• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیناں اکبر، صادق آباد

دنیاوی خواہشات کے پیچھے بھاگنے والوں کو کچھ خبر نہیں کہ وہ کہاں جارہے ہیں یا اُن کی بے جا خواہشات انھیں کہاں لے جارہی ہیں۔ ایک خواہش پوری ہونے کے بعد دوسری کی تکمیل کی تگ و دو شروع ہوجاتی ہے۔ گویا ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے۔‘‘ یہاں تک کہ ان خواہشات کے پیچھے بھاگنے والے بسا اوقات اپنی آخرت بھی فراموش کردیتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خواہشات کے پورا ہونےکی اصل جگہ جنّت ہے۔ دنیا تو مشقّتوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ 

حضور اقدسﷺ کافرمان ہے، ’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنّت ہے۔‘‘ایک اور جگہ ارشاد فرمایا، ’’نماز دین کا ستون ہے۔ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور جنّت کی کنجی ہے۔‘‘ لیکن آج ہم دنیا کی زندگی میں اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ اپنی بے جا خواہشات پوری کرنے کے چکّراور دنیا کی مصروفیات کا بہانہ بناکر نماز جیسا اہم اور لازمی فریضہ بھولے بیٹھے ہیں۔ بلاشبہ، روزِ قیامت ہم سے سب سے پہلا سوال نماز سے متعلق ہی کیا جائے گا۔

ہرقوم کا اپنا کوئی نہ کوئی امتیازی نشان ہوتا ہے، اسی طرح مسلمانوں کا امتیازی نشان دن اور رات میں پانچ دفعہ اپنے پروردگار کےسامنے باوضو ہوکر کھڑے ہونا، اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور اپنے ربّ سے اس کی رحمت طلب کرنا ہے۔ ان پانچ فرض نمازوں میں سے اگرایک بھی جان بوجھ کر چھوڑ دی جائے، تو اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ترجمہ:’’جس نے قصداً نماز چھوڑی، اس نے گویا کفر کیا۔‘‘ نماز انتہائی اہم فریضہ اور اسلام کا دوسرا رکنِ عظیم ہے۔ کلمۂ توحید کے اقرار کے بعد سب سے پہلے جو فرض انسان پر عائد کیا گیا ہے، وہ نماز ہی ہے۔ 

اسی سے ایک مومن اور کافر کے مابین تمیز کی جاتی ہے۔ پھر قیامت کے روز اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا کہ فرد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے نماز ازحد ضروری ہے، یہ انسان کو فواحش ومنکرات سے روکتی ہے۔ بچّوں کی صحیح تربیت بھی اسی وقت ممکن ہے، جب انھیں بچپن ہی سے نماز کا پابند بنایا جائے۔ قرآن وحدیث میں نماز کو بروقت اور باجماعت اداکرنے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے۔ نماز کی اہمیت و فضیلت اس قدر زیادہ ہے کہ سفر وحضر، میدانِ جنگ اور بیماری میں بھی اسے ادا کرنا لازم ہے۔ 

اس ضمن میں بے شمار احادیث موجود ہیں۔ جب کہ بے شمار علماء نے مختلف انداز میں اس موضوع پر کتب بھی تالیف کی ہیں۔ یاد رہے، نماز کی ادائی کا درست طریقہ جاننا ہرمسلمان مرد وزن کےلیے ازحد ضروری ہے، کیوں کہ اللہ عزّوجل کے پاس وہی نماز قابلِ قبول ہوگی، جو رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’نماز اسی طرح پڑھو، جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، 6008)۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ نماز پڑھنے کے آداب سے ناواقفیت کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے، جب کہ بعض افراد نماز پڑھتے ہوئے خاصی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جتنی دیر میں ایک رکعت پڑھی جاتی ہے، اتنی دیر میں وہ دوتین رکعتیں پڑھ لیتے ہیں۔ اس طرح نماز پڑھنا نماز کی بے حرمتی اور دربارِ الٰہی میں گستاخی کے مترادف ہے۔ 

