• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: منفرد تحریر، ستائش کے حق دار ....

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

شالِ غم اوڑھ رکھی ہے

بہت سے سلام، بہت ساری دُعائیں، حُسن اتفاق کہ یکم جنوری اتوار کو تھا، لہٰذا مَن کا موتی ہمیں سالِ نو کے پہلے ہی دن مل گیا اور… اور جنابِ من! اس بار بھی آپ نے کمال کر دکھایا۔ اپنی خُوب صُورت، جامع تحریر میں365دِنوں کے ہر اہم موقعے کا منظرنامہ اِس خُوبی سے پیش کیا کہ کوئی بھی پہلو (خواہ وہ دنیا بھر سے متعلق ہو یا اپنےمُلک سے متعلق) تشنہ نہیں رہ گیا۔ ؎ سینوں میں کتنے دکھ ہیں، سینوں سے پوچھ لو۔ آہ سچ، سو فی صدی سچ۔ واقعی، پوری دنیا نے گویا شالِ غم اوڑھ رکھی ہے۔ 

’’اُمّتِ مسلمہ‘‘ تو جہاں تک یاد پڑتا ہے، ہمیشہ ہی سے نامساعدحالات کا شکار ہے۔ ’’پاک افواج‘‘ ہی کے دَم قدم سے ہم سُکھ چین کی نیند سوتے ہیں۔ ویسے یہ تو باغ باں ہی پر منحصر ہے کہ چمن کو مہکا دے یا دہکا دے اور فی زمانہ، منصف ہے کوئی کیا؟ اگر ہوتا تو کٹہرے خالی اور آنکھیں آنسوئوں سےلب ریز نہ ہوتیں۔ منور راجپوت نے سال کے ہر ہر لمحے، ہر واقعے کو ایک درد بَھرے البم کی صُورت پیش کیا۔ بخدا، دیکھ کے آنکھیں بھر آئیں۔ ؎ زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا۔…بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ سیاسی منظرنامے میں سیاسی دنگل واقعی قابلِ دید تھا۔ سچ ہے نہ کوئی راہ ہے، نہ رہنما۔ وہ کیا ہے کہ ؎ ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، انجامِ گلستان کیا ہوگا۔ 

آپ ہی نے تو ایک بار لکھا تھا کہ ’’یہ حکومت حماقتوں، واہیاتیوں کا ایک شان دار گل دستہ ہے‘‘ تو اب ایسے گل دستے میں خوشبوئے عقل کہاں سے آئے۔ بس وہی بات ہے ؎ ہوتا ہے شب و روز تماشا مِرے آگے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے سندھ کو مزید تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور اک عالمِ بےحسی ہے کہ نہ کوئی سُنوائی ہے، نہ کوئی امداد۔ بلوچستان، خیبر پختون خوا، کشمیر کسی سمت سے بھی صدائےخیر سُنائی نہیں دے رہی۔ 

ذکر آتا ہے تعلیم و تدریس کا، تو وہ تو پہلے ہی ابتر حال میں ہے۔ بچّوں پر کتابوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے، باقی کچھ نہیں۔ اردو لیکچرارز کی سیٹوں پر بھی نااہلوں کا قبضہ ہے۔ مطلب ؎ اُردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے۔ چلو چھڈو جی، فالتو گلّاں نوں، بس اِک تواڈا میگزین تے تواڈا صفحہ ہی لاجواب ہے۔ نوٹ: مَیں نے دو یا تین تحریریں ’’پیارا گھر‘‘ صفحے کے لیے گزشتہ برس مارچ میں بھیجی تھیں، ایک بہت اچھی کہانی بھی ناقابلِ فراموش کے لیےتھی۔ ناقابلِ فراموش کی ناقابلِ اشاعت فہرست میں تو نام شامل ہوگیا تھا، لیکن پیارا گھر کی تحریروں کا کچھ اتاپتا نہیں ہے۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ)

