سعودی دور میں مسجدِ نبویؐ کا ڈیزائن اور تعمیراتی انتظامات:مسجد نبویؐ کی جدید اور عالی شان تعمیر و توسیع کا ڈیزائن مصر کے ماہر تعمیرات، ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل نے تیار کیا۔ مسجد کی تعمیر میں استعمال ہونے والے خوش نُما پتھروں کو تراشنے کے لیے مسجد سے بیس کلومیٹر دُور دُنیا کی سب سے بڑی اور جدید فیکٹری قائم کی گئی۔ فیکٹری میں نماز کے وقفوں کے علاوہ دِن رات کام جاری رہتا۔ متحرک گنبد کا اچھوتا تصوّر ڈاکٹر کمال اسماعیل نے پیش کیا، جس کے ڈیزائن کی تیاری کا کام ایک جرمن مسلمان ڈاکٹر محمود مراشکو نے انجام دیا۔
ایک گنبد کا وزن80ٹن ہے، جب کہ کُل27متحرک گنبد نصب کیے گئے، جنہیں بجلی کے ایک سوئچ سے کھولا اور بند کیا جاسکتا ہے۔ مسجد کی زیبائش و آرائش کے لیے دُنیا کے خُوب صورت ترین اور مختلف رنگوں کے سنگِ مرمر استعمال کیے گئے۔ مینار اٹلی کے کرارا سنگِ مرمر سے تعمیر کیے گئے۔ چھت پر یونان کا سنگِ مرمر استعمال کیا گیا، جو سُورج کی حرارت کو جذب کرتا اور ہمیشہ ٹھنڈا رہتا ہے۔ مسجد کے صحن میں برقی چھتریاں نصب کی گئیں، جو برقی سوئچ سے کھولی اور بند کی جاتی ہیں۔
مسجد کے دیدہ زیب اور خُوب صورت سنہری دروازے بنانے کے لیے جدّہ میں ایک فیکٹری قائم کی گئی۔ فرانس کی ایک کمپنی نے دروازوں میں نقش و نگار کی خدمات انجام دیں۔ دروازوں کی تیاری کے بعد ان پر 23قیراط سونے کا پانی چڑھایا گیا۔ دروازوں کے دونوں کواڑوں کے درمیان کلمۂ طیبہ منقّش ہے۔ مسجد کا کام محرم1406 ہجری بمطابق1985ء میں شروع ہوا، جب کہ اس کی تکمیل1414 ہجری1994 ء میں ہوئی۔ (تاریخِ مدینہ منوّرہ، از مولانا محمد عبدالمعبود351-361)۔
شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا مسجد نبویؐ کا توسیعی پلان
24 ستمبر2012ء کو شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز مرحوم نے مسجدِنبویؐ کی تعمیر و توسیع کے ایک بڑے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا، جس پر2014ء میں کام شروع ہوا۔ یہ منصوبہ تین مراحل پر مشتمل ہے، جس کی تکمیل پر مسجد کا کُل رقبہ گیارہ لاکھ مربع میٹر پر محیط ہوگا۔ جہاں16لاکھ نمازی بیک وقت نماز ادا کرسکیں گے۔ پہلے مرحلے پر مسجد کے مشرقی جانب ایک لاکھ مربع میٹر کا اضافہ کیا جارہا ہے۔82ہزار مربع میٹر پرایک عظیم الشّان دو منزلہ عمارت تعمیر کی جارہی ہے، جس کا60فی صد کام مکمل ہوچکا ہے۔
دُوسرے اور تیسرے مرحلے میں شمال مغربی جانب کام شروع کیا جائے گا۔ اس توسیع کے دوران مزید 27نئے گنبد اور 6مینار تعمیر کیے جائیں گے۔ تمام توسیع شدہ حصّوں کی چھت کو مسجد کی پُرانی عمارت سے ملا دیا جائے گا۔ یوں نمازیوں کے لیے چھت پربھی ایک وسیع جگہ میسّر آجائے گی۔ شاہ سلمان نے اپنے حالیہ دورے میں مسجدِنبویؐکے توسیعی پروگرام پرکام تیزکرنے کے احکامات جاری کیے۔ (العربیہ ڈاٹ نیٹ)۔
