• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

دل بستگی کا سامان

آپ کے ’’سالِ نو2023ء ایڈیشن‘‘ نے تو سب کے دل ہی جیت لیے۔ بھئی، مان گئے کہ جنگ، سنڈے میگزین، جرائد کی دنیا کا بےتاج بادشاہ، ایک موقر و مستند جریدہ ہے، جو ہر عُمر اور ہرذوق کے قارئین کی دل بستگی کا خُوب سامان کرتا ہے۔ (شری مُرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

جہانِ دیگر، میرا پسندیدہ صفحہ

میگزین کا پہلا صفحہ ہمیشہ کی طرح مدینہ منوّرہ کی تاریخ سے بَھرپور ملا۔ اِس مرتبہ 9ویں قسط پیش کی گئی، جو بہت ہی شان دار تھی۔ ’’یومِ یک جہتیٔ کشمیر‘‘ کی مناسبت سے بھی چند مضامین شامل کیےگئے، بہت خُوب۔ حالات و واقعات میں منور مرزا نے پاک، بھارت تعلقات پر بہترین تبصرہ کیا۔ واقعتاً پاکستان، بھارت کے مابین امن ڈائیلاگ ہونا بہت ہی ضروری ہیں، تاکہ دونوں ممالک کے عوام سُکھ کا سانس لے سکیں۔ سرِورق پر ڈبل ماڈلز موجود تھیں اور آپ کی تحریر کی حکم رانی بھی دکھائی دی۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں شائستہ صنم کی سچّی، کھری باتیں بہت اچھی لگیں اور اُن کے اِس جملے سے کہ ہم گھر میں اُردو بولتے تھے اور امّی، ابّو کی رابطے کی زبان بھی اُردو تھی، اُن کی اُردو سے محبّت ظاہر ہو رہی تھی۔ جب سے میگزین میں ’’جہان ِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا ’’دہلی نامہ‘‘ لے کر آئے ہیں، یہ میرا پسندیدہ ترین صفحہ بن گیا ہے۔ کیا خُوب صُورت انداز میں اپنا سفر نامہ بیان کر رہے ہیں۔ اور ’’پیاراگھر‘‘ میں ایک انار، سو بیمار کے عنوان سے شایع ہونے والا مضمون تو بہت ہی اچھا لگا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

نظرِ کرم فرمائیں گی

بندہ روزنامہ جنگ کا بہت پُرانا قاری ہے۔ قبل ازیں بھی سنڈے میگزین کے لیے کافی کچھ لکھا۔ کچھ تحریریں شائع بھی ہوئیں، پھر بعض مصروفیات کی بنا پر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اب گزشتہ چھے ماہ سے مسلسل آپ کی خدمت میں گزارشات ارسال کررہا ہوں، اُمید ہے کہ آپ اُن پر نظرِ کرم فرماکر حوصلہ افزائی کریں گی۔ (بابر سلیم خان، لاہور)

ج: جو نظر کرم کے لائق ہوں گی، اُن پر ضرور کی جائے گی۔ ہم تو خُود اچھی تحریروں، لکھاریوں کی تلاش میں رہتےہیں، لیکن لگتا کچھ ایسا ہے، جیسے اچھی اُردو لکھنے والوں کا کال ہی پڑ گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ماس کمیونی کیشن سے ماسٹرز کرکے آنے والوں کو بھی دو جملے ڈھنگ سے لکھنے نہیں آتے۔