ج: جو مُلک کا حال ہے، وہی لگ بھگ مُلک کے سب اداروں کابھی ہے۔ دو دو، تین ماہ تک تن خواہیں نہ ملیں، تو کون دل لگا کر کام کرے۔ پھر جن کو دن رات ایک کرکے کام سکھائو، وہ یہاں سے سیکھ کے اچھی تن خواہوں کے چکر میں کہیں اور کُوچ کرجاتے ہیں اور اِس اُکھاڑ پچھاڑ میں سب کچھتلپٹ ہو کےرہ جاتا ہے۔ مختصر عرصے میں ’’پیارا گھر‘‘ صفحے کے پتا نہیں کتنے انچارجز تبدیل ہوچکے ہیں، تو بہت ممکن ہے، اِسی اُٹھاپٹخ میں آپ کی تحریریں کہیں مِس ہوگئی ہوں۔

سفر بھی، پوری تاریخ بھی…

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کیا کمال تحریر عنایت فرما رہے ہیں۔ اگر کسی کو مدینہ منوّرہ کی تاریخ پڑھنی ہے، چبّے چپّے سے واقفیت حاصل کرنی ہے، تو بس پابندی سے ہر ہفتے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا مطالعہ کرلے۔ اِس مرتبہ ایک خوب صورت ’’گفتگو‘‘ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال کی بھی پڑھنے کو ملی۔ بھئی، کیا کمال گفتگو کی، دل راضی ہوگیا۔ ویسے میرے خیال میں جاوید اقبال نام بہت ہی بھاگوان ہے، اِس نام کے لوگوں نے بڑی ترقی کی ہے۔ سرورق کی ماڈل اچھی لگی اور آپ کی مسلسل حاضری تو بہت ہی اچھی لگ رہی ہے۔ اور ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا تو بس کمال ہی کررہے ہیں۔ 

سفر کے ساتھ ساتھ پوری تاریخ بھی بیان کرتے جارہے ہیں، پڑھ کر دل بہت خُوش ہو رہا ہے۔ بخدا رانجھا صاحب کی ہم نشینی بڑا لُطف دے رہی ہے۔ آج کل نئی کتابوں میں زیازدہ تر شعر شاعری ہی کی کتابیں آرہی ہیں۔ ناول، سفر نامے یا تاریخ پر بہت کم کتب نظر پڑتی ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ایک خُوب صُورت افسانہ ’’ایک تولے کی خُوشی‘‘ پڑھنے کو ملا۔ ذکی طارق بارہ بنکوی، بھارت سے بڑی اچھی غزلوں کے ساتھ آتے ہیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اِس بار زلیخا جاوید اصغر کا پورا کالم کا خط شائع ہوا۔ اگلے شمارے میں منور مرزا ’’حالات و واقعات‘‘ کے ساتھ موجود دکھائی دیئے اور دہشت گردی کے موضوع پر بہت ہی اچھے انداز میں لکھا۔ آپ کے میگزین میں ’’انٹرویو‘‘ کا صفحہ ہمارا پسندیدہ صفحہ ٹھہرتا ہے۔ 

اس مرتبہ جبّار بلوچ ایڈمنسٹریٹر، کوئٹہ کا انٹرویو پڑھا، اچھی بات چیت تھی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا تختِ طائوس سے دارا شکوہ کے انجام، نادر شاہ، احمد شاہ درّانی، مرزا غالب، بہادر شاہ ظفر اور اسلام شاہ سوری کے قلعے تک بہت کچھ بتا گئے۔ قصّہ مختصر، بھئی، ہمیں تو ’’دہلی نامہ‘‘ بہت ہی پسند آرہا ہے۔ ’ڈائجسٹ‘‘ میں کنول بہزاد کی ’’روٹی‘‘ پڑھ کر شیخ مختار کی فلم روٹی یاد آگئی اورہاں، اس مرتبہ ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں صرف دو ای میلز شائع ہوئیں۔ خیر تو ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ڈاکٹر احمد حسن رانجھا یقیناً آپ کی حوصلہ افزائی سے دلی مسرت محسوس کررہے ہوں گے کہ ایک قلم کار کے لیے قاری کی تعریف و توصیف سے بڑا انعام اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اور اب اگر ہمارے نیٹ ایڈیشنز کے قارئین نے بھی آپ لوگوں کی دیکھا دیکھی ای میلز بھی اس قدر طویل کرنی شروع کردی ہیں، تو کیا کریں، شایع تو کرنی پڑیں گی۔

