عید کی آمد کا خیال جہاں کئی چہروں پر خوشیاں بکھیردیتا ہے، وہیں ہمارے اردگرد بسنے والے بہت سے افراد تہواروں، بالخصوص عیدین پر خاصےاُداس اور پریشان نظر آتے ہیں کہ ان کے لیے عید کے موقعے پر بھی اپنے بچّوں کو نئے کپڑے دلوانا، عیدی دینا، یہاں تک کہ عید کے روز بھی کوئی اچھا پکوان کھانا قریباً نا ممکن ہی ہوتا ہے۔ وہ اور اُن کے بچّے تہواروں پر بھی نئے کپڑوں،جوتوں اور لذیذ کھانوں کی خوشی سے محروم ہی رہتے ہیں۔
اب تو دنیا بَھر میں (حتیٰ کہ غیر مسلم ممالک میں بھی) ماہِ مقدّس میں عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کے لیے سحر و افطار کے دسترخوانوں کے ساتھ ساتھ سَستی اشیاء کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے، ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں کہ ایک غریب آدمی بھی عید کی خوشیاں منا سکے، رمضان المبارک میں اللہ کی بے شمار نعمتوں سے لُطف اندوز ہو سکے، لیکن ہمارے یہاں معاملہ بالکل بر عکس نظر آتا ہے۔ اور پچھلے برسوں تک تو پھرکچھ اشیاء جیسے آٹا، دال، چینی، سبزیاں اور کچھ پھل وغیرہ غریب کی قوّتِ خرید میں تھیں، لیکن اس سال گویا شیطان تو قید ہوگیا،مگر منہگائی، بدعنوانی(ہر سطح پر)، لُوٹ کھسوٹ، بے ایمانی وبددیانتی کا عفریت آزاد گھوم رہا ہے۔
جہاں دیگر ممالک میں رمضان المبارک کی آمد سے قبل اشیائے خورونوش پر ڈسکاؤنٹس ، بچت پیکیجز دیئے جاتے ہیں، وہیں ہمارے یہاں عوام النّاس کو لُوٹنے، بےوقوف بنانے کی نِت نئی اسکیمز متعارف کروائی جاتی ہیں۔ سارا سال تو اپنی غلطیوں، گناہوں، بے ایمانیوں، بددیانتیوں اور مکرو فریب کا تمام تر ملبہ ’’شیطان نے بہکا دیا تھا‘‘ کہہ کر شیطان کے سر ڈالتےرہتے ہیں، لیکن پتا نہیں اب رمضان میں کی جانے والی ان بے ایمانیوں، بددیانتیوں کا کھاتا کس کے نام کُھلے گا…؟کیا یہ ڈُوب مرنے کا مقام نہیں کہ اسلام کے نام پر حاصل کردہ اس مُلک میں ماہِ مقدّس کا آغاز ہوتے ہی بنیادی اشیائے ضروریہ بھی غریب کی دسترس سے باہر ہو گئیں۔
پھر جس مُلک میں کیلے جیسا انتہائی عام سا پھل منڈی سے سستے داموں خرید کر چار ، پانچ سو روپے درجن فروخت کیا جا رہا ہو، تو پھر اُس قوم کے ایمان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ پھر ہمارے یہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بھی متعدّد مسائل کی جَڑ ہےکہ کچھ کی آمدنی لاکھوں میں ہے، تو کچھ ماہانہ بیس، پچیس ہزار روپے میں گھر چلانے پر مجبور ہیں، لیکن کیا کریں کہ پیٹ تو سب(امیر، غریب) کے ساتھ لگا ہے۔
بھوک تو سب ہی کو لگتی ہے، بچّے تو غریب کے بھی ہوتے ہیں اور بحیثیت مسلمان ، رمضان المبارک اور اس کے بعد عید کا اہتمام تو ہر کوئی ہی کرنا چاہتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی منہگائی کا جن بے قابو ہوجاتا ہے اور اس سال تو منہگائی کے وہ نئےنئے ریکارڈز قائم ہوئے ہیں، جن کی مثال پچھلے 75 برسوں میں نہیں ملتی۔ لگ بھگ ہر چیز عوام کی دسترس سے باہر ہو گئی ہے۔ عام آدمی کا تو گویا جینا ہی محال ہوگیا ہے، لوگ بس دو وقت کی روٹی کے حصول کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اپنے بچّوں کے لیے آٹے کا ایک تھیلا سستے داموں خریدنے کے لیے ذلیل و رسوا ہورہے ہیں، لمبی لمبی قطاروں میں دھکّے کھا رہے ہیں، جب کہ کچھ تو انہی قطاروں میںجان کی بازی تک ہار چُکے ہیں۔