مدیرہ کا قلم گُنگنا اُٹھا…

منوّر منوّر مدینہ منوّرہ سے متعلق محمود میاں نجمی کے شہہ پارے کی قسط نمبر آٹھ پڑھی، بے شک، اسلام تو سراسر سلامتی ہی سلامتی ہے اور ؎ میرے آقاؐ کی ہے شان سب سے الگ… جیسے رُتبے میں قرآن سب سے الگ۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی بابت منوّر راجپوت کے زورِ قلم کے کیا کہنے۔ انتخابی عمل کے حوالے سے ہر ہر پہلو پر اس عُمدگی سے روشنی ڈالی کہ بلدیاتی انتخابات کا پورا طریقۂ کار سمجھ میں آگیا۔ ویسے جو دو تصاویر صفحے کی زینت بنیں، اُن میں صرف مصطفٰی کمال ہی مُسکراتے دکھائی دیے، باقی تو سب کے منہ لٹکے ہوئے تھے۔ معروف سرجن، استاد، موٹیویشنل اسپیکر، پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال کی فکر انگیز گفتگو تو گویا رنگ تھے قوسِ قزح کے۔ 

شکریہ میڈم، ایسے ایسے نادر و نایاب لوگوں کو سنڈے میگزین کے ذریعے متعارف کروانے کا۔ وہ کیا ہے کہ ؎ جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ… آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں، مگر ایسے بھی ہیں۔ اور بالکل ٹھیک کہا، رائو محمّد شاہد اقبال نے کہ روزگار کے لیے ہمارے ہُنرمند نوجوانوں کا دوسرے ممالک جانا مُلکی معیشت کے لیے سُودمند ہے۔ واقعتاً اب ہمیں ساری دنیا کا غم پالنے کی بجائے اپنی فکر کرنی چاہیے۔ ہمارے منور مرزا بھی مستقلاً یہی بات سمجھا رہے ہیں، اگر کسی کے پلّے پڑ جائے تو۔ اور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ماڈل نیہا بھٹّی کو سامنے پاکر تو مدیرہ کا قلم بھی گُنگنا اٹھا۔ ’’آغا جان کی زندگی میں آنے والی ہر عورت کے لیے تین لفظ ’’محبّت، عزّت اور حفاظت‘‘ لازم و ملزوم تھے۔‘‘ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی تحریر پڑھ کر دل خُوش ہوگیا۔

بلاشبہ، قاضی حسین احمد اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ؎ رُکے تو چاند، چلے تو ہوائوں جیسا ’’تھا‘‘…وہ ایک شخص جو دھوپ میں چھائوں جیسا ’’تھا‘‘۔ ’’دہلی نامہ‘‘ کے ساتھ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے سنڈے میگزین پر اپنی گرفت بہت مضبوط کرلی ہے۔ انھوں نےاس سے قبل کئی افسانے بھی لکھے، مگر اس سفرنامے کی تو بات ہی الگ ہے۔ عرفان صدیقی کی شعری کائنات ’’گریز پا موسموں کی خُوشبو‘‘ کی تقریبِ رُونمائی کی رپورٹ اچھی تھی۔ ایسی رپورٹس وقعتاً فوقتاً شامل ہوتی رہنی چاہیئں۔ نئی کتابوں پر پرانے جواں ہمّت لکھاری اختر سعیدی کے تبصرے کمال ہوتے ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ پر مدثر اعجاز کے قلم نے خُوب رنگ جمایا۔ ’’ناقابل فراموش‘‘ کے دونوں واقعات پسند آئے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے لیے اتنا کہنا ہی کافی ہوگا۔ ’’زندگی روشن ہے وہیں، جہاں سنڈے میگزین تجھے پایا۔‘‘ عشرت جہاں کو اعزاز کی بہت بہت مبارک باد اور میگزین سے وابستہ تمام لکھاریوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج: یہ غلط فہمی تو فوراً سے پیش تر دُور کرلیں کہ ہمارا قلم کسی حُسن پری کی ادائوں سے متاثر ہوکر گُنگنا رہا ہے، ایسا قطعاً نہیں ہے۔ یہ تو درحقیقت مدیرہ ہونے کی سزا ہے۔