رسولﷺ نے فرمایا ’’جو شخص بے وقت نماز پڑھے، جی لگا کر نہ پڑھے اور خانہ پُری کے لیے نماز پڑھے، تو وہ نماز بے نور ہوجاتی ہے۔‘‘ گرچہ نماز کا قبول ہونا یا نہ ہونا، یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، لیکن اگر نماز خشوع و خضوع اور آداب کے مطابق ادا کی جائے، تو قبولیت کی اُمید زیادہ رہتی ہے۔ قرآن شریف میں خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے والوں کے لیے خوش خبری، جب کہ بے توجہی سے پڑھنے والوں کے لیے وعید آئی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’بے شک کام یابی اور فلاح کو پہنچ گئے وہ مومن، جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔‘‘ دوسری جگہ ہے:’’بے شک نماز دشوار ہے، مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے، اُن پر کچھ بھی دشوار نہیں۔‘‘ نیز، قرآن شریف میں جہاں جہاں اقامتِ صلوٰۃ کا حکم آیا ہے، اس سے مراد یہی ہے کہ نماز کے رکوع و سجود کو اچھی طرح ادا کیا جائے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’نماز کا قائم کرنا، دراصل اس کے اوقات کی حفاظت رکھنا اور رکوع کا اور سجدے کا اچھی طرح ادا کرنا ہے۔‘‘ حدیث شریف میں بھی خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے والوں کے لیے فضائل اور بلاخشوع نماز پڑھنے والوں کے لیے وعیدیں آئی ہیں۔ 

ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر پڑھے، وضو بھی اچھی طرح کرے، خشوع وخضوع سے بھی پڑھے، اللہ کے حضور کھڑا بھی پورے وقار سے ہو، پھر اسی طرح رکوع و سجود بھی کرے۔ غرض، ہرچیز کو اچھی طرح ادا کرے، تو وہ نماز نہایت روشن چمک دار بن کر جاتی ہے اور نمازی کو دُعا دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تیری بھی ایسی ہی حفاظت کرے، جیسی تُونے میری حفاظت کی۔ اور جو شخص نماز کو بُری طرح سے پڑھے، وقت کو بھی ٹال دے، وضو بھی اچھی طرح نہ کرے، رکوع، سجدہ بھی اچھی طرح نہ کرے، تو وہ نماز بد دُعا دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے بھی ایسا ہی برباد کرے، جیسا تُونے مجھے ضایع کیا، اس کے بعد وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کرنمازی کے منہ پر ماردی جاتی ہے۔‘‘ (طبرانی، المعجم الاوسط، الدر المنثور)۔

سو، قرآنِ مجید کی تعلیمات اور احادیث کی روشنی میں ہمیں نماز ہمیشہ وقت پر اور اس کے آداب کے مطابق پڑھنی چاہیے۔ جب نماز کے لیے کھڑے ہوں، تو دل میں سوچ لیں کہ ہم اپنے ربّ کی بارگاہ میں حاضر ہیں کہ نماز کے آداب بنیادی طور پر دو قسم کے ہیں۔ کچھ کاتعلق اندرونی کیفیات سے ہے اور کچھ ظاہری حالت سے متعلق ہیں۔ کمالِ عبودیت کا تقاضا ہے کہ بندہ جب اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہو، تو کسی بھی ادب میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔ نگاہیں پست ہوں اور دل رب ذوالجلال کی ہیبت سے لرزہ براندام۔ 

یوں سمجھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دربار میں کھڑا ہوں۔ کم سے کم اتنا یقین دل میں ہونا چاہیے کہ وہ میرے حال سے واقف ہے اور میری کوئی حرکت اور کوئی خیال اس پاک پروردگار سے پوشیدہ نہیں۔ آئیے!! اپنے ربّ سے پکّا وعدہ کریں کہ آج سے ہمیشہ وقت پر اور کسی بھی کوتاہی کے بغیر خشوع و خضوع سےنماز کی پابندی کریں گے۔ اللہ ہماری نماز و عبادات کو قبول فرمائے اور ہمیں اس ضمن میں نماز کے پورے آداب کی رعایت کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)