روضۂ رسولؐ (حجرہ شریف):یہ وہ مبارک کمراہے، جہاں اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ رہائش پذیر تھیں۔ یہ مسجد نبویؐ کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اس کی تعمیر بھی مسجدِ نبویؐ کے ساتھ عمل میں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حجرے میں وفات پائی اور اسی حجرے کے جنوبی جانب تدفین عمل میں آئی۔ اَمّاں عائشہؓ حجرے کے شمالی حصّے میں مقیم رہیں۔ آپؓ کے والدِ ماجد، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے وفات پائی تو ان کی تدفین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ اَطہر سے تقریباً ایک فٹ نیچے عمل میں آئی، یعنی اُن کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاندھوں کے برابر رکھا گیا۔ اُن کے بعد حضرت عُمرؓ نے وفات پائی تو اُن کا سر بھی حضرت ابوبکرؓ سے ایک فٹ نیچے یعنی اُن کے کاندھے کے برابر رکھا گیا۔
سیّدنا عُمر فاروقؓ کی تدفین سے پہلے تک اَمّاں عائشہؓ نے اپنے اور قبروں کے درمیان کوئی رُکاوٹ قائم نہیں فرمائی تھی۔ آپؓ فرماتی تھیں کہ ’’اُن میں سے ایک میرے شوہر ہیں اور دُوسرے میرے والد۔‘‘ لیکن جب انہوں نے سیّدنا عُمر فاروقؓ کو اپنے حجرے میں تدفین کی اجازت دی، تو تدفین کے بعد آپؓ نے اپنے اور قبروں کے درمیان پردہ کردیا۔ اَمّاں عائشہؓ نے اپنی زندگی کا بیش تر حصّہ اسی حجرے میں گزارا۔17رمضان المبارک 58ہجری میں وفات پائی۔ جنّت البقیع میں تدفین ہوئی۔ (اُمہات المومنینؓ،71)۔
حجرہ شریف کی پنج گوشہ دیوار: 93ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حجرہ شریف کی تعمیرِ ِنو کی اور قبورِ مبارکہ کے گرد ایک پنج گوشہ قدآور دیوار قائم کروادی، جس میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ حجرئہ شریف میں حضرت عمر فاروقؓ کے برابرمیں ایک قبر کی جگہ خالی ہے، جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تدفین ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین پر اُتریں گے۔ وہ45سال تک زندہ رہیں گے۔ قیامت کے دن مَیںؐ، عیسیٰؑ اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اکٹھے اُٹھیں گے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف، 480)۔
مقصورہ شریف: حجرۂ مبارک کی پنج گوشہ دیوار کے اطراف تین میٹرکے فاصلے سے لوہے اور پیتل کی جالیوں سے حدبندی کی گئی ہے۔ اسے مقصورہ شریف کہتے ہیں۔ مقصورہ شریف کی حدبندی سب سے پہلے سلطان رکن الدین بیبرس نے 669ہجری بمطابق 1270عیسوی میں کی تھی۔ 886ہجری بمطابق1481عیسوی کو مسجد ِنبویؐ میں آتش زدگی کے بعد سلطان قاتیبائی نے لوہے اور پیتل کی جالیاں بنوا کر بھجوائیں، جن کا وزن17870کلوگرام تھا۔ جنوب میں قبلے کی جانب پیتل کی یہ خُوب صورت جالیاں لگائی گئیں، جن کا نام ’’مواجہہ شریف‘‘ ہوگیا۔
یہاں سے زائرین صلوٰۃ و سلام پیش کرتے ہیں۔ ان حسین جالیوں میں مرقدِ اَقدس کے سامنے پہلا بڑا دائرہ اور پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے دو نسبتاً چھوٹے دائرے ہیں۔ بقیہ تین سمتوں میں فولادی جالیاں ہیں، جن پر گہرا سبز رنگ چڑھا ہوا ہے۔ مقصورہ شریف کے چار دروازے ہیں۔ پہلا دروازہ ’’باب التوبہ‘‘ قبلے کی دیوار میں ہے۔ دُوسرا’’باب الوفود‘‘ مغرب میں اسطوانہ وفود سے ملا ہوا ہے۔
مشرق میں تیسرا دروازہ ’’بابِ فاطمہؓ‘‘ خاتونِ جنت بی بی فاطمہؓ کے گھر کے ساتھ، جب کہ چوتھا دروازہ ’’باب التہجّد‘‘ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مصلّیٰ تہجّد کے قریب ہے۔ خصوصی مہمانوں کے لیے صرف مشرقی دروازہ کھولا جاتا ہے۔ پنج گوشہ دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے اور یہ دیوارتمام اطراف سے ہرے رنگ کے ریشمی پردے سےڈھکی ہوئی ہے۔ (نشاناتِ ارضِ نبویؐ، 214)۔
گنبدِ خضراء: روضۂ اَقدس پر پہلی مرتبہ گنبد مملوکِ مصر، سلطان قلاوون نے 678ہجری بمطابق1279عیسوی میں تعمیر کروایا۔ یہ لکڑی کا ایک خُوب صورت گنبد تھا، جو گنبد الصغراء‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔886ہجری بمطابق1481عیسوی کو آتش زدگی کے باعث گنبد شہید ہوگیا۔ چناں چہ888ہجری میں سلطان قاتیبائی نے کالے پتھروں سے ایک گنبد بنوایا اور اس پر سفید رنگ کروادیا۔ اسے ’’گنبد بیضاء‘‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ 1233ہجری بمطابق1818عیسوی میں عثمانی سلطان محمود بن عبدالحمید خان نے سلطان اشرف قاتیبائی کے گنبد کی جگہ ایک نیا گنبد تعمیر کروایا۔
1837ء میں اس پر سبز رنگ کروایا۔ اور یہ گنبدِ خضراء کے نام سے مشہور و معروف ہوا۔ اس کے بعد مزید گنبد بھی بنے۔ عبدالمجید عثمانی کی تعمیر کردہ مسجد کے سارے حصّے میں گنبد ہی گنبد ہیں ،لبتہ ان کے سائز مختلف ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد170ہے۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز نے جو مسجدِ نبویؐ میں تاریخ کی سب سے بڑی توسیع کروائی تھی، اس میں27متحرک گنبد بنائے گئے ہیں، جو بجلی سے حرکت کرتے ہیں۔ یہ گنبد اپنی ساخت اور زیبائش و آرائش میں اپنی مثال آپ ہیں۔ (مدینہ منوّرہ، ڈاکٹر احمد شعبان،47)۔
ریاض الجنۃ: یوں تو مسجدِ نبویؐ کرّۂ اَرض پر دُوسری سب سے مقدّس و محترم عبادت گاہ ہے، لیکن اس کا ایک قطعہ ایسا بھی ہے کہ جس کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، 1196)۔ مزید فرمایا کہ ’’جو شخص جنّت کے باغات میں سے کسی باغ میں نماز پڑھنے کا خواہش مند ہو، تو اسے میری قبر اور میرے منبر کے درمیان نماز پڑھ لینی چاہیے۔‘‘ (کنزالعمال، جِلد12 ،صفحہ، 260)۔ گھر سے مُراد مشرق کی جانب اُمّ المومنین کا وہ حجرئہ مبارکہ ہے، جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ اَطہر ہے، جب کہ مغرب میں منبرِ رسولؐ ہے، جس کے بارے میں فرمایا کہ روزِ محشر اسے حوضِ کوثر پر منتقل کردیا جائے گا۔
ریاض الجنہ کا مشرق سے مغرب کی جانب طول26.5میٹر ہے۔ تاہم، اس کا کچھ حصّہ حجرہ شریف کے گرد محیط جالیوں کے اندر آجانے سے اب اس کی لمبائی22میٹر رہ گئی، جب کہ عرض شمال سے جنوب15میٹر ہے، چناں چہ اب ریاض الجنہ کا کُل رقبہ397.5مربع میٹر ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا زیادہ تر وقت اسی قطعۂ بہشت میں گزارتے تھے۔ یہی وہ مرکزِ اَنوار و تجلّیات ہے کہ جہاں سے طلوع ہونے والی ایمان کی روشن کرنوں نے پوری دُنیا کو منوّر کردیا۔
یہی وہ منبعِ رُشد و ہدایت ہے کہ جہاں پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، محسنِ اِنسانیت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے علمی استفادہ کرتے تھے۔ اسی قطعۂ اَراضی سے مظلوموں کو انصاف، غریبوں کی دادرسی سے لے کر مملکتِ اسلامیہ کے جملہ اُمور سرانجام دیئے جاتے تھے۔ اسی محترم قطعہ کے ستونوں کے سائے میں قیصر و کسریٰ، عجمی و فارسی سمیت یہود و نصاریٰ کے بادشاہوں کو خطوط کے ذریعے دین کی دعوت دی جاتی۔ زیارت کے لیے دُور دراز سے آنے والے وفود سے ملاقاتیں ہوتیں، لوگ جُوق دَر جُوق مسلمان ہوتے تھے۔ جنّت کی اسی کیاری میں بیٹھ کر ظالم و جابر کفّار و مشرکین سے جہاد کے لیے مجاہدین روانہ کیے جاتے۔
یہ مقامِ مقدّسہ مسلمانانِ عالم کے رُوحانی سکون کا مرکز، جنّت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ جہاں اِنس و جن اور فرشتے ہمہ وقت ذکر اَذکار میں مصروف رہتے ہیں، جہاں ہر وقت ، ہر لمحہ رحمتوں کی بارش کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔یومِ حشر جب دُنیا فنا ہوجائے گی، پہاڑ رُوئی کے گالوں کی طرح ہوا میں بکھر جائیں گے۔ اُس وقت ریاض الجنہ کو اسی طرح زمین سے اُٹھا کر آسمانوں میں لے جایا جائے گا اور جنّت کے باغوں کا حصّہ بنا دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جنّت کے دو یاقوت عطا فرمائے تھے۔ ایک حجرِ اَسود اور دُوسرا مقامِ ابراہیم ،ؑ جن پر چڑھ کر انھوں نے خانۂ کعبہ کی تعمیر فرمائی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنّت کا پورا ایک قطعہ عطا فرمادیا۔ ریاض الجنہ کی درج ذیل تین چیزیں اپنی قدر و منزلت کے اعتبار سے نہایت منفرد ہیں۔
مسجد نبوی کی محرابیں: طیبہ یونی ورسٹی مدینہ منوّرہ کے اُستاد ڈاکٹر احمد محمد شعبان اپنی کتاب ’’مدینہ منوّرہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس وقت مسجد نبویؐ میں پانچ محرابیں ہیں۔ پہلی محراب ’’محرابِ نبویؐ ‘‘ ہے یہ ریاض الجنۃ میں واقع ہے، اس کو حضرت عمر بن عبدالعزیزنے اس جگہ پر بنوایا تھا، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کی امامت فرماتے تھے۔ تحویلِ قبلہ کے بعد موجودہ محراب888 ہجری مطابق 1483 عیسوی میں سلطان اشرف قاتیبائی نے بنوائی تھی۔
دُوسری ’’محرابِ عثمانی‘‘ ہے، جو مسجد کے آگے والے حصّے میں قبلہ والی دیوار میں ہے۔ اُسے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اُس جگہ بنوایا تھا، جہاں کھڑے ہو کر حضرت عثمان بن عفانؓ مسجدِ نبوی کی توسیع کے بعد امامت فرماتے تھے۔ بعد میں سلطان اشرف قاتیبائی نے اس کی تجدید و ترمیم کروائی۔ تیسری ’’محرابِ تہجّد‘‘ ہے۔ یہ محراب اس وقت حجرہ شریف کی شمالی دیوار میں آگئی ہے۔ یہ محراب اُس جگہ بنائی گئی، جہاں عموماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد اَدا فرماتے تھے۔