معیار باندھے رکھا

؎ رنگوں کو چُن رہا تھا، کلیاں بکھر گئیں۔ سال2022ء کے رنگوں کی تتلیاں پکڑتے ہوئے جو سال کے باون شماروں کے تجزیے پر مشتمل ’’سال نامہ‘‘ دیکھا، لمحوں کے حساب میں صدیاں گزر گئیں۔ سالِ رفتہ کی اَن گنت تحریروں کی کلیاں، اطراف خُوشبو کا اک طوفان برپا کرگئیں۔ ایڈیٹر کے قلم سے نکلا ’’حرفِ آغاز‘‘ وہ مضبوط و ٹھوس بنیاد بنا، جو بدلتے وقت کی کہانی خُوب صُورت ہے، روانی خُوب صُورت ہے، تسلسل خُوب صُورت ہے، کہتا ہوا پورے سال کی عمارت کھڑی کرتا نظر آیا۔ 

ویسے ہر تحریر ہی اپنی جگہ بے مثل و لاجواب معلوم ہوئی۔ سال2022ء کے لگ بھگ سب ہی اسپیشل ایڈیشنز اپنی جگہ بے حد اسپیشل تھے۔ آپ کی ٹیم نے محنتِ شاقّہ کی روایت برقرار رکھی، خصوصاً منور راجپوت، شفق رفیع، منور مرزا، رئوف ظفر کے قلم کی جولانیاں اوجِ کمال پہ دکھائی دیں۔ محمود میاں نجمی کی تو کیا ہی بات ہے۔ عرفان جاوید، سلمیٰ اعوان، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، رائو محمّد شاہد اقبال، اختر سعیدی نے بھی اپنی تحریروں سے گویا اردگرد ایک حصار باندھے رکھا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو وہ شمع ہے، جس کے گرد پروانے سارا سال ہی منڈلاتے رہے۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

سنڈے میگزین کا ادبی شیش محل

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی اپنے نورانی قلم سے اسلامی تواریخ کےچشمےکو انسانی مجسّمے میں ڈھالتے نظر آتے ہیں۔ سالِ نو کے حوالے سےفرحی نعیم کا بہت ہی اثروسحرانگیز، اصلاحی مضمون بھی جریدے پر نظر ٹھہرنے کا سبب بنا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں شہلا الیاس کے واقعے نے متاثر تو کیا، لیکن کچھ خاص مثبت پیغام نہیں مل سکا، البتہ اعزازی چٹھی کے طور پر شائستہ اظہر کے خط نے بےحد متاثر کیا۔ وہ کم کم لکھتی ہیں، لیکن غضب کا لکھتی ہیں۔ ماشاء اللہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کو بھی کیسے کیسے اَن مول ہیرے، موتی مل گئے ہیں، لیکن ایمان داری اور انصاف کی بات یہی ہےکہ اگراتنی عزت وتکریم،پذیرائی اور حوصلہ افزائی نہ ملے،تو ایسی دریافتوں کا حصول ناممکن ہے۔ 

کسی کو ایسا جواب ملے کہ ’’سچ تو یہ ہے کہ تم آئو، تو پھرمقابل کوئی ٹھہرتا نہیں۔‘‘ تو سیروں خون بڑھنا ہی ہے۔ ویسے آپ کے22جنوری کے شمارے میں حیرت انگیز طور پر جو صاحب اعزازی چٹھی کے حق دار ٹھہرے، وہ غالباً اُردو پر عبور کی وجہ سےٹھہرے،وگرنہ موصوف نےایسے لوگوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے، جن کاشمار جریدے کے پائیدار ستونوں میں ہوتا ہے اور آج اُسی مضبوط بنیاد پر سنڈے میگزین کا یہ ادبی شیش محل تعمیر ہے۔ عجیب بات ہے، خُود اقرار و اعتراف کرتے ہیں کہ ’’میرے اس اختلافی خط کو ہرگز شائع نہیں کیا جائے گا، ضائع کر دیا جائے گا۔‘‘ 