یہاں یہ پہلو بھی توجّہ طلب ہے کہ پہلے تو صرف غریب طبقے ہی کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل تھا، مگراب تو سفید پوش گھرانے بھی بنتی ٹوٹتی حکومتوں کی غلط پالیسیزسے پیدا ہونے والی حشرسامانیوں کی زد میں، عتاب کا شکار ہیں۔کئی افراد تو اپنی سفید پوشی کا بَھرم رکھنے کے لیے کسی سے اپنی پریشانیوں کا اظہار بھی نہیں کر سکتے، اس تباہ کُن منہگائی میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ حالات نے اتنا مجبور کر دیا ہے کہ ان کے دسترخوان پر سحرو افطار میں سوکھی روٹی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کس روزے دار کی خواہش نہیں ہوتی کہ روزہ کسی اچھے کھانے سے افطار کرے، لیکن وہ مزدور کیا اپنی کوئی خواہش پوری کرے گا، جس کی سارے دن کی محنت و مشقّت سے آٹے کا ایک تھیلا بھی بمشکل ہی آتا ہے۔
جو گوشت، مرغی تو دُور کی بات، دال بھی کھانا افورڈ نہیں کر سکتا، جن گھروں میں روزہ افطار کرنے کے لیے کھجور تک نہ ہو، وہاں باقی لوازمات کا بھلا تصوّر بھی ممکن ہے۔ ہم نے رمضان المبارک میں اس ہوش رُبا منہگائی کے حوالے سے مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد سے بات چیت کی کہ’’ وہ رمضان کیسے گزاررہے ہیں ، اس سال اُنہیں کن پریشانیوں کا سامنا ہے۔‘‘ تو چار بچّوں کے باپ، نوید علی نے، جو سارا سال پکوڑے ،سموسے بیچ کر گزر بسر کرتے ہیں، بتایا کہ ’’غریب کے لیے کیا رمضان اور کیا عید، ہم تو پورا سال ہی منہگائی کی چکّی میں پِستے ہیں۔
تیج تیوہار تو امیروں، اشرافیہ کے لیے ہیں، ہمیں اور ہمارے بچّوں کو تو جس دن اچھا کھانامل جائے، وہی عید کا دن لگتا ہے۔ مگر سچ کہوں تو اس منہگائی نے توکمر توڑ کر رکھ دی ہے، بچّوں کو اسکول بھیجنا تو دُور کی بات،دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن بچّے تو پھر بچّے ہی ہیں ، طرح طرح کی فرمائشیں کرتے رہتے ہیں، کبھی بیٹی گڑیا مانگتی ہے، تو بیٹا بال اور جب کسی دن بچّے یہ سوال کر بیٹھیں کہ ’’اب ہم اسکول کیوں نہیں جاتے…؟‘‘ تو دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ یہ مُلک ہم جیسوں کے لیےنہیں، ظالم حکم رانوں اور ان کے بچّوں کے لیے ہے۔ مَیں دن رات کڑی محنت کرکے مشکل سے مہینے کے بیس، پچيس ہزار روپے کماپاتا ہوں، جس میں سے پندرہ ہزار روپے توگھر کے کرائے میں چلے جاتے ہیں اور باقی پیسوں سے راشن، بلز وغیرہ دے دیتا ہوں۔
آٹے، دودھ کی قیمتیں بھی سب کے سامنے ہیں، اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ دال کھانی بھی مشکل ہو گئی ہے اور گوشت کھانا تو شاید بقرعید ہی پر نصیب ہو۔ قسائی کی دُکان کے پاس سے گزرتے ہوئے بچّے حسرت سے میری طرف دیکھتے ہیں، مگر کیا کروں اُن کو بہلانے کے سوا، میرے پاس کوئی اور جواب بھی تو نہیں۔بس اللہ ہی کی ذات سے اُمید ہے، ورنہ یہاں تو حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں۔