ادب دوست ہونے کا اعتراف

ہوا میں اُڑتا جائے میرا لال دوپٹا ململ کا، ہو جی ہو جی… یہ ایک پُرانی بھارتی فلم کا گیت ہے، جسے لتا جی نے گایا تھا اور یہ اِمسال فیشن انڈسٹری کے لیے منتخب ہونے والے مرکزی رنگ کو اجاگر کر رہا ہے۔ یہ رنگ واقعتاً اپنی گوناگوں خوبیوں کے ساتھ نسوانی رنگ میں شمار ہونے کی بہترین صلاحیت رکھتا ہے۔ سالِ گزشتہ کے حالات و واقعات پرمبنی شمارے میں پاکستانی خواتین کی عزم و ہمت سے متعلق رئوف ظفر نے بہترین تحریر لکھی، جب کہ عروج و زوال کے حوالے سے ڈاکٹر ناظر محمود کی تحریر کا بھی جواب نہ تھا۔ شفق رفیع کا یہ بتانا کہ سالِ رفتہ7 لاکھ سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مُلک چھوڑ گئے، ایک کروڑ ساتھ لاکھ بچّے سیلاب سے متاثر ہوئے، گویا ایک معاشرتی المیے کی طرف اشارہ تھا۔ 

ہاں، ایک بہت بڑے بجٹ کی فلم میں کون سے پنجاب کا کلچر دکھایا گیا، ہمیں تو سمجھ نہیں آیا، مگر حمّاد احمد فلم کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے نظر آئے۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا ’’دہلی نامہ‘‘ پڑھ کر تو ہم رانجھا صاحب کے ادب دوست ہونے کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اِس سے قبل تو اندازہ ہی نہیں تھا، ہمیں تو اب پتا چلا کہ وہ ایک طبیب ہونے کے ساتھ ادب سے بھی گہرا لگائو رکھتے ہیں اور پھر دہلی شہر کے سفر نامے کےساتھ ماضی و حال کا بیان بھی اُن کی علمیت کو خُوب ظاہر کرتا ہے۔ بخدا ہمیں تو یہ سلسلہ بہت ہی پسند آ رہا ہے۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو مَیں بھی جنگِ آزادی کے ہیروز سے متعلق کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ اور ہاں، پلاسٹک سرجری سے متعلق ڈاکٹر اسد اللہ اعوان کا مضمون بھی بڑی اہمیت کی حامل تھا۔ اِس موضوع پر اتنی عُمدہ تحریر کم ہی نظر سے گزری ہے۔ (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، لاہور)

ج: ضرور لکھیں۔ سنڈے میگزین کے مسلسل مطالعے سے آپ کو ہمارے تحریری معیار کا اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا، تو بس، براہ مہربانی معیار ہی کو فالو کیجیے گا تاکہ جیسے آج آپ ڈاکٹر رانجھا کے ادب دوست ہونے کا اعتراف کر رہے ہیں، کل کو آپ سے متعلق بھی قارئین کی کچھ ایسی ہی رائے ہو۔

زینت نہیں بن سکی

مَیں نے اس سے قبل ایک تحریر ، ’’یہ ہے لالو کھیت پیارے‘‘ کے عنوان سے ارسال کی تھی، لیکن کٹ پیس کی زینت نہیں بن سکی۔ شاید تحریر آپ کو پسند نہیں آئی۔ آج ایک اور تحریرارسال کررہا ہوں، اُمید ہے کہ لائقِ اشاعت قرار پاتے ہوئے جلد شائع ہو جائے گی۔ (نیر رضوی، لیاقت آباد، کراچی)