مگر پھردوسرے خط میں وہی وتیرہ اپناتے ہیں، بجائے اس کے کہ ممنون و مسنون ہوتے، دوسرے خط میں پھر قابل عزت لکھاریوں پر تنقید و تضحیک کے کاری وار کرتے رہے۔ اب مَیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر آپ کب تک اُنہیں آبزرویشن میں رکھ کے مواقع دیتی رہیں گی؟ ڈاکٹر عزیزہ انجم ہمیشہ کی طرح اُمید و آس کی قندیل لیے ہوئے تھیں۔ ایک بہت اُمید افزا، رجائیت سے بھرپور اصلاحی اور سبق آموز مضمون ہماری نذر کیا۔ 15جنوری کے شمارے میں بہانہ ’’اسٹائل‘‘ کا ٹھہرا، مگر ورسٹائل شاعر فراز کی خُوب صُورت کلام سے مرصّع تحریر گویا موتی مالا کی صُورت صفحات پر بکھری۔ 

اس قدر دِل نشین، دِل آویز، قوسِ قزح سی رنگین نظم تھی کہ پڑھتے پڑھتے کچھ دیرکےلیےتو یوں لگا، جیسے جسم و رُوح کا رشتہ ہی ٹُوٹ گیا ہو۔ اب تو لازم ٹھہرا کہ جب تک آپ اس حُسن کدے کا مورچہ سنبھالے رہیں گی، ہم میگزین کو پڑھنے کی ترتیب تہس نہس کر کے سب سے پہلے ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ ہی کی طرف لپکیں گے۔ 22جنوری کے شمارے میں عزیز بانو داراب کے شعلۂ جوّالا کلام نے بھی بہت متاثر کیا ؎ سردیوں کی دوپہر سے دھوپ لے جائے گا وہ… واہ، کیا بات ہے۔ تبصرے کے لیے تو اور بھی بہت کچھ ہے، ’’جُرمِ طوالت‘‘ سے بچنے کے لیے قلم روک دیا ہے کہ باقی پھر کبھی سہی۔ (ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)

ج: ابھی آپ نے قلم روک دیا ہے۔ اگر نہ روکتے تو یقیناً ہمارے پورے20صفحات آپ ہی کے نام ہوجاتے۔ آپ کو تو یقیناً پتا چل ہی گیا ہوگا، قارئین کے لیے بتائے دیتے ہیں کہ آپ کا لگ بھگ 70 فی صد خط ایڈیٹنگ کی بھی نذر ہوا ہے اور رہی بات ’’انڈر آبزرویشن ناقد‘‘ کو موقع دینے کی تو یہ ہماری برداشت سے کہیں زیادہ قارئین کی برداشت پر منحصر ہے۔ ایسی تنقید برائے تنقید ہم سے زیادہ تو آپ لوگوں کو برانگیختہ کرتی ہے۔

رنگ برنگ لیٹر پیڈز

جنگ اخبار اور سنڈے میگزین ہمیشہ سے میرے پسندیدہ ہیں۔ خصوصاً آپ کا جریدہ سمجھنے، پرکھنے اور سیکھنے کے لیے بہت ہی شان دار ہے۔ اس ضمن میں آپ کا تمام اسٹاف قابلِ تحسین ہے اور مَیں ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خط لکھ کر بھیجنا چاہتی ہوں۔ اُمید ہے، میرے خط کو کسی گوشے میں جگہ عنایت فرمائیں گی۔ یقین کریں، آپ کی سب سے بڑی خُوبی یہی ہے کہ آپ حوصلہ بڑھاتی ہیں۔ مَیں آپ کے لیے ہمیشہ دُعاگو رہتی ہوں۔ مجھے میگزین میں خطوط کا سلسلہ بہت پسند ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گی اور میرے خط کا جواب ضرور دیں گی۔ (مریم طلعت محمود بیگ، لاہور)

