• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی عبادات میں روزے کا ایک مرکزی مقام اور بنیادی اہمیت ہے۔ نیز، اِسے ارکانِ دین میں تیسرا رُکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔درحقیقت، روزہ صبر و ضبط اور تزکیۂ نفس کا بہترین مظہر ہے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے، جس کا تصوّر الہامی اور غیر الہامی مذاہب کی تاریخ میں ملتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘ (سُورۃ البقرہ / 183)قرآنِ کریم کی اِس ہدایتِ ربّانی سے یہ معلوم ہُوا کہ روزے کا حقیقی مقصد تقویٰ کا حصول ہے، جب کہ تقویٰ اور پرہیز گاری اسلامی عبادات کی بنیادی رُوح ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویؐ میں کم و بیش ہر عبادت اور نیک عمل کا بنیادی مقصد ’’تقویٰ‘‘ ہی کو قرار دیا گیا ہے۔

خود کو خواہشاتِ نفس کی پیروی سے روکنا، نفس کے بے لگام گھوڑے کو لگام دینا اور دِین کی اتّباع میں مصروفِ عمل رہنا روزے کی حقیقی رُوح ہے، جو درحقیقت تقویٰ اور پرہیزگاری کے حصول کے بعد ہی ممکن ہے۔ اِس سلسلے میں رسولِ اکرم ﷺ کا یہ ارشادِ گرامی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا’’روزہ ڈھال ہے، لہٰذا روزہ رکھنے والا نہ بے ہُودہ بات کرے اور نہ جاہلوں والے کام کرے، اگر کوئی اُس سے جھگڑا کرے یا بُرا بھلا کہے، تو وہ کہہ دے کہ ’’مَیں روزے دار ہُوں۔‘‘ رمضان المبارک میں عموماً ایسے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ لوگ راہ چلتے ایک دوسرے سے اُلجھ پڑتے ہیں، بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بسا اوقات نوبت دست و گریباں ہونے تک پہنچ جاتی ہے۔ 

سفر کرتے وقت یا خریداری کے موقعے پر جس عجلت اور بے صبری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے،یہ بھی ضبطِ نفس کے منافی عمل اور روزے کی حقیقی رُوح کے برخلاف ہے۔ آپؐ نے ایک موقعے پر تاکید کے طور پر دو مرتبہ ارشاد فرمایا’’اُس پروردگار کی قسم، جس کے قبضے میں میری جان ہے، روزہ دار کے مُنہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے ہاں مُشک کی خُوش بُو سے زیادہ عُمدہ اور پاکیزہ ہے،(اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے) ’’وہ (روزہ دار) اپنا کھانا، پینا اور شہوت میری وجہ سے چھوڑتا ہے، روزہ تو میرے لیے ہے اور مَیں ہی اس کا بدلہ دُوں گا اور ایک نیکی کا اجر دس گُنا ہے۔‘‘(بخاری/ الجامع الصحیح)

صحابیٔ رسولؐ، حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’جنّت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے، جسے’’باب الرّیّان‘‘ کہا جاتا ہے، اس دروازے سے قیامت کے روز صرف روزے داروں کا داخلہ ہوگا، اُن کے سِوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہوسکے گا، اُس دن پُکارا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ بندے! جو اللہ کے لیے روزے رکھا کرتے تھے(اور بُھوک پیاس کی تکلیف اُٹھایا کرتے تھے)، وہ اُس دن پکار پر چل پڑیں گے، اُن کے سِوا اس دروازے سے کسی اور کا داخلہ نہیں ہوسکے گا۔ جب وہ روزے دار اس دروازے سے جنّت میں پہنچ جائیں گے، تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا، پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہوسکے گا۔‘‘ (صحیح بخاری )

ایک اور حدیثِ قدسی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ابنِ آدم کے ہر عمل کا ثواب بڑھتا رہتا ہے،اُسے ایک نیکی کا ثواب دس گُنا سے سات سو تک ملتا ہے اور اس سے زاید اللہ جتنا چاہے، اُتنا ملتا ہے، مگر روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’وہ تو میرے لیے ہے اور مَیں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ دار اپنی خواہشات اور کھانا پینا میری وجہ سے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی اُسے افطار کے وقت ملتی ہے اور ایک خوشی اپنے ربّ سے ملاقات کے وقت ملے گی، روزہ دار کے مُنہ کی بُو اللہ کے ہاں مُشک کی خُوش بُو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ، السنن، باب فضل الصّیام)

چوں کہ تقویٰ اور پرہیزگاری روزے کی حقیقی رُوح ہیں، تو اگر اِن عظیم مقاصد کا حصول نہیں ہوتا، تو یہ سمجھا جائے گا کہ گویا روزہ رکھا ہی نہیں گیا، یا یہ کہا جائے گا کہ جسم کا روزہ تو ہوگیا، مگر رُوح کا روزہ نہیں ہُوا۔ اِس حقیقت کی وضاحت کے لیے رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشادِ مبارک پیشِ نظر رکھا جائے کہ آپؐ نے فرمایا’’جو شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ اور فریب کے کام نہ چھوڑے، تو اللہ کو اس کی ضرورت نہیں کہ انسان اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ (ترمذی / باب الصّوم)اسی اخلاص، پرہیزگاری اور بے ریائی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’الصّومُ لی و انا اجزی بہ۔‘‘

یعنی’’روزہ میرے لیے ہے اور مَیں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘ اجر، جزا اور نیکیوں پر بدلہ تو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے، تاہم اس کی عظمت و اہمیت کے اظہار کے لیے اس کے اجر اور جزا کو اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب منسوب فرمایا ہے۔ تقویٰ اور پرہیزگاری کی بدولت ہی بندہ اُن اعمال سے باز رہتا ہے، جو خواہشات کو بڑھانے والے اور انسانی جذبات کو بے لگام کرنے والے ہیں۔ روزے میں جن اعمال اور اُمور سے بچنے یا باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے، اُن پر عمل کرکے درحقیقت نفس اور جسم دونوں کی تربیت کی جاتی ہے۔ 

نیکیوں پر عمل، گناہ اور بداعمالیوں سے باز رہنے کا حقیقی جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ یہی تقویٰ کی حقیقت اور روزے کی رُوح ہے۔ بالفاظِ دیگر، روزہ تزکیۂ نفس، تطہیرِ قلب اور تربیت کا بہترین اور مثالی ذریعہ ہے۔ یہ رُوح اور جسم دونوں کے تزکیے اور تطہیر میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ اسلام میں زکٰوۃ کی حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ جمع شدہ مال کی تطہیر اور پاکیزگی کا ذریعہ ہے، جب کہ سرکارِ دوعالم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ارشادِ گرامی کے مطابق’’ہر شے کی زکٰوۃ ہوتی ہے اور روزہ جسم کی زکٰوۃ ہے۔‘‘اِس طرح گویا ہر سال رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں جو رحمت، مغفرت اور جہنّم سے نجات کا موسمِ بہار ہے، اہلِ ایمان اِس ماہِ مقدّس کے روزے رکھ کر صبرو ایثار، ضبطِ نفس، ایثار و ہم دردی، تزکیۂ باطن اور تطہیرِ قلوب کی باقاعدہ تربیت حاصل کرتے ہیں۔ یہ عبادت و ریاضت درحقیقت تقویٰ اور تزکیۂ نفس سے عبارت ہے۔

عرب دنیا کے نام وَر مؤلف اور معروف مذہبی اسکالر، علّامہ ڈاکٹر یوسف القرضاویؒ اپنی کتاب ’’العبادۃ فی الاسلام‘‘ میں روزے کی حقیقت اور اس کے فلسفے سے متعلق لکھتے ہیں’’روزے میں عزم و ارادے کی تقویت اور صبر و برداشت کی تربیت ہوتی ہے، چناں چہ روزے کی حالت میں بندہ بھوکا رہتا ہے، جب کہ اُس کے سامنے لذیذ غذا موجود ہوتی ہے۔ وہ پیاسا رہتا ہے، حالاں کہ اُس کے سامنے ٹھنڈا پانی موجود ہوتا ہے۔ 

اُس کے ربّ کے سِوا، کوئی اُسے دیکھنے والا نہیں ہوتا اور اس کے ضمیر کے علاوہ اس پر اور کسی چیز کا غلبہ بھی نہیں ہوتا، اس کے بے دار، مضبوط ارادے کے سِوا کوئی دیگر سہارا بھی نہیں ہوتا، وہ روزانہ پندرہ پندرہ گھنٹے یا اس سے بھی زاید وقت روزے سے رہتا ہے اور ہر سال 29 یا 30 دن مسلسل روزے رکھتا ہے، تو روزوں کے علاوہ کون سا دوسرا ادارہ ہے، جو انسان کے ارادے کی تربیت کا کام کرتا اور اسے صبر و برداشت کی تعلیم دیتا ہے۔ 

وہ صرف روزہ ہے، جسے اسلام نے مسلمانوں کے لیے ماہِ رمضان میں فرض اور لازم قرار دیا ہے۔‘‘اسلام کے نظامِ عبادت میں روزے کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ سالانہ تربیتِ نفس اور تعمیرِ سیرت کا وہ پروگرام ہے، جو روزے دار کو تقریباً 720 گھنٹے ضبطِ نفس کا پابند بناتا ہے، اِس طرح اِس عظیم عبادت سے وہ تربیت حاصل ہوتی ہے، جو بندۂ مومن کو نہ صرف پورے سال، بلکہ پوری زندگی میں صبر و ایثار کا پیکر، ضبطِ نفس اور تقویٰ و پرہیزگاری کا مظہر بننے میں بھرپور مدد اور رہ نُمائی فراہم کرتی ہے۔ تقویٰ و پرہیزگاری کے اِس عمل اور تزکیۂ نفس سے عبارت اِس عظیم عبادت کے ذریعے انسان کے شعور میں اللہ کی عظمت و کبریائی اور اُس کی حاکمیت کا وہ جذبہ بے دار ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان ہر آن اللہ کو اپنا ربّ اور خود کو اُس کا بندہ باور کرواتا نظر آتا ہے۔

یہ تقویٰ، خوفِ خدا اور پرہیزگاری کا وہ عظیم جذبہ ہی ہے، جو روزے کی حالت میں بندۂ مومن کو شدید بُھوک پیاس اور کسی شخص کے نہ دیکھنے کے باوجود تنہائی اور پوشیدگی میں بھی کھانے پینے سے اجتناب پر آمادہ کرتا ہے۔ اس کا یہ جذبہ صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا پروردگار ماننے اور اُسے علیم و خبیر جاننے کی وجہ سے ہے۔ گویا روزے رکھنے والا خوفِ خدا اور پرہیزگاری کے سبب یہ باور کرواتا ہے کہ روزے کی حالت میں کھا پی کر لوگوں کو تو دھوکا دیا جاسکتا ہے، لیکن اپنے معبودِ حقیقی اور اُس علیم و خبیر ذات کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا، جو دِلوں میں پیدا ہونے والے خیالات تک کو جانتا ہے، جس سے کائنات کا کوئی راز مخفی اور پوشیدہ نہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا’’روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے، روزہ عرض کرے گا کہ’’ اے میرے پروردگار! مَیں نے اِس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پوری کرنے سے روکے رکھا، آج میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔‘‘ اور قرآن کہے گا کہ’’ مَیں نے اِسے رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا، خداوندا! آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔‘‘، چناں چہ روزے اور قرآن، دونوں کی سفارش اُس بندے کے حق میں قبول کی جائے گی اور اُس کے لیے مغفرت اور جنّت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا۔‘‘(بیہقی / شعب الایمان)

رمضان المبارک کے روزے پورے سال بندۂ مومن پر تزکیۂ نفس اور تربیت کے نقوش اور اثرات قائم رکھتے ہیں، تاہم یہ اُسی صورت ممکن ہے، جب روزہ حقیقی رُوح کے مطابق ہی رکھا جائے۔ روزے کا مقصد محض بُھوکا پیاسا رہنا نہیں۔ اِس ضمن میں رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشادِ گرامی ہے’’جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا، تو اللہ عزّوجل کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘(صحیح بخاری )حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص (روزے کی حالت میں) ناجائز کلام کرنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)

حضرت ابوہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’تم میں سے جس کسی کا روزہ ہو، تو نہ وہ بے حیائی کی بات کرے، نہ جہالت کا ثبوت دے اور اگر کوئی اُس پر جاہلانہ طور پر چڑھ آئے، تو اُسے یہ جواب دے کہ’’ مَیں روزے سے ہوں۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ)حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسالتِ مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص رمضان کا روزہ رکھے اور اس کی حدود کی رعایت رکھے اور جن چیزوں کی نگہہ داشت کرنی چاہیے، اُن کی نگرانی کرے، تو یہ اُس کے گزشتہ گناہوں کا کفّارہ ہوجائے گا۔‘‘(الترغیب والترہیب)

ایک اور موقعے پر آپؐ نے ارشاد فرمایا’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ اُنہیں روزے سے بُھوک اور پیاس کے سِوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ (مشکٰوۃ) رسولِ کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’جب تُو روزہ رکھے، تو تیرے کان، تیری آنکھ، تیری زبان، تیرے ہاتھ اور تیرے تمام اعضاء ناپسندیدہ اور حرام باتوں سے رُکے رہیں۔‘‘حجۃ الاسلام، امام غزالیؒ ’’احیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں،’’خاص روزہ یہ ہے کہ کانوں کو ناجائز باتوں کے سُننے سے، آنکھوں کو ناجائز چیزوں کے دیکھنے سے، زبان کو فحش گوئی، جھوٹ، بہتان اور غیبت سے، ہاتھوں کو ناجائز چیزوں کے چُھونے یا کسی پر ظلم کرنے سے اور دوسروں کو ناجائز مقامات پر جانے سے روکا جائے، یہی نہیں بلکہ عام اعضا و جوارح کو شریعت اور اسلامی تعلیمات کے منافی کاموں کے ارتکاب سے باز رکھا جائے۔‘‘

رسالتِ مآبﷺ کے ارشادِ گرامی’’روزہ ڈھال ہے۔‘‘کا بھی یہی بنیادی تقاضا ہے، ورنہ محض بھوکے پیاسے رہنے سے روزے کے حقیقی تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔چناں چہ، معلمِ کتاب و حکمت، نبیٔ رحمت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو، تو وہ اپنی زبان سے بے ہودہ بات نہ نکالے اور نہ شور ہنگامہ کرے اور اگر کوئی اس سے گالم گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہو، تو اُسے چاہیے کہ وہ یہ کہہ دے کہ’’ مَیں تو روزے سے ہوں۔‘‘(بخاری و مسلم) 

رسولِ اکرم ﷺ کا یہ فرمانِ گرامی ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا’’جس شخص نے روزہ رکھنے کے باوجود جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا، تو اللہ کو اس سے کوئی دل چسپی نہیں کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری) ایک موقعے پر آپؐ نے ارشاد فرمایا’’کتنے ہی بدقسمت روزے دار ہیں کہ جنہیں اپنے روزے سے سِوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی (رمضان کی بابرکت راتوں میں) قیام کرنے والے ہیں(تراویح پڑھنے والے ہیں) جنھیں اپنی تراویح سے سِوائے جاگنے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔‘‘ 

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جس شخص نے اپنے اعضاء کا روزہ نہیں رکھا (جسمانی اعضاء کو گناہوں اور بداعمالیوں سے باز نہ رکھا)، تو اس کے کھانے پینے سے رُکنے کی مجھے حاجت نہیں۔‘‘ (مسندِ ابونعیم)اِن احادیثِ نبویؐ کو پیشِ نظر رکھیں کہ یہ روزے کی مقصدیت، اس کی فرضیت اور غرض و غایت کا واضح اظہار ہیں۔ یعنی روزے کی فرضیت کا مقصد وہ عظیم جذبہ ہے، جسے بے دار کرنے اور اس کے نفاذ کے لیے یہ عبادت فرض کی گئی اور وہ ہے’’تقویٰ اور پرہیزگاری۔‘‘

اگر تربیتِ نفس اور تعمیرِ سیرت و کردار کا یہ حقیقی مقصد حاصل نہ ہوسکے، تو گویا روزے کا حقیقی مقصد فوت ہوگیا۔ یہ عبادت درحقیقت ضبطِ نفس، صبر و ایثار، تزکیۂ باطن اور تطہیرِ قلوب کا ذریعہ ہے۔ یہ اعترافِ بندگی کا مظہر اور اللہ کی رضا اور اُس کے قرب کا بہترین وسیلہ ہے۔ صُوفیائے کرام نے اس ماہِ مبارک کی عظمت کے پیشِ نظر اسے تنویرِ قلوب کا مہینہ قرار دیا ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا’’جو لوگ رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھیں گے، اُن کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔‘‘ (بخاری و مسلم)ایمان اور احتساب کا جذبہ اُسی وقت بے دار ہوگا، جب خوفِ خدا، ضبطِ نفس اور تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ اپنائی جائے، نیکی پر عمل اور بدی سے اجتناب کیا جائے۔

رمضان المبارک کا پورا مہینہ خیر و صلاح اور تقویٰ و پرہیزگاری کا موسمِ بہار ہے، نیکیوں کے اس موسمِ بہار میں تعمیرِ شخصیّت اور اصلاحِ کردار کا وہ راستہ اپنایا جائے، جو اللہ اور اُس کے رسولؐ کی رضا اور تعلیمات کے عین مطابق ہو۔ اِس ماہِ مبارک میں یہ عہد کیا جائے کہ تعمیرِ سیرت اور تزکیۂ نفس کے لیے ایثار و ہم دردی، ضبطِ نفس اور تقویٰ و پرہیز گاری کے جو جذبات ہم میں پیدا ہوئے ہیں، وہ سال بَھر اور زندگی کے ہر موڑ پر قائم رہیں گے۔ تعمیرِ سیرت اور اصلاحِ کردار کا یہ عمل فرد سے افراد تک اور افراد سے پورے معاشرے تک جاری رہے گا۔

سنڈے میگزین سے مزید