• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

حیرانی پر حیرانی ہوئے

22جنوری کا شمارہ موصول ہوا۔ سرورق پر سرسری نظر ڈال کرآگےبڑھ گئے۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی، مدینہ منوّرہ عہد قدیم سے دورِ جدید تک کی ساتویں قسط لائے۔ معلومات میں اضافے کے ساتھ روحانی سرور بھی حاصل ہوا، خاص طور پر جب متعصّب یورپین مورخین کو حقیقت کا آئینہ دکھایا کہ پہلا بین الاقوامی معاہدہ تو ’’میثاقِ مدینہ‘‘ ہے، تو پھر اُس کے600سال بعد ہونے والا میگنا کارٹا کا معاہدہ کیسے دنیا کا پہلا معاہدہ بن گیا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال ’’عالمی یومِ تعلیم‘‘ پر خصوصی تحریر لائے، مگر ہم پر کوئی اثر ہونے کا نہیں، حالاں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی ہی ’’اقرا‘‘ کی نازل ہوئی۔ 

حکُم ران اقتدار کے جوڑ توڑ میں، عوام روٹی کے چکر میں لگے ہوئے ہیں، کسی کی بھی ترجیح تعلیم نہیں، جب کہ پرائیویٹ اسکولز پیسا کمانے کی دُکانیں ہیں۔ ’’فیچر‘‘ میں منور راجپوت ہندوستان کے دو بادشاہوں علائو الدین خلیجی اور شیر شاہ سوری کے کارنامے، اصلاحات تاریخی حوالوں سے بیان کررہے تھے۔ ’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا نے یوکرین جنگ کے دنیا پر پڑنے والے اثرات کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ پیوٹن کی ہوسِ ملک گیری نے یورپی دنیا کو اقتصادی مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ ہمارے خیال میں تو دنیا میں موجود ایسے سب سرپھروں کا سر سختی سے کچل دینا چاہیے۔ ’’دہلی نامہ‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا بستی نظام الدین اور درگاہ نظام الدین کا آنکھوں دیکھا حال بتا رہے تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ سے بھی صرفِ نظر کرتے، مگر آپ کی تحریر نے قدم باندھ دیے، تو ماڈل کی جھلک بھی دیکھ ہی لی۔ 

’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیر نے سیاسی رہنما، ادیب ڈاکٹر سلیم کُرد سے اچھی بات چیت کی۔ نئی کتابوں پر بہترین تبصرے کے ساتھ اختر سعیدی موجود تھے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عادل حسن، جگر کے سرطان اور پروفیسر ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری گُردوں کے امراض سے متعلق معلومات فراہم کررہے تھے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ملک محمّد اسلم، اقصیٰ منور ملک، خدیجہ علی اور روبینہ قاسم کی اچھی تحریروں سے مستفید ہوئے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں معتبر رشتوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا تو ’’متفرق‘‘ میں بابر سلیم خان دنیا کے سات نئے عجائبات کا تذکرہ لائے۔

 ’’ڈائجسٹ‘‘ میں آسیہ پری وش کا ’’کفّارہ‘‘ اچھا تھا۔ عشرت زاہد اور محمّدعلی اشرف کی غزلیں بھی متاثرکُن لگیں اور اب آگئے ہیں اپنے صفحے پر، ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا تاج، محمّد جاوید اقبال کے سر سجایا گیا۔ ہمارے لفظ آرتھرائٹس پہلی بار پڑھنے پر آپ حیران ہوئیں اور ہم آپ کی حیرانی پر حیران ہوئے، کیوں کہ اللہ کے فضل سے ہم اس بیماری میں کبھی مبتلا نہیں ہوئے، روز دو کلو میٹر سے زیادہ واک کرتے اور جوانوں سے ریس لگاتے ہیں اور بُرا ہو، اُس پروف کا، جو غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے۔ آئندہ کسی بھی غلطی کو پروف کے کھاتے میں ڈال کر آگے بڑھ جایا کریں گے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: مطلب یہ کہ جب تک کوئی مرض خُود کو لاحق نہ ہو، اُس سے متعلق کچھ پڑھنا بھی گناہ ٹھہرا۔