ج: ارے بھئی مریم، لگتا ہے آپ کا صابن کچھ سلو ہے۔ پہلے بھی سمجھایا تھا کہ ایک خط کی ایک ہی کاپی کافی ہوتی ہے۔ آپ یہ کیا کرتی ہو کہ ایک ہی متن، عبارت چھے بار الگ الگ رنگ کے لیٹر پیڈ پر لکھ کر ایک ہی لفافے میں ڈال کے بھیج دیتی ہو یا تو آپ چھوٹی سی بچّی ہو اور آپ کو کوئی گائیڈ کرنے والا نہیں ہے۔ اب آپ نے درج بالا متن بعینہ گلابی، سبز، سُرخ، نیلے، آتشی اور نارنجی رنگوں کے لیٹر پیڈز پر ہاتھ سے لکھ کے بھیج دیا ہے۔ ہم نے باری باری سب کو دیکھا اور پھر پلندے میں سے گلابی رنگ کا کاغذ منتخب کرکے باقی سب ڈسٹ بن کی نذر کر دیے، تو اب آپ خُود ہی بتاؤ، آپ کو کیا فائدہ ہوا؟

              فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

نرجس جی، کیسی ہو؟ وہ کیا ہے کہ ہماری ایک پھوپھو ہوا کرتی تھیں، جو ہر سال گرمیوں کی چُھٹیوں میں گائوں سے اپنے بارہ بچّوں کے ساتھ پورے ایک ماہ کے لیے آبرجمان ہوتیں۔ ناصر کاظمی نے شاید پھوپھو کے لیے ہی کہا ہے کہ ؎ شہر لاہور تِری رونقیں دائم آباد… تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کےلائی مجھ کو۔ مگر وہ دن امّاں پر قیامت کے گزرتے تھے، لیکن امّاں بھی اپنے زمانے کی صدر زرداری تھیں، بڑی اونچی سیاست دان، مجال ہے جو پھوپھو کی آئو بھگت میں کوئی کمی ہوجائے۔ مگر جیسے ہی وہ گائوں واپس جاتیں، تو امّاں پَھٹ پڑتیں۔ دادی خاموشی سے سب کچھ سُنتیں، لیکن ایک جملہ ضرور بولتیں۔ ’’اے بوا! کب سے بَھری بیٹھی ہو۔ (اُردو میں ٹرانسلیٹ کردیا ہے۔) بے چارے ابّا کو تو خیر امّاں کبھی خاطر میں نہیں لائیں۔ (اللّہ غریقِ رحمت کرے) بس یہ ہی کچھ تم نے بے چارے سال2022ء کے ساتھ کیا ہے۔

سال کے رخصت ہوتے ہی تم نے جو اُس کے بخیے ادھیڑے ہیں اور جس طرح تمہارے چبھتے ہوئے نوکیلے قلم کے نشتر نے اس کا پوسٹ مارٹم کیا ہے، تو بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ ’’اے نرجس! کب سے بَھری بیٹھی ہو؟‘‘ ویسے تم نے جس خُوب صُورتی اور مہارت سے پورے سال کو سانپ کی کنڈلی میں بند کیا، اُس پر مَیں تم کو ایک زوردار سلیوٹ پیش کرتی ہوں۔ بہت بھرپور تحریر، کوئی گوشہ تشنہ نہ رہا، ویسے تو پورا سالِ نو ایڈیشن ہی تمہاری اور تمہاری ٹیم کی اَن تھک محنتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 

میری طرف سے سب کو بہت مبارک باد، لیکن اس کی ابتدا بھی اگر اللہ کے پاک نام سے ہوتی، تو کتنا اچھا ہوتا۔ مطلب ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے۔ تاریخِ مکّہ مکرمہ کے بعد مدینہ منوّرہ کے سفر نے گویا معلومات کا خزانہ اُگل دیا ہے۔ بزرگ مورخ جو عرق ریزی کررہے ہیں، وہ بیش قیمت سرمایہ ہے، خاص طور پر ہر قصّے کے مکمل تاریخی حوالوں نے مضمون کی کریڈیبلیٹی کو چار چاند لگا دیئے ہیں اور آئندہ لکھنے والوں کے لیے بھی ایک مثال قائم کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ تم کو اور محمود میاں نجمی صاحب کو اس کا صلہ ضرور دے گا۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ) میری یہ درخواست ہے کہ اس سلسلے کو آخر تک جاری و ساری رکھنا۔ یہ سرچشمۂ ہدایت کے نادر اور اَن مول سلسلوں میں سے ایک ہے، جو مُدّتوں یاد رکھا جائے گا اور میاں جی کی کتابیں کہاں سے مل سکتی ہیں، اگر بتا دیں، تو ممنون رہوں گی۔ (شاہدہ تبسم، کراچی)