ج:ہر قابلِ اشاعت تحریر باری آنے پربغیر کہے شائع کر دی جاتی ہے،لیکن ہم کسی بھی تحریر کی اشاعت کا حتمی ٹائم فریم اِس لیے نہیں دے سکتے کہ ہمیں اپنے صفحات مارکیٹنگ سے موصول ہونے والے اشتہارات کی مناسبت ہی سے تیار کرنے ہوتے ہیں۔

منفرد تحریر، ستائش کے حق دار

شمارہ ہمارے سامنے ہے، ’’سرچشمہ ٔ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی معلومات میں قسط وار اضافہ کر رہے ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے ایک بار پھر سیاست دانوں اور حُکم رانوں کو خوب لتاڑا۔ اللہ کرے، مرزا صاحب کی کوششیں بار آور ثابت ہوں۔ یہ حُکم ران اور سیاست دان کسی حد تک ہی سہی، راہِ راست پر آجائیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فنٹس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری ناریل کے فوائد بتا رہے تھے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رئوف ظفر بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی پر بہترین مضمون لے کر آئے۔ الفت علی خان قادری نےاپنے مرحوم ساتھی مشاق علی خان آفریدی کا خواب پورا کرنے کا کیا خوب بیڑہ اُٹھایا ہے۔ 

’’گفتگو‘‘ میں محمّد ہمایوں ظفر اور سلیم اللہ صدیقی نے سندھ کے گورنر، کامران خان ٹیسوری سے اچھی بات چیت کی ۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ’’دہلی نامہ‘‘ کی یہ قسط کچھ زیادہ مزے دار نہیں تھی۔ ’’متفرق‘‘ میں سید ثقلین علی نے علّامہ رشید ترابی کا ذکر کر کے بہت پرانی یادداشت تازہ کر دی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حکیم سوہدروی نے مچھلی کو دل اور دماغ کی غذا قرار دیا اور اس کے بہترین فوائد بھی بیان کیے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ’’ناگ انتقام لیتا ہے؟‘‘ کی سُرخی کے آگے سوالیہ نشان تھا۔ ہم نے تو بچپن سے سُن رکھا ہے کہ اگر ناگ کو مارا جائے تو وہ کبھی نہ کبھی انتقام ضرور لیتا ہے۔ اگلے جریدے کے ’’اشاعتِ خصوصی ‘‘ میں قائدِ اعظم سے متعلق بہت سے حیران کُن واقعات پڑھنے کو ملے۔ رائو محمّد شاہد اقبال نے خاصی منفرد تحریر پیش کی۔ 

جس پر وہ ستائش کے حق دار ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں جبار مرزا کی تحریر بھی اہم تھی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر فرخ رضا نے ویکسی نیشن سے متعلق عوام کے خدشات اور تجربات پر مبنی رپورٹ پیش کی۔ ’’انٹرویو‘‘ میں رئوف ظفر وفاقی ٹیکس محتسب، ڈاکٹر محمود جاہ سے مفید معلوماتی بات چیت کررہے تھے۔ منور مرزا نے فرمایا کہ ’’ہمیں بھی مشرقی وسطیٰ کے نئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کےلیےآگے بڑھنا ہوگا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ کی یہ قسط دل چسپ تھی۔

’’متفرق‘‘ میں پیدل حج کرنے والے عثمان ارشد کی ہمّت کو داد دینی چاہیے۔ نظر امروہوی کے اشعار بہت پسند آئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ تو حقیقت سے دُور ہی لگا۔ ہاں، اختر سعیدی نے روحِ قائد سے لاجواب خطاب کیا۔ اور اب آتے ہیں آپ کے صفحے کی طرف، اس میں نواب زادہ خادم ملک عرف بےکار ملک کا خط بھی شامل تھا اور یقین جانیے، اِسی خط نے صفحے کو چار چاند لگا رکھے تھے۔ تب ہی پورا صفحہ بہت ہی روشن روشن معلوم ہو رہا تھا۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3 ، کراچی)