تاریخی تحریروں کا انتظار

محمود میاں نجمی ’’سرچشمہ ہدایت‘‘ میں موجود ہیں اور ہم انتہائی ذوق و شوق بلکہ خشوع و خضوع سے ہر ہفتے ’’مدینہ منوّرہ‘‘ کا عہد ِقدیم سے دورِ جدید تک کا احوال پڑھ رہے ہیں۔ بہت عرصے بعد ایک بہترین ’’گفتگو‘‘ بھی پڑھنے کو ملی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ملاقات خُوب رہی۔ بعض سوالات کے تو بہت ہی اچھے جوابات دیے، خاص طور پر یہ جواب کہ ’’عوامی نمائندوں کو 16ارب ترقیاتی کاموں کے لیے دیے، مگر افسوس کہ ایک ڈسپینسری تک قائم نہ ہوئی‘‘ تو یہ حال ہے، ہمارے عوامی نمائندوں کا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا کا تجزیہ کمال تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں دسترخوان موجود تھا اور کافی میٹھا کھانے کو مل گیا۔ اور ہاں، سرورق کی کوٹ والی ماڈل بہت اچھی تھی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا ’’دہلی نامہ‘‘ چھایا ہوا ہے۔ 

اگلے شمارے میں منور راجپوت نے’’فیچر‘‘ کےعنوان سے ہندوستان کے دو نام وَر حُکم رانوں کی داستان بیان کرکے ہمیں اسکول کا زمانہ یاد کروا دیا کہ اسکول میں زیادہ تر تاریخِ ہندوستان ہی پڑھائی جاتی تھی۔ منور راجپوت! ہم آپ کی مزید تاریخی تحریروں کا انتظار کررہے ہیں۔ ’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا موجود تھے اور یقین مانیں، مرزا صاحب کی تحریر کے بعد جریدے میں ہرگز کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی، ایک صفحےسےپوری دنیا کے حالات و واقعات سے آگاہی حاصل ہوجاتی ہے اور وہ بھی انتہائی رواں اور سہل انداز میں۔ 

’’جہان ِ دیگر‘‘ کے ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کے ساتھ ساتھ ہم بھی محوِ سفر ہیں۔ بلاشبہ ’’دہلی نامہ‘‘ بہت ہی اچھے، خُوب صُورت انداز میں بیان ہورہا ہے۔ لُطف کی بات ہے کہ’’اسٹائل‘‘ کےصفحات پر مسلسل آپ کی تحریریں پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے پراٹھوں کا جواب نہیں تھا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بہترین سلسلہ ہے، پڑھ کر دلی سُکون ملتا ہے کہ ابھی بھی رشتوں میں اِس قدر خلوص، چاہت و الفت موجود ہے اور بابر سلیم خان کی ایک معلوماتی تحریر پڑھنے کو ملی، بہت اچھی لگی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: آپ کا پیغام منور راجپوت تک پہنچا دیا گیا ہے۔ منور مرزا صاحب سےمتعلق بھی آپ نے بجا فرمایا۔ جب سے وہ ’’سنڈے میگزین فیملی‘‘ کا حصّہ بنے ہیں، ہمارا یہ دردِ سر ہی نہیں رہا کہ اب اس ہفتے حالات و واقعات یا عالمی اُفق کے ضمن میں کسے، کیا اسائن کیا جائے۔ منور صاحب کی انٹر نیشنل اور کرنٹ افیئرز پر مہارت اور گرفت کا کوئی ثانی ہی نہیں۔ یہ جو بیش تر ٹی وی چینلز پر نام نہاد تجزیہ نگار عموماً ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے ہیں، اُنہیں منور مرزا صاحب سے کچھ سیکھنا چاہیے۔

نوجوانوں کو قیادت سونپ دیں

اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں متبرّک صفحات ’’سرچشمہ ہدایت‘‘ جگمگا رہے تھے۔ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، نیشنل پارٹی کے صدر، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے تفصیلی گفتگو بہت پسند آئی۔ منور مرزا نے پوچھا۔ ’’مُلکی و قومی قیادت کیسی ہونی چاہیے؟‘‘ تو مَیں یہی کہوں گا کہ بزرگ سیاست دانوں کو چاہیے کہ اب وہ نوجوان قیادت کو موقع دیں اور جو بھی نوجوان مُلک سے مخلص ہو، اُسے قیادت سونپ کر خُود اللہ، اللہ کریں اور ضروری نہیں کہ وہ نوجوان اپنا بیٹا، بھتیجا، بھانجا ہی ہو۔ 

’’دہلی نامہ‘‘ کی دونوں اقساط زبردست تھیں اور ہمیں بہت خُوشی ہورہی ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے ’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ اَپ آپ لکھ رہی ہیں۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے گورنر زاہد حسین سے متعلق جان کر بہت اچھا لگا۔ یوکرین جنگ کا خاتمہ عالمی قیادت کے لیے واقعی بہت بڑا چیلنج ہے اور ساری دنیا مانتی ہے کہ تعلیم ہی اصلی، حقیقی، بہترین سرمایہ ہے، مگر ہمارے یہاں اس طرف بہت کم توجّہ ہے۔ بجٹ میں بھی تعلیم کے لیے بمشکل ڈیڑھ دو فی صد ہی مختص کیا جاتا ہے۔ سیاسی رہنما، ادیب، شاعر، ڈاکٹر سلیم کُرد کا انٹرویو بھی پسند آیا۔ سات نئے عجائبات عالم سے متعلق مضمون بھی بہت ہی دل چسپ تھا۔ ایسی دل چسپ تحریریں شامل کرتی رہا کریں۔ یہی تو سبب ہے، جو ہم ایک طویل عرصے سے سنڈے میگزین کے مدّاح ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

اشتہاری مہم کے ذریعے آگاہی

تبصرے کا آغاز محمود میاں نجمی کے شاہ کار ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے کروں گا، جو ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہورہا ہے۔ منور مرزا نے ’’بیانیے کی جنگ میں اقتدار کی رسّہ کشی‘‘ کو کُوزے میں دریا کی طرح سمودیا۔ ’’ڈیجیٹل مردم شماری‘‘ حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا، اگر عوام کو پہلے کسی اشتہاری مہم کے ذریعے آگاہی دی جاتی، کیوں کہ ہمارے ہاں اکثر آبادی (بیش تر پڑھے لکھے افراد بھی) بینک میں بِلز پر ٹھپا لگانے کو ترجیح دیتےہیں۔ اس بار ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کا صفحہ کچھ خاص نہیں لگا،البتہ ضیاء محی الدین سے متعلق مضمون بےحد معلوماتی تھا، واقعتاً وہ ایک گوہرِ نایاب تھے۔ 

’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ اَپ بیگم نے اخبار گھر میں آتے ہی باآوازِ بلند پڑھا، تو واقعی دل کو بہت اچھا لگا اور پھر ہم نے پورا دوبارہ بھی پڑھا۔ ’’بااختیار خواتین‘‘ ایک اچھی معلوماتی تحریر تھی۔ ’’دہلی نامہ‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے اپنا سفر مسلسل جاری رکھا ہوا ہے۔ ’’بیٹیاں، آنگن کی کلیاں‘‘ بھی ایک اچھی تحریر تھی۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے، اللہ ہر بیٹی کے نصیب اچھے کرے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ اور کچھ توجّہ اِدھر بھی دونوں ہی صفحات کی تحریریں لاجواب تھیں اور آخر میں بات ہوجائے ہمارے ہر دل عزیز صفحے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، جس میں کچھ نئے لوگ نظر آئے۔ ویسے سب ہی خطوط اور آپ کے جوابات دونوں اچھے تھے۔ میری طرف سے جنگ، سنڈے میگزین کی ٹیم کے لیے ڈھیر ساری دُعائیں۔ (غلام مصطفٰی ظفر، کورنگی نمبر ڈھائی، کراچی)

ج: بالکل درست کہہ رہے ہیں آپ۔ مُلک میں پہلی بار ڈیجیٹل مردم شماری ہو رہی ہے، تو اِس کی تشہیر بہت اچھے طریقے سے ہونی چاہیے تھی۔

پاکستان پوسٹ کی مہربانی؟

مَیں اِن دنوں ایک کام کے سلسلے میں اوکاڑہ آیا ہوا ہوں۔ گزارش یہ ہے کہ مَیں نے28 دسمبر 2022ء کو آپ کو چند گزارشات پر مشتمل ایک خط بھیجا تھا اور ساتھ ہی ایک سچّا واقعہ بھی۔ جو کہ خُود میرے ساتھ دسمبر2007ء میں پیش آیا تھا، لیکن شاید میری تحریر آپ تک پہنچ نہ سکی۔ عین ممکن ہے، پاکستان پوسٹ ہی کی کوئی مہربانی ہو کہ مجھ سے ڈاک خرچ کے پیسے بھی لے لیے اور میرا لفافہ بھی ردّی کی نذر کردیا۔ مجھے یہ اندازہ اِس لیے ہورہا ہے کہ آج تین ماہ گزرنے کو ہیں، نہ تو میرا خط شائع ہوا اور نہ ہی میرا بھیجا ہوا واقعہ۔ (ایم عبدالرائوف، ایجرٹن روڈ، لاہور)

ج: پاکستان پوسٹ کی کارکردگی کچھ ایسی بھی خراب نہیں۔ کچھ ادارے بس بلاوجہ بدنام زیادہ ہیں۔ آپ کا خط، تحریر مل گئی تھی اور پچھلا ہمارے خط26 فروری کے ایڈیشن میں شائع بھی ہو چُکا ہے۔ آپ نے دراصل انتظار کی زحمت کیے بغیر ہی دوسرا خط لکھ بھیجا۔ رہی بات واقعے کی اشاعت کی، تو وہ بھی اگر قابلِ اشاعت ہوا تو باری آنے پر شائع ہوجائے گا، بصورتِ دیگر نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل کردیا جائے گا۔

میرا دل یہ پکارے، آجا…

اُمید ہے، آپ کی ٹیم اور آپ خیریت سے ہوں گی۔ دیگر احوال یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے میرے خط اشاعت سے محروم ہیں۔ اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ جب تک پہلا خط شائع نہ ہوجائے، دوسرا نہ بھیجا جائے، کیوں کہ آپ کے ہر جریرے میں یہ بھی تحریر ہوتا ہے کہ ’’اپنی رائے سے آگاہ کرنا نہ بھولیے گا۔‘‘ آپ لوگوں کی بے اعتنائی دیکھ کر اب تو دل یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ ’’میرا دل یہ پکارے آجا،میرے خط کے سہارے آجا… بھیگا بھیگا ہے سماں، ایسےمیں ہے تو کہاں۔‘‘ بے شک مختصر کرکے ہی چھاپیں، خط شائع تو کردیا کریں۔ جریدے کی بات کروں تو ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی مدینہ منوّرہ کے ذکر سے صفحات کو خُوب روشن کر رہے ہیں۔ 

’’گفتگو‘‘ میں نیشنل پارٹی کے صدر، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے خیالات جاننے کا موقع ملا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا پچھلے ادوار کی غلطیوں کا محاسبہ کررہے تھے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ’’دہلی نامہ‘‘ نے خُوب جگہ بنائی ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر اسد اللہ اعوان پلاسٹک سرجری کے فوائد بیان کر رہے تھے، تو پروفیسر ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری نے بے چینی و اضطراب کی وجوہ بیان کیں۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں سلیم اللہ صدیقی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے گورنر زاہد حسین کی خدمات کا اعتراف کیا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ اور ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحات دل میں اُتر گئے۔ ’’نیا سال، نئی امنگیں‘‘ اختر سعیدی کی دُعا بہترین تھی۔ ہر ہر مصرعے پر آمین کہا۔ ’’ناقابل فراموش‘‘ میں دُعائے پدر کا اجر اور زندگی بھر کے لیے ایڈونچر سے توبہ، دونوں ہی واقعات انتہائی سبق آموز تھے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)