ج: ہاہاہا… اگرچہ آپ نے تمام تر مندرجات پر تبصرہ نہیں کیا، لیکن آپ کا اندازِ تحریر کچھ اتنا اچھا لگا کہ بے اختیار ہی ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی مسند پر بٹھا دیا۔ آپ ہمارے آفس نمبر پر فون کریں، ہم آپ کو محمود میاں نجمی صاحب کا ذاتی نمبر دے دیں گے۔ آپ اُن سے کتابوں سے متعلق خود دریافت کرلیں۔ ہمیں تو وہی ایڈریس معلوم ہے، جو تبصرے کے ساتھ شائع ہوا۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں نے کچھ عرصہ قبل ہی سنڈے میگزین کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا ہے، مگر یقین کریں، اب ہر ہفتے بڑی بےچینی سے انتظار رہنے لگا ہے۔ خصوصاً ڈائجسٹ اور ناقابلِ فراموش کے صفحات بہت ہی شوق سے پڑھتا ہوں۔ (صائم، بہاول پور)

* سنڈے میگزین ہمیشہ سے مَن پسند جریدہ ہے۔ ایک چھوٹی سی درخواست ہے کہ ’’ناقابل اشاعت کی فہرست‘‘ ہفتہ وار بنیادوں پر شائع کرنے کا اہتمام کریں۔ اِس طرح لوگ طویل انتظار کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ دوم، برقی خطوط میں سے بھی کسی ایک کو اعزازی ای میل کا عنوان دے دیا کریں اور اگر ایک صفحہ ’’بزمِ سخن‘‘ کے عنوان سے بھی مختص ہوجائے، تو کیا بات ہو۔ بے شک مہینے میں ایک بار ہی سہی۔ اور پلیز مجھے یہ بتا دیں کہ اگر جنگ اخبار میں کچھ بھیجنا ہو، تو کس پتے پر بھیجا جائے۔ (ثناء توفیق خان، ماڈل کالونی ، کراچی)

ج: جنگ اخبار کے کسی بھی صفحے کے لیے کچھ بھی بھیجناہو پتا ’’روزنامہ جنگ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی‘‘ ہی ہے۔ بس، تحریر جس صفحے کے لیے بھی بھجیں، لفافے پر اُس کا عنوان واضح طور پر ضرور لکھیں۔

* میری پچھلی ای میل کے ساتھ آپ کو میرا نام نظر ہی نہیں آیا تھا، اس لیے آج دوبار لکھ رہی ہوں۔ ہاں، آپ کی بس ایک ماڈل 25 دسمبر والی پسند آئی تھی، اُس کو میری طرف سے ملتے ہیں، 83نمبرز۔ اور بھئی، ای میلز کو اس قدر ایڈٹ نہ کیا کریں، بعض اوقات تو متن اتنا تبدیل ہوجاتا ہے کہ جیسے سال کا پہلا مہینہ نومبر اور آخری جولائی ہو جائے۔ (آمنہ اسلم، آمنہ اسلم، لاہور)

ج: آج نام دوبار لکھا ہے، تو دو دو نام دکھائی بھی دے رہے ہیں بلکہ ہم نے تو دو بار چھاپ بھی دیا ہے۔ پچھلی بار بھی لکھا ہوتا، تو ضرور نظر آجاتا۔ اور بہت شکریہ، ہماری کم از کم ایک ماڈل کو تو اے ون گریڈ دے دیا، حالاں کہ ہماری کئی ماڈلز اے پلس کی حق دار ہیں۔ بس، دیکھنے والی نگاہ میں حُسن ہونا چاہیے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk