علاّمہ ذوالفقار احمد نقشبندی، لاہور
اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی بخشش اور درجات کی بلندی کی خاطر جس طرح مختلف مواقع و ایّام مقرّر فرمائے ہیں۔ اِسی طرح کچھ دنوں کو بھی خاص فضیلت عطا فرمائی ہے، جیسے روزِ جمعہ، یومِ عرفات، نو، دس محرم اور بارہ ربیع الاوّل وغیرہ۔ جب کہ بعض راتیں بھی خاص فضیلت کی حامل ہیں اور اُن میں سب سے افضل و اعلیٰ رات، شبِ قدر ہے، جس کے بے شمار فضائل ہیں اور اِسی بابت حضورﷺ نے پورے مہینے کا اعتکاف فرمایا اور پھر آخری عشرے کا اعتکاف فرما کر ارشاد فرمایا کہ ’’شبِ قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔‘‘
اِس شب کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اِس میں حضرت جبرائیل امینؑ، اللہ تعالیٰ کے حُکم سے فرشتوں کے ساتھ زمین پر اُترتے ہیں اور فرشتے ہر عبادت گزار کو سلام کرتے ہیں، اُن سے مصافحہ فرماتے ہیں اور اُن کی دُعا کے ساتھ ’’آمین‘‘ کہتے ہیں، اور یہ صورت طلوعِ فجر تک قائم رہتی ہے۔ اُس کے بعد سیّدنا جبرائیل امینؑ اعلان کرتے ہیں کہ ’’اے فرشتو! اب واپس چلو۔‘‘ تو اُس وقت فرشتے کہتے ہیں، ’’اے جبرائیلؑ! آپ نے اُمّتِ محمدیہﷺ کی حاجتوں سے متعلق کیا کیا؟‘‘ اِس پر حضرت جبرائیلؑ جواب دیتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اُن پر رحمت کی نظر فرمائی، اُنھیں معاف کر دیا، البتہ چار قسم کے لوگ اِن میں شامل نہیں، ایک شرابی، دوسرا والدین کا نافرمان، تیسرا رشتوں کو منقطع کرنے والا اور چوتھا وہ شخص جو دوسروں سے بغض رکھتا ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’ہم نے اِسے (قرآن کو) شبِ قدر میں اُتارا۔‘‘ مفسرّین کے مطابق، اِس ارشادِ ربّانی کا مطلب یہ ہے کہ اِس رات قرآنِ پاک لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر لکھنے والے فرشتوں کے پاس بھیجا گیا۔ اس کے بعد حسبِ ضرورت حضرت جبرائیلؑ، اللہ تعالیٰ کے حُکم سے آیاتِ مبارکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آتے رہے۔ بعض روایات کے مطابق، قرآنِ پاک کا اُتنا ہی حصّہ شبِ قدر میں آسمانِ دنیا پر نازل ہوتا، جو اُس سال نبی کریمﷺ پر وحی کیا جاتا۔
اِسی طرح دوسرے سال شبِ قدر میں اُتنا حصّہ نازل ہوتا، جتنا کہ اُس سال حضرت جبرائیلؑ کو لانا ہوتا، یہاں تک کہ تمام قرآن مجید لیلتہ القدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل کر دیا گیا۔ (واللہ اعلم)حضرت ابنِ عباس ؓ اور دوسرے مفسّرین نے آیت ’’اِنا انزلنا‘‘ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس سورت یعنی سورۃ القدر اور پورے قرآن کو لکھنے والے فرشتوں کے پاس شبِ قدر میں اُتارا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر تھوڑا تھوڑا 23 سال کی مدّت میں نازل ہوتا رہا۔
لیلتہ القدر کے معنی عظیم رات کے ہیں۔ اِسے فیصلے والی رات بھی کہا جاتا ہے۔ اِس رات کو لیلتہ القدر کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بعض روایات کے مطابق اِس رات آئندہ سال ہونے والے واقعات مقرّر کردئیےجاتے ہیں۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ وہی رات ہے، جس کا سورۂ دخان میں ذکر ہے۔ شبِ قدر میں نیک اعمال کا ثواب ہزار مہینوں کے اعمال سے بہتر ہے۔ روایت ہے کہ صحابۂ کرامؓ کو جتنی خوشی سورۂ قدر کے نازل ہونے سے ہوئی، اِتنی خوشی کسی اور کے نزول سے حاصل نہ ہوئی۔
روایت میں آتا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک مہینے تک ہتھیار بند رہا اور جسم سے ہتھیار الگ نہیں کیے، یعنی مسلسل جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف رہا۔ یہ بات حضورﷺ نے صحابۂ کرامؓ سے بیان فرمائی، تو اُس پر صحابۂ کرامؓ کو تعجّب ہوا، جس پر اللہ تعالیٰ نےسورۃ القدر نازل فرمائی۔ لیلۃ القدر اُمّتِ محمّدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے لیے خاص انعام ہے، جو اِس سے قبل کسی اور اُمّت کو عطا نہیں کی گئی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر میری اُمّت ہی کو عطا کی اور تم سے پہلے لوگوں کو اس سے سرفراز نہیں کیا۔‘‘نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ’’ جس نے لیلۃُ القدر میں ایمان اور اِخلاص کے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز پڑھی) تو اُس کے گزشتہ(صغیرہ) گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔‘‘( بخاری شریف) شبِ قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ البتہ ان تاریخوں میں زیادہ مشہور ستائیس ویں شب ہے۔ حضرت ابنِ عُمرؓ سے روایت ہے کہ صحابۂ کرامؓ رمضان کے آخری عشرے میں اپنے خواب حضورﷺ سے بیان کیا کرتے تھے، اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’ایسا معلوم ہوتا ہے، تم لوگوں کے خواب ستائیسویں شب سے متعلق متواتر ہیں۔ اِس لیے جو شخص شبِ قدر کی جستجو کرے، وہ ستائیسویں رات کو کرے۔‘‘
اب یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو قطعی اور یقینی طور پر کیوں نہیں بتایا کہ شبِ قدر کون سی رات ہے؟ علماء کرام کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ اِس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ لوگ اِس بات پر اعتماد نہ کر بیٹھیں کہ ہم ایسی رات میں عبادت کرچُکے، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہماری مغفرت کردی۔ ہمیں پوری کوشش اور جدوجہد سے لیلتہ القدر تلاش کرنی چاہیے تاکہ انعاماتِ الہٰیہ کے حق دار بن سکیں۔ گو کہ آخری عشرے کی پانچ میں سے تین طاق راتیں گزر چُکی ہیں، مگر ہمارے پاس اب بھی ستائیس اور انتیس کی شب باقی ہیں، جن میں زیادہ سے زیادہ عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے۔