ج: آپ کے آج تک جتنے بھی خطوط موصول ہوئے ہیں۔ خواہ اُن میں سے ایک ایک جملہ ہی کیوں نہ لیا گیا ہو اور خواہ چھے چھے خطوط کا مکسچر ہی کیوں نہ بنادیا گیا ہو، مگر شائع سب کیے گئے ہیں اور اِن دِنوں تو ڈاک کم ہونے کے باعث (کہ اخبارات کے اشتہارات، صفحات ہی کم نہیں ہوئے، سرکولیشن بھی خاصی گھٹ گئی ہے اور نتیجتاً لوگوں کے خطوط بھی کافی کم ہوگئے ہیں) خطوط جلدی جلدی اور تقریباً سب ہی شائع ہورہے ہیں۔

                           فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سدا خوش رہو، خداوند تعالیٰ کی ذات سے اُمید کرتی ہوں کہ آپ اور آپ کی ٹیم خیریت و عافیت سے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر دے کہ ہر ہفتے اتناپیارا سنڈے میگزین تیار کرکے ہمیں بھیجتے ہیں۔ جنوری 2023ء کے اب تک کے تمام میگزین اپنی مثال آپ ہیں۔ ’’سرچشمہ ٔہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی مدینہ منوّرہ کے ماضی و حال سے پوری شان و شوکت کے ساتھ آگاہی دے رہے ہیں۔ رائو محمّد شاہد اقبال نواب شاہ سے ’’عالمی یوم تعلیم‘‘ کےموقعےپر’’تعلیم ہی اصل، حقیقی، بہترین سرمایہ ہے‘‘ کے عنوان سے ایک بے مثال تحریر لے کر آئے،ویل ڈن شاہد۔ منورراجپوت ’’فیچر‘‘ میں ہندوستان کے دو اصلاحات پسند بادشاہوں علائو الدین خلجی اور شیر شاہ سوری کا تذکرہ کررہے تھے کہ انہوں نے عوام کی زندگیاں کیسے آسان بنائیں۔ یہ تحریر ہمارے حُکم رانوں کےلیے یقیناً ایک سبق ہے۔ ’’عالمی افق‘‘ میں منورمرزا یوکرین جنگ سےمتعلق تفصیلاً بتا رہے تھے۔ 

بلاشبہ منور مرزا ہی کے طفیل ہم حالاتِ حاضرہ سے اس قدر عُمدگی سے باخبر رہتے ہیں۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کے قلم کی کیا بات ہے۔ بلاشبہ ’’دہلی نامہ‘‘ اپنی مثال آپ ہے اور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر آپ کی تحریر تو موتیوں میں تولنے کے لائق ہوتی ہے۔ ہاں اگر ملبوسات فراہم کرنے والے بوتیکس، پہناووں کے ساتھ اسکارفس، سردیوں کی مناسبت سے شالز یا مفلرز بھی ماڈل کو عنایت کردیتے، تو کیا بات تھی، آخر ہمارا مُلک ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عادل حسن ’’جگر کے سرطان‘‘ سےمتعلق سیرحاصل، معلوماتی مضمون لائے۔ 

پروفیسر ڈاکٹر امجد علی جعفری کا گردے کی پتھری سےمتعلق مضمون بھی معلوماتی تھا۔ اب آتے ہیں ’’پیارا گھر‘‘ کی طرف۔ ’’خواتین پر ظلم و جبر آخر کب تک؟‘‘ کے موضوع پر مرد مضمون نگار کی تحریر نے متاثر کیا۔ اچھی کاوش تھی۔ اقصٰی منور ملک’’سفارش پر اجر و ثواب‘‘ کی عبارت سے ایک شان دار تحریر لائیں۔ اقصیٰ نے ایک مشکل بات بہت ہی آسان زبان میں سجھائی، شاباش اقصیٰ بٹیا۔ اللہ آپ کو اجر دے۔ 

دسترخوان میں پراٹھوں کی تراکیب دیکھیں، تو بس پھر ہم نے بھی گرا گرم آلو کے پراٹھے بنا ہی ڈالے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کف تینوں کہانیاں دل چُھو لینے والی تھیں۔ سعدیہ افضل کے بارے میں پڑھا، اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے اور متعلقین کو صبر و جمیل عطا کرے۔ ’’متفرق‘‘ میں ’’سات نئے عجائباتِ عالم‘‘ ایک معلوماتی مضمون تھا اور ’’ڈائجسٹ‘‘ میں آسیہ پَری وش کی کاوش ’’کفّارہ‘‘ بھی پسند آئی۔ (خالدہ سمیع، گلستانِ جوہر، کراچی)

گوشہ برقی خطوط

* ’’آدمی‘‘ سلسلے کے بعد، عرفان جاوید کے کسی نئے سلسلے کا شدّت سے انتظار ہے۔ آپ یہ بتا دیں کہ میرا یہ انتظار کس قدر طویل ہو سکتا ہے۔ (سعدیہ صدیق، راول پنڈی)

ج: خاصا طویل ہو سکتا ہے، کیوں کہ عرفان جاوید جس پائےکے قلم کار ہیں اور جس طرح کی نگارشات سامنے لاتےہیں، ایسی قلم آرائی کوئی گڈّے گڑیا کا کھیل نہیں۔ عموماً اُن کے ایک سے دوسرے سلسلے کے درمیان سال بَھر تو محیط ہوتا ہی ہے۔

* مَیں نے آپ کو دو عدد تفصیلی آرٹیکلز ارسال کیے تھے۔ ایک کا موضوع تھا ’’برصغیر میں مسلمانوں کی تعلیمی سمت کا تعیّن کرنے والی شخصیت، سر سید احمد خان‘‘ اور دوسرے کا ’’علیحدہ امتحانی کمرا‘‘ دونوں نہ شائع ہوئےاور نہ ہی ناقابل اشاعت کی فہرست میں نام شامل ہوا۔ مہربانی فرما کے اُن کے اسٹیٹس سے متعلق آگاہ کریں۔ (ڈاکٹر ظفر فاروقی، گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج، نشتر روڈ، کراچی)

ج: ڈاکٹر صاحب! اشاعت اور عدم اشاعت دونوں صُورتوں کےلیے بہرحال آپ کو باقاعدگی سے جریدے ہی کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ انفرادی طور پر کسی تحریر کا اسٹیٹس بتانا ممکن نہیں۔

* کافی عرصے بعد میگزین کا حصّہ بن رہی ہوں۔ میری یاد تو آئی ہوگی، میری کمی ضرور محسوس ہوتی ہوگی کہ مَیں کبھی اِس جریدے کا مستقل حصّہ رہی ہوں۔ خُود مجھے بھی اپنے بغیر جریدہ ادھورا ادھورا محسوس ہورہا تھا۔ ویسے مجموعی طور پر میگزین نے اپنا معیار بحُسن و خُوبی برقرار رکھا ہوا ہے۔ (فہیم مقصود، والٹن روڈ، لاہور)

ج: ویلکم بیک فہیم۔ آپ کا اپنا جریدہ ہے، جب جی چاہے آئیں، نہ جی چاہے تو نہ آئیں۔ ہم جانے والوں کو روکتے نہیں، مگر آنے والوں کو خوش آمدید ضرور کہتے ہیں۔ ہاں، مگر یہاں کسی کو یاد کرنے کرانے کا کوئی سلسلہ نہیں۔ ہمارے ایک انتہائی شان دار نامہ نگار، عُمدہ قلم کار، محمّد سلیم راجا صاحب ایک عرصے سے مِسنگ ہیں، ہمیں تو اُنھیں یاد کرنے کی توفیق نہیں ہوئی، تو کسی اور کو کیا یاد کریں گے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk