• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی جماعت کوئی بھی جیتے، اچھی بات ہے، سیاسی رہنما کوئی بھی مقبول و محبوب ہو بہت اچھی بات ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا صرف سیاسی جماعتیں اور اشخاص ہی جیت رہے ہیں یا پاکستان بھی سیاسی، معاشی،معاشرتی،سائنسی اور دیگر میدانوں میں جیت کو اپنامقدر بنانے کے رستے پر رواں دواں ہو رہا ہے؟بظاہر اس سوال کا جواب بہت مایوس کر دینے والا ہے کیونکہ پاکستان کو اندر سے اپنوں کی بے اعتنائی اور بے وفائی کا مسلسل سامنا ہے۔تاہم جماعتوں کی آنکھ مچولی میں اخلاقی قدروں کی پامالی قوم کو پہنچنے والا وہ بڑا نقصان ہے جس کی تلافی میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ابھی تک تو ضیائی سوچ کی تقسیم کے گڑھے نہیں بھرے جاسکے، موجودہ نفرت اور تذلیل کی بارودی سرنگیں جانے کب بیکار ہوں یا شاید یہ سب کچھ بھسم کر دیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے حق و باطل کے آفاقی قوانیں بھی مخصوص سوچ کی پیروی تک محدود ہو چکے ہیں۔ آزادی کے متوالوں کی سوچ اس حد تک سمٹ چکی ہے کہ میرا رہنما حق پر ہے، وہ جو کہتا ہے وہی حق سچ ہے، جو اسے مانتا ہے وہی سچا ہے اور جو اسے نہیں مانتا یا اس کے برعکس سوچتا ہے، اس کی سوچ باطل ہے۔میرے رہنما کی برائی میں بھی اچھائی ہے اور دوسروں کی اچھائی بھی برائی ہے۔ اصل چیز جو مصیبت کا باعث ہے وہ’’ میں‘‘ ہے۔ میں نے جو کہہ دیا وہ درست تسلیم کیا جائے ورنہ گالی، فتوی، غداری کا سرٹیفکیٹ دینا میرا استحقاق ہے۔ اگر ہر فرد اپنی سطح تک جسے چاہے دیوتا سمجھتا رہتا تو شاید بچت رہتی مگر یہاں تو دوسروں کو ڈکٹیٹ کر کے فیصلہ مسلط کرنے کی روش چل نکلی ہے۔ پہلے بات حق سچ تک تھی اب انصاف تلک آپہنچی ہے۔ انصاف کی تکڑی کو پتھر مار مار کر ڈانواں ڈول کر دیا گیا ہے۔ سب اپنی مرضی اور مفاد کا انصاف چاہتے ہیں۔ حالات اس ڈگر پر آچکے ہیں کہ دلائل و براہین کی حیثیت ثانوی ہوتی جارہی ہے اور پسند، ناپسند لازم ہوتے جا رہے ہیں۔

پہلے ریاست معاشی تنگدستی کا شکار تھی اب آئینی بحران میں الجھتی جا رہی ہے۔ عدل کے اداروں اور ان سے جڑی شخصیات پر لوگوں کا اعتماد باقی رہنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو تو لوگ خود انصاف کرنے لگتےہیں اور اپنا اپنا نظریہ انصاف گھڑ لیتے ہیں۔ جو کسی معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔آئین معاشرے کو جوڑ کر رکھتا ہے اگر اس کی گرہیں کُھلنا شروع ہو گئیں تو پھرکوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس وقت تمام جماعتیںدست وگریباں ہیں۔ اپنی جیت کے خمار میں مخالفت کی سڑک پر دوڑتے دوڑتے لوگ اتنی دور نکل آئے ہیں کہ ایک دوسرے کی بات سننے اور شکل دیکھنے کے روادار نہیں۔ جب کہ موجودہ تمام مسائل کا حل مل بیٹھنے سے ممکن ہے۔سیاست کا مطلب دلائل، اکثریتی آرا اور صلاح مشورے سے معاملات حل کرنا ہے۔ جو اس وقت بالکل ناپید ہے۔ملک کی حالیہ صورتحال میں سیاست ہارتی نظر آتی ہے۔عدل وانصاف کے بغیر مہذب معاشرے کا وجود ناممکن ہے۔ اخلاقی اور قانونی اصلاحات کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدا میں انصاف کی اصطلاح راست باز و نیکوکار کے معنوں میں برتی جاتی تھی اور انصاف ضابطہ اخلاق کے مکمل اتباع کا نام تھا۔منصفانہ معاشرے کیلئے لوگوں کی ذہنی تربیت بہت اہم ہوتی ہے تاکہ عدلیہ جن اصولوں کے رائج کیے جانے پر زور دے لوگ ان کی پیروی ڈر خوف اور مجبوری کی بجائے خوشی سے کریں۔ انصاف کا یہ بھی تضاضا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد انفرادی اور مجموعی طور پر معاشرے کی ترقی اور بہتری کیلئے کام کریں۔ انصاف، جانبداری اور تفریق کی نفی کا نام ہے۔ سب سے یکساں سلوک دراصل ہر طرح کے ظلم اور استحصال کا خاتمہ ہے جس کا نتیجہ امن اور خوشحالی ہے۔ بے انصافی ایسے مسائل کو جنم دیتی ہے جن کا مداوا صدیوں کو کرنا پڑتا ہے۔افلاطون کے نظریہ عدل کے مطابق فرد جتنا پیدا کرتا ہے اتنا ہی حاصل کرنے کا مجاز ہے۔عادل انسان جو کچھ ملک و قوم سے لیتا ہے اس کے برابرلو ٹاتا بھی ہے۔یہی اصول ہر شے پر لاگو ہے۔کائنات کچھ لو کچھ دو کے قانون پر آگے بڑھ رہی ہے۔ عدل کا بھی یہی معاملہ ہے۔عدل کرنا نیکی اور امن قائم کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے جب کہ عدل نہ کرنا یا عدل کے رستے میں رکاوٹ ڈالنا معاشرے میں بدامنی اور شر پھیلاناہے۔رہنما اپنی ذات کو سماج سے جدا نہیں کرسکتا، وہ اپنے فیصلوں سے جو اچھائی برائی معاشرے کی جھولی میں ڈالتا ہے وہ اُس پر بھی ضرور اثرانداز ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ جو رہنما سماج میں بے انصافی کی روایت ڈالے گا اسے بھی اس کے مہلک ثمرات بھگتنا ہوں گے ۔چرب زبانی اور جھوٹ کی عمر زیادہ نہیں ہوتی، سچ اور حق کو طویل مدت تک مصنوعی غلافوں میں چھپا کر لوگوں کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔خدا کرے علم و شعور کی اس صدی میں قانون اپنے اصل معنوں میں اجاگر ہو اور دنیا عدل کی پیروی کو فرض اپنا فرض سمجھے۔ عدل صرف قوانین کا احترام ہی نہیں بلکہ وسائل کی غیرمساویانہ تقسیم بھی بے انصافی ہے۔

تازہ ترین