• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں مردم شماری کا آغاز ہوچکا ہے جسے سندھ کے تمام اسٹیک ہولڈرز نے تقریباً مسترد کردیا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مہیا کئے گئے فارم میں قومیت کا کالم نہیں ہے جس سے شکوک و شبہات جنم لے چکے ہیں۔ سندھ حکومت کو ہی نہیں سندھ میں بسنے والے ہر شخص کو اس مردم شماری پر شدید اعتراضات ہیں کیوں کہ سیلاب کی وجہ سے چند اضلاع کے لوگ تو بالکل در بدر ہیں کچھ اس وقت سندھ پنجاب کے بارڈر پرہیں اور کچھ بلوچستان کے چند قریبی اضلاع میں پناہ گزین ہیں اور ایک بڑی تعداد کراچی میں قائم ٹینٹ سٹی میں بھی موجود ہے،کیوں کہ سیلاب کا پانی ابھی تک زمینوں پر کھڑا ہے اور جہاں سے اترا ہے وہاں زندگی کے تمام آثار ختم کر کے اترا ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ ڈیجیٹل مردم شماری پر وفاق سندھ حکومت کے تحفظات دور کرے تاکہ یہ مردم شماری کی مشق ضائع نہ ہو اور صوبے کا ایک ایک شخص گنا جائے، ہر خاندان کے سربراہ کو پتہ ہو کہ اگر اس نے اپنے خاندان کے 10افراد لکھوائے ہیں تو وہ ڈیٹا میں شامل ہیں ، ڈیجیٹل مردم شماری میں غیر قانونی طور بسنے والے لوگوں کو الگ گنا جائے تاکہ درست اعداد سامنے آئیں کہ سندھ میں کتنے لوگ رہتے ہیں اورکتنےوسائل استعمال کر رہے ہیں اور بنیادی طور پر وہ کہاں سے آکر بسے ہیں، یہاں ہر زبان بولی جاتی ہے، سندھ میں سندھی بولنے والوں کی 5اقسام ہیں، ایک تو ’’اسمارٹ‘‘ سندھی ہیں۔ جو اصل سندھ کے باسی اور وارث ہیں۔ یہ اصل میں ہندو تھے یا ہندو سے مسلمان ہوگئے۔ دوسرےمختلف ادوار ميں سندھ پر قبضے کے دوران مختلف قومیتیں ایران کے راستے سندھ آکر آباد ہوئیں اور حکومتی معاملات سے وابستہ ہونا شروع ہوئیں۔لہٰذا معاشرے میں جلد ان لوگوں نے اہم مقام بنا لیا، ۔ تیسرے ’’بلوچ بیک گرائونڈ سندھی‘‘ ہیں۔ جو بلوچ قبیلے تالپوروں کے سندھ پر حکومت کے دور میں سندھ آنا شروع ہوئے اور یہاں حکومت بنانے کے بعد ان کی تعداد بڑھتی گئی اور پھر یہ لوگ اسی دھرتی کے ہوکر رہ گئے۔ یہ گھر میں بلوچی یا سرائیکی لیکن باہر سندھی ہی بولتے ہیں اور زیادہ تر اب بھی بلوچ ضرور کہلواتے ہیں لیکن قومیت کے خانے میں سندھی لکھے جاتے ہیں۔ چوتھے ’’پنجابی بیک گرائونڈ والے وہ لوگ جو 1901ء میں نارا کینال اور 1932ء میں سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت آکر سندھ میں آباد ہوئے اور نواب شاہ، خیرپور، سکھر، سانگھڑ، بدین میں یہ لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں، سندھ کی ثقافت اور رسم رواج اختیار کرلینے کے بعد اب یہ سندھی ہی کہلواتے ہیں، مگر آج بھی گھروں پر یہ پنجابی ہی بولتے ہیں تاہم سندھی پر نہ صرف انہیں مکمل عبور ہے بلکہ سندھی ثقافت ہی ان کی شناخت ہے، پانچویں ’’پنجابی سرائیکی بیک گرائونڈ سندھی‘‘ بھٹو، بھٹی، مہر، کلیار، کچھیلا، کھرل، سیال، کھوکھر، چاچڑ وغیرہ ہیں۔ جو انگریز دور سے بھی بہت پہلے سے سندھ میں رہ رہے ہیں اور اب تو گھر میں اور آپس میں بھی سندھی ہی بولتے ہیں یہ مکمل طور پر سندھی ہیں، گھر پر بھی سندھی بولتے ہیں اور سندھ ہی ان کی شناخت ہے۔ دیہی سندھ پر اس وقت اسمارٹ سندھیوں اور بلوچ بیک گراؤنڈ سندھیوں کی سماجی ' معاشی اور سیاسی بالادستی ہے، شہری سندھ کے علاقے ' کراچی میں پنجابی ' پٹھان ' راجستھانی ' گجراتی ' بہاری ، یوپی والے اور سی پی والے رہتے ہیں۔ جو خود کو سندھی نہیں کہلواتے۔ کچھ لوگ پاکستان کے مختلف علاقوں سے سندھ میں روزگار کی تلاش میں آتےاور زندگی کے آخری سال اپنی سر زمین پر جا کر بسر کرتے ہیں، ہاں 1950ءسے 1970ءتک آئے پنجابی اور پٹھان یہاں ہی دفن ہونا پسند کرتے ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو سندھی نہیں کہلواتے ان سے بھی گزارش ہے کہ جب آپ کا قبرستان یہاں ہے تو آپ اپنے آپ کو سندھی کہلوانے میں کیوں جھجک محسوس کرتے ہیں لیکن شہری سندھ پر اس وقت پنجابیوں ' پٹھانوں ' راجستھانیوں ' گجراتیوں ' بہاریوں کے مقابلے میں یوپی والوں اور سی پی والوں کی سماجی ' معاشی اور سیاسی بالادستی ہے، ہندوستان سے آئے ہوئے لوگ یہاں شہری سندھ میں ہر شعبہ زندگی میں اپنی چھاپ رکھتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری میں کوئی ایسا خانہ موجود ہے کہ جس میں لکھا ہوا ہو کہ آپ کا تعلق کس صوبے سے ہے؟میری یوپی، سی پی اور ہندوستان سے ہجرت کرکے سندھ میں بسنے والوں سے بھی گزارش ہے کہ آپ بھی اپنی قومیت کے خانے میں سندھی لکھوائیں۔ ساتھ ہی جو سندھ میں رہ رہے ہیں انھیں پابند کیا جائے کہ وہ اپنی مادری زبان کے خانے پر لکھیں کہ وہ کونسی زبان بولتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ سندھ میں اس وقت دیگر زبانیں بولنے والے کتنے لوگ ہیں ۔

تازہ ترین