علی پور، مظفرگڑھ تعینات تھے۔ نوابزادہ نصرﷲ خان والد کے کلاس فیلو تھے۔ والد نے 1941ء میں ایمرسن کالج ملتان سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ وہ خاندان کے دوسرے فرد تھے جنہوں نے بی۔اے تک تعلیم حاصل کی۔والد نے اپنے زمانۂ طالب علمی ہی سے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اورآل پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ جب ایف۔اے میں زیرِتعلیم تھے تو انہوں نے اپنے بزرگ سیّد زین العابدین شاہ اور مسلم لیگ ضلع ملتان کے صدر چچا مخدوم غلام نبی شاہ گیلانی کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کے لئے کام کیا۔

1951ء کے عام انتخابات میں والد کے نامزد اُمیدواروں کو مسلم لیگ کے ٹکٹ دیئے گئے۔ ان انتخابات کے سلسلے میں مسلم لیگ کا کنونشن ہمارے گھر 'الجیلان ملتان میں ہوا جس کی صدارت وزیر اعظم پاکستان اور صدر مسلم لیگ نوابزادہ لیاقت علی خان نے کی۔ جلسے کے دوران وزیراعظم نے والد، تایا ولایت حسین اور چچا رحمت حسین کے ہاتھ تھام کر کہا:

"They are the backbone of the Muslim League"

ترجمہ: یہ مسلم لیگ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔

والد محترم نے 1953ء میں فیروز خان نون کی کابینہ میں بطور وزیر صحت و بلدیات حلف اٹھایا۔ وزارتِ بلدیات عوام کے ساتھ رابطے اور مقامی سطح کے کام کروانے کے نقطہ ٔنظر سے اہم ہے۔ والد صاحب نے وزیر صحت کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ 1953ء میں والد محترم کے پارلیمانی سیکرٹری چوہدری فضل الٰہی تھے جو بعد میں صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سردار عطا محمد خان لغاری محکمے کے سیکریٹری تھے جو بعد میں رکن صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) منتخب ہوئے۔ والد کو اس حیثیت سے بھی یاد رکھا جاتا ہے کہ صوبائی وزیر صحت و بلدیات بننے پر 1954ء میں انہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ہر ضلع میں ایک لائبریری ہو تاکہ عوام کی کتابوں تک رسائی ممکن بنائی جا سکے۔ اس سلسلے میں قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان میں ایک وسیع میونسپل لائبریری کا افتتاح کیا جو ملتان کے لئے ایک عظیم علمی خزانہ ہے۔

والد گرامی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 1956ء کا آئین بنانے والوں میں شامل تھے۔ آئین کی اہمیت اور تقدس کو اُن سے بہتر کون جان سکتا ہے جنہوں نے قیامِ پاکستان کے لئے اَن گنت قربانیاں دی ہوں۔ آئین پاس ہونے پر انہوں نے تمام اراکین کے ساتھ بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے ننگے پاؤں اُن کے مزار پر حاضری دی۔ دنیا کی مشہور سوانح عمری "The World's Who's Who 1954-55 Edition" میں بھی اُن کا نام شامل ہوا۔والد صاحب ہمیشہ تین رمضان المبارک کو اپنے احباب کو افطاری کروایا کرتے اور اس اس افطاری کو حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے نام سے منسوب کرتے اور کہتے کہ خاتون جنتؓ کے نام سے افطاری کرانا رزق میں اضافے کا موجب بنتا ہے ۔ انہوں نے زندگی بھر اس روایت کو نہایت محبت و شوق سے نبھایا۔ اتفاق ہے کہ وہ اسی دن یعنی تین رمضان المبارک مورخہ 9 اگست 1978ء کو نشتر اسپتال، ملتان میں انتقال کر گئے۔ اِنّا لِلّٰہِ و اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُون۔

والد باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اپنی وفات سے ایک روز قبل انہوں نے ڈائری میں احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر لکھا:

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن

یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

آج والد صاحب کو ہم سے بچھڑے 45 برس ہوگئے، ان کی یاد کی شمع ہمیشہ ارد گرد روشن رہتی ہے۔

تازہ ترین