پھر عید بھی آنے والی ہے اور بچّے تو رمضان کی آمد سے قبل ہی عید کے لیے، نئے کپڑوں کے لیے تیار بیٹھے تھے، سوچتا ہوں، انہیں کیسے سمجھاؤں کہ وہ اس عید بھی نئے کپڑے نہیں پہن سکیں گے، ان کے باپ کے پاس اتنا پیسا نہیں، جس سے ان کی معصوم خواہشیں پوری ہو سکیں۔ یقین کریں، مَیں دن کے 14, 14 گھنٹے کام کرتا ہوں، پھر بھی اتنا نہیں کما پاتا کہ اپنے بچّوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات ہی پوری کر سکوں اور اس کی وجہ صرف اور صرف منہگائی اور حکومت کی خراب پالیسیز ہیں۔ کبھی کبھی تو سوچتا ہوں کہ جانے ہم سے کون سی ایسی خطا ہوگئی ہے، جو ہم پر ایسے ’’بادشاہ‘‘ مسلّط کر دیئے گئے ہیں۔ اب اللہ ہی ان سے پوچھے گا، ہمارے تو بس میں کچھ بھی نہیں۔‘‘
حضرت جان ایک ہوٹل میں ویٹر ہیں، جن کی ماہانہ آمدنی بمشکل 15ہزار روپے ہے اور ان کے پانچ بچّے ہیں۔ انہوں نے بات کا آغاز ایک تلخ مسکراہٹ سے کیا ’’بھائی! ہمارے لیے سال کے بارہ مہینے رمضان ہی ہوتا ہے کہ صبح کا ناشتا کبھی بمشکل ہی کرتا ہوں۔ پھر سارا دن ڈیوٹی پر گزر جاتا ہے اور رات کو کہیں جا کر کھانا نصیب ہوتا ہے۔ دن میں کھانا اس لیے نہیں کھاتا کہ کچھ پیسے بچیں گے، تو ہی مکان کا کرایہ ادا کرسکوں گا۔ جہاں تک بات ہے رمضان المبارک کی، تو بھیّا، اس ماہ تو ہر چیز کی قیمت دُگنی چوگنی ہوجاتی ہے۔
اب تو بس اللہ کی مدد ہی کا سہارا ہے، ورنہ جو حالات ہیں، تو یہی لگتا ہے کہ آنے والے دِنوں میں ہم بھوک ہی سے مرجائیں گے۔ مجھے تو فکر ہے کہ ابھی تو بچّوں کو یہ کہہ خاموش کروا دیتا ہوں کہ ’’روزہ ہے، روزہ رکھنے کا ثواب ملتا ہے، صبر کرنا چاہیے۔‘‘ مگر جب عید آئے گی، تو انہیں کیا جواب دوں گا، نئے کپڑے، جوتے کیسے دلواؤں گا۔
ویسے تو ہم ہر سال عید کے موقعے پر گاؤں چلے جاتے تھے، لیکن اس بار کرایہ اس قدر زیادہ ہو گیاہے کہ اب گاؤں جانے کا بھی نہیں سوچ سکتا۔ کس سے اُمید لگائیں، کون غریبوں کا مسیحا ہے، ایک حکومت آتی ہے، چلی جاتی ہے۔ پھر دوسری آتی ہے، وہ پرانی والی سے دو ہاتھ آگے نکلتی ہے۔ ہر آنے والی حکومت منہگائی کاایک ایسا طوفان بپا کردیتی ہے کہ عوام کی چیخیں نکل جائیں، جب کہ امیر طبقہ ہر حکومت ہی میں خُوب مزے کرتا ہے۔ اُن کی عیاشیوں پر کوئی روک ٹوک نہیں۔‘‘
وزیر خان رکشا ڈرائیور ہیں، انہوں نے انتہائی افسردہ لہجے میں بات کا آغاز کچھ یوں کیا کہ ’’جس دن دیہاڑی لگ جائے تو عید، نہ لگے تو روزہ۔حالیہ منہگائی نے تو اس قدر پریشان کردیا ہے کہ اپنے بوڑھے والدین کو دو وقت کا کھانا بھی بمشکل کِھلا پاتا ہوں۔ کبھی سات، آٹھ سو روپے کی دیہاڑی لگ جائے، تو کھانے پینےکا انتظام ہوجاتا ہے، ورنہ بڑی مشکل سے گھر والوں کے لیے دال، روٹی کا بندوبست ہوپاتا ہے۔
ہمارے ہاں افطار پر کوئی اہتمام نہیں ہوتا، سحری میں روکھی سوکھی کھا کر روزہ رکھتے اور دال روٹی سے روزہ کھولتے ہیں کہ اگر پھل، سموسے وغیرہ لیں گے تو گھر کا کرایہ کہاں سے ادا کریں گے۔ مَیں تو چلیں سڑک پر لگے کسی دسترخوان پر بیٹھ کر بھی کھا سکتا ہوں، لیکن میرے بوڑھے ماں، باپ کہاں جاکر کھائیں گے۔ سچ کہوں تو اب ان حالات سے تھک گیا ہوں، والدین کی دوا کے لیے پیسے نہیں ہوتے، کبھی گھر میں راشن نہیں ہوتا، جانے زندگی کی گاڑی آگے کیسے بڑھے گی۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ اپنے والدین کی خدمت کروں، انہیں صحت بخش غذا کھلاؤں، دنیا کی نعمتیں ان کے قدموں میں ڈال دوں، لیکن جیب ہے کہ اجازت ہی نہیں دیتی۔
امّاں، ابّا بیمار ہو جاتے ہیں، تو محلّے سے قرض لے کر علاج کروانا پڑتا ہے۔پہلے تو مہینے میں کم از کم ایک دفعہ گھر میں گوشت کا کوئی سالن پک جاتا تھا، مگر اب تو آٹا، دال خریدنا بھی محال ہو گیا ہے۔ مَیں تو غربت کی وجہ سے شادی بھی نہیں کر رہا کہ کسی کی بہن، بیٹی کو گھر پر لا کر کیوں بھوکا ماروں۔ مُلک کے جو حالات ہیں، آنے والے دنوں میں یہاں صرف امیر ہی زندہ رہ جائیں گے۔ اور مَیں سیاست دانوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ، ہمیں نہیں پتا کہ کون سی سلیکٹڈ حکومت ہے اور کون سی الیکٹڈ۔ کون جھوٹا ہے اور کون سچّا، ہمیں تو بس یہ پتا ہے کہ غریب بھوکوں مر رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہاں سب کرسی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور اس دوڑ میں صرف اور صرف غریب پِس رہا ہے۔ مشکل یہ ہےکہ ایسا کوئی ہے بھی نہیں کہ جس سے فریاد کرسکیں۔‘‘
فیض محمّد مزدوری کرتے ہیں۔ سر پر چھے بچّوں کی کفالت کی ذمّے داری بھی ہے۔ وہ سرد لہجے کے ساتھ آنکھوں میں آنسو لیے کچھ یوں گویا ہوئے ’’جس دن دیہاڑی لگ جائے، تو گھر میں کھانا بھی پک جاتا ہے، ورنہ فاقہ کرنا پڑتا ہے۔ منہگائی نے اس قدر پریشان کر دیا ہے کہ بچّوں کو تعلیم دلوانے کی سکت بھی باقی نہیں رہی۔ ہمارے لیے رمضان، عید، شعبان ہر مہینہ برابر ہے۔ جسے دو وقت کی روٹی میسّر نہیں، وہ کیا رمضان اور کیاعید منائے گا۔ ہمیں تو بس یہی فکر رہتی ہے کہ بچّے بھوکے نہ سوئیں، گھر کا کرایہ وقت پر دے دوں، اوپر سے گیس، بجلی کے بلوں نے الگ کمر توڑ دی ہے۔
ہر حکومت جھوٹی تسلّیاں دے کر، نام نہاد وعدے کرکے چلی جاتی ہے اور پیچھے رہ جاتے ہیں ہم غریب۔ منہگائی اس قدر زیادہ ہے کہ ایک وقت میں آٹے کے سوا اور کچھ خریدنے کی سکت نہیں رہی۔ ذرا سوچیں کہ ایک باپ کے دل پر اس وقت کیا گزرتی ہوگی، جب اس کی اولاد افطاری میں شربت کی فرمائش کرے اور بد قسمت باپ وہ تک پوری نہ کر سکے۔
پہلے تو کبھی کبھار پھل لے آتا تھا، مگر اب اتنی گنجایش نہیں کہ افطار کے لیے پھل، پکوڑے، سموسے وغیرہ خریدوں اور سوچنے کی بات ہے جب اشیائے ضروریہ ہی ہماری پہنچ سے دُور ہوچُکی ہیں، تو باقی کیا بات کریں۔ حکومت اگر کوئی ریلیف پیکیج فراہم کر بھی دے، تو مافیا دونوں ہاتھوں سے لُوٹنا شروع کر دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے، جیسے یہ سال بَھرکی کمائی اسی ایک ماہ میں کرنا چاہتے ہیں۔ اب تو بس یہ دُعا ہے کہ ان غاصبوں پر اللہ کا غضب نازل ہو۔‘‘