ج: خط میں آپ نے کچھ باتیں خاصی دانش مندی کی کیں، تو لگا، سنڈے میگزین کے مطالعے سے کافی افاقہ ہوا ہے، مگر پھر سانپ کے انتقام اور خادم ملک کے خط سے چار چاند لگنے کی بات کر کے تو آپ نے ہماری ساری خوش فہمی ملیا میٹ ہی کر دی۔

                               فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

خداوند تعالیٰ کی ذات سے اُمید کرتی ہوں کہ آپ اور آپ کی ٹیم بخیرو عافیت ہوگی۔ اپ لوگ جس محنت اور جاں فشانی سےہرہفتے ایک انتہائی خُوب صُورت جریدہ تیار کر کے ہم تک پہنچا رہےہیں، اُس پرآپ سب بلاشبہ ڈھیروں ڈھیرستائش اور دُعائوں کے حق دار ہیں۔ سب سے پہلے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کی بات کروں گی۔ محمود میاں نجمی کے قلم سے مدینہ منوّرہ کے ماضی و حال کا احوال، معلومات میں بے حد اضافے کا باعث بن رہاہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منوّر راجپوت سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی صورتِ حال سےمفصلاً آگاہ کرتے دکھائی دیئے۔ معروف سرجن، استاد، موٹیویشنل اسپیکر، پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال کی فکر انگیز گفتگو بہت لُطف دے گئی۔

خاصا جان دار اور شان دار انٹرویو تھا۔ رائو محمّد شاہد اقبال ہمیشہ کی طرح ایک نیا موضوع، نئی سوچ لے کر آئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ پر منور مرزا چھائے رہے۔ ’’پاکستان کی معاشی بدحالی‘‘ سے متعلق سیرحاصل رپورٹ اور تجزیہ پیش کیا۔ واقعی ہمیں ساری دنیا کا غم پالنے کے بجائے اپنی فکر کرنی چاہیے۔ قائد اعظم جیسا قومی رہنما تو اِس قوم کی شاید ہی کبھی دوبارہ نصیب ہو، لیکن عوام کو خُود بھی اپنےحالات کے سدھار کےلیےکچھ سوچنا چاہیے۔ کب تک اِن بےحس حُکم رانوں کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ مَیں تو منور مرزا کے تجزئیات سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔

اے کاش! کبھی صاحبانِ اقتدار بھی اِن مضامین ہی سے کچھ روشنی حاصل کرنے کی سعی کریں۔ ماشاء اللہ، ’’سنیٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کی تحریریں پڑھنے کو مِل رہی ہیں۔ یقین کریں، ان صفحات میں وہی جان پڑگئی ہے، جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ ہر تحریر، خواہ مختصر ہی سی کیوں نہ ہو، بہت جامع، اور دل پر اثر کرنے والی ہوتی ہے۔ اللہ زورِ قلم میں مزید اضافہ فرمائے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں عرفان صدیقی کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کا احوال خُوب صُورت تھا، خصوصاً ڈاکٹر فہمیدہ تبسّم نے اپنے قلم کے ساتھ خُوب انصاف کیا۔

’’ڈائجسٹ‘‘ میں مدثر اعجاز کی ’’ایک تولے کی خوشی‘‘توبہت ہی پسند آئی۔ اور’’ناقابل فراموش‘‘ میں ڈاکٹر لیاقت علی، لاہور سے اور ظہیر انجم تبسّم، خوشاب سے بہترین سبق آموز واقعات کے ساتھ موجود تھے۔ اور اب آتے ہیں، اپنے صفحے کی طرف، جو ہم سب کی جان، شان، آن اور مان ہے۔ سات ستاروں کے جُھرمٹ میں عشرت جہاں، لاہور سے ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کی کرسیٔٔ صدارت پر براجمان نظر آئیں، تو دیکھ کر بہت خُوشی ہوئی۔ اور ہاں، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا اپنے والد سے متعلق مضمون لاجواب تھا۔ ایک بےمثال باپ کی شان دار بیٹی نے بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا۔ جب کہ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا ’’دہلی نامہ‘‘ بہت ہی پسند آرہا ہے۔ اس سفرنامے سے میگزین میں کسی تاریخی مضمون کی کمی بھی بحسن و خوبی پوری ہو رہی ہے، خاص طور پر امیر خسرو کے مزار سے متعلق جان کر تو بہت ہی اچھا لگا۔ (خالدہ سمیع، گلستانِ جوہر، کراچی)