چوتھی ’’محرابِ سیّدہ فاطمہؓ‘‘ ہے۔ یہ محراب مقصورہ شریف کے اندر آچکی ہے اور اس جگہ ہے، جہاں حضورﷺکی چہیتی صاحب زادی خاتونِ جنّت سیّدہ فاطمہؓ کا حجرۂ مبارک ہے۔ پانچویں ’’محرابِ سلیمان یا محرابِ حنفی‘‘ ہے۔ یہ منبر شریف کی سیدھ میں مغربی سمت تیسرے ستون کے قریب ہے۔ جسے طوغان شیخ نے 860ہجری بمطابق1455عیسوی میں بنوا کر اس میں امامت کے لیے حنفی مسلک کا امام منتخب کیا۔ پھر سلیمان قانونی نے 938 ہجری بمطابق1531 عیسوی میں تجدید کروائی اور اُسی کی طرف یہ محراب منسوب ہوگئی۔ (مدینہ منورہ، ڈاکٹر احمد شعبان،42)۔
منبرِ نبوی ؐ : سیّدنا جابر بن عبداللہؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے دن خطبے کے وقت ایک کھجور کے تنے کے سہارے کھڑے ہو جاتے تھے۔ کبھی کبھی خطبہ طویل ہوجاتا، چناں چہ ایک انصاری عورت یا مرد نے گزارش کی ’’اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم آپ کے لیے ایک منبر نہ بنوادیں؟‘‘ تو آپؐ نے فرمایا ’’جیسے تمہاری مرضی۔‘‘ تو انصار نے آپؐ کے لیے ایک منبر بنادیا۔
جب جمعے کا دن ہوا اور آپؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے، تو وہ تنا بچّے کی طرح چیخ چیخ کر رونے لگا۔ حضورﷺ منبر سے اُترے اور اس تنے کو آغوش میں لے لیا تو وہ اس بچّے کی طرح ہچکیاں لینے لگا، جسے چُپ کروایا جا رہا ہو۔ آپؐ نے فرمایا ’’تنے کارونا، ذکر الٰہی سے محرومی کی بنا پر تھا، جسے وہ پہلے قریب سے سُنا کرتا تھا۔‘‘ (صحیح بخاری،3584)۔ جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ تنے سے رونے کی آواز آئی۔ آخر حضورﷺ نے جب اس پر ہاتھ رکھا، تو وہ چُپ ہوگیا۔ (صحیح بخاری،3585)۔
یہ منبر8ہجری میں بنایا گیا تھا۔ اس کی تین سیڑھیاں تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیسری سیڑھی پر تشریف فرما ہوتے تھے۔ جب سیّدنا ابوبکرؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو وہ از راہِ اَدب دُوسری سیڑھی پر بیٹھتے تھے۔ جب سیّدنا عمر فاروقؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو پہلی سیڑھی پر بیٹھتے اور پائوں زمین پر رکھ لیتے تھے۔ سیّدنا عثمانؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو چھے سال تک اسی پر عمل پیرا رہے۔ پھر وہ حضورﷺ کی جگہ بیٹھنے لگے۔ حضرت امیر معاویہؓ حج پر آئے، تو انہوں نے اصل منبر کے نیچے مزید چھے سیڑھیوں کا اضافہ کردیا۔ یوں منبر کی نو سیڑھیاں بن گئیں۔ خلفاء ساتویں سیڑھی پر بیٹھتے۔ یہ اصل منبر کی پہلی سیڑھی تھی۔ جہاں سیّدنا عمر فاروقؓ بیٹھتے تھے۔ (تاریخِ مدینہ منورہ، دارالسلام،83)۔
حضرت سہیل بن سعدؓ نے روایت بیان کی ہے، ان سے پوچھا گیا کہ حضورﷺ کا یہ منبر کس چیز کا تھا؟ وہ بولے۔ اب لوگوں میں اس کے متعلق جاننے والا مجھ سے زیادہ کوئی نہیں ہے۔ وہ مقام غابہ کے جھائو سے بنا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک انصاری عورت کے غلام نے تیار کیا تھا۔ (صحیح بخاری،377)۔ ’’غابہ‘‘ مدینہ منوّرہ کے مضافات میں ایک جنگل کا نام تھا، جب کہ ’’جھاؤ‘‘ ایک درخت کا نام ہے، جس کی لکڑی بہت مضبوط ہوتی ہے۔ (جاری ہے)