ج: جب آپ عشرت جہاں کے کرسیٔ صدارت سنبھالنے پر اس قدر خُوش ہوسکتی ہیں، تو پھر آج تو آپ کی خوشی دیدنی ہوگی۔

گوشہ برقی خطوط

* آپ کا جریدہ آج سے نہیں، ایک طویل عرصے سے میرا مَن پسند جریدہ ہے۔ ایک درخواست ہے، کوئی تاریخی سلسلہ بھی شروع کریں۔ مجھے اپنی تاریخ پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ (محمّد رضا)

ج: ہم وقتاً فوقتاً کئی تاریخی مضامین شائع کرتے رہتے ہیں۔ اِن دنوں تو ’’جہانِ دیگر‘‘ سلسلے کے تحت بھی جو ’’دہلی نامہ‘‘ شائع ہو رہا ہے، اُس میں سفر کے ساتھ ساتھ تاریخِ ہندوستان بھی بہت عُمدگی و خُوب صُورتی سے بیان کی جا رہی ہے۔

* مَیں سنڈے میگزین میں اپنی تحریروں کی اشاعت کا خواہش مند ہوں۔ کچھ مضامین، کچھ شاعری وغیرہ شائع کروانا چاہتا ہوں۔ براہِ مہربانی آپ مجھے طریقۂ کار سے آگاہ کریں گی۔ (عمّار)

ج: طریقۂ کار بہت عام سا ہے۔ اگر تحریر ہاتھ سے لکھ کر بھیج رہے ہیں، تو حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھیں۔ صفحے کی پشت سادہ چھوڑ دیں۔ تحریر طبع زاد، جامع، کسی ایک موضوع کا مکمل احاطہ کرتی ہونی چاہیے۔ جس صفحے، سلسلے کے لیے بھیجیں، لفافے پر اُس کا عنوان واضح طور پر لکھیں۔ ای میل کر رہے ہیں تو اردو اِن پیج میں کمپوزڈ فائل بھیجیں۔ ہمارا پتا اور ای میل آئی ڈی اِسی صفحے پر درج ہے۔

* مَیں ایک طویل عرصے سے آپ کے جریدے سے بطور خاموش قاری منسلک ہوں۔ مجھے یاد نہیں، پچھلے طویل عرصے سے مَیں نے کبھی جنگ، سنڈے میگزین کی کوئی اشاعت مِس کی ہو۔ بلکہ ہر ہفتے بڑی بےچینی سے جریدے کا منتظر رہتا ہوں۔ ای میل آج پہلی بار کر رہا ہوں۔ وہ بھی صرف یہ بتانے کے لیے کہ مَیں آپ کی ٹیم کا دل سے قدردان ہوں۔ کوئی اور آپ کی محنتوں کی قدر کرتا ہے یا نہیں، مَیں ضرور کرتا ہوں، کیوں کہ میرے نزدیک چند سطریں بھی عُمدگی سے لکھنا آسان بات نہیں، جب کہ آپ لوگ تو ہر ہفتے ایک پورا جریدہ تیار کرتے ہیں۔ رئیلی یو پیپل آر گریٹ۔ (حمزہ علی، گوجرانوالہ کینٹ)

ج: بے حد شکریہ حمزہ۔ بلاشبہ اب آپ جیسے قدر دانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk