• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ خوفناک انکشاف مجھ پر دو دن پہلے ہوا ۔

بچپن میں مجھے لچھے کھانے کا بہت شوق تھا۔ نئی نسل کے لئے اب یہ کاٹن کینڈی ہے، ہمارے دور میں یہ سائیکل پر بنی ایک مشین میں تیار ہوتے تھے۔ گھر سے چینی لے کر جاتے تھے اور لچھے والے کے حوالے کرتے تھے۔ وہ آدھی چینی بطور معاوضہ خود رکھتا تھا اور بقیہ چینی مشین کے سوراخ میں ڈال کر گھماتا تھا۔ نیچے آگ جلتی تھی اور حدت سے چینی گول گول لچھے تیار کرتی جاتی تھی۔ مجھے لکڑی والی آئس کریم کی ریڑھی سے بھی عشق تھا۔ اس ریڑھی میںآئس کریم کے ڈھیر لگے ہوتے تھے اور جی چاہتا تھا کوئی آئے اور پوری ریڑھی میرے سامنے الٹ دے۔ کریم رول میری جان ہوا کرتے تھے۔ اس کے اندر کریم بھری ہوتی تھی اور یوں لگتا تھا گویا اس سے بڑھ کر کوئی چیز ہوہی نہیں سکتی۔آخری سرے تک پہنچتے پہنچتے کریم ختم ہوجاتی تھی اور خستہ رول باقی رہ جاتا تھا، اس کا ذائقہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ الارم والی گھڑی میرا جنون تھی۔ میں جان بوجھ کر ایک ایک منٹ بعد کا الارم لگا کر بیٹھ جاتا اور بار بار گھڑی سے آنے والی باریک سی مدھر آواز سنتا رہتا۔میٹھالال شربت میرے خوابوں میں آتا تھا۔ اس کی خوشبو سے ہی میرے دل و دماغ معطر ہوجاتے تھے۔ میرا بڑا جی چاہتا تھا کہ پانی میں چینی کی بجائے صرف لال شربت ڈال کر پیوں لیکن رواج یہی تھا کہ پانی کو پہلے چینی ڈال کر میٹھا کر لیا جائے اور بعد میں لال شربت کے برائے نام چند قطرے ڈال کر اسے انجوائے کیا جائے۔کیلے کی تصویر والے کریم بسکٹ میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ میں کبھی یہ جڑے ہوئے بسکٹ اکٹھے نہیں کھاتا تھا، یہ بہت بڑی عیاشی تھی اور میں اس کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا لہٰذا دونوں بسکٹ علیحدہ کرکے ان کی لذت اپنے اندراتارتا، یوں دوبسکٹوں کی قیمت ادا کرکے چار بسکٹوں کا سواد مل جاتا تھا۔

محلے کے کونے پر بنی چھوٹی سی بیکری میں پڑی رنگ برنگی پیسٹریاں مجھے اپنی طرف کھینچتی تھیں۔ تب الگ سے بڑی بڑی بیکریاں وجود میں نہیں آئی تھیں۔ میں روزانہ جیب خرچ میں ملنے والے ’وڈے آنے ‘ جوڑ جوڑ کر ہفتے میں ایک دفعہ پیسٹری سے لطف اندوز ہولیا کرتا تھا۔سوکھا دودھ کاغذ کی پڑیوں میں ملتا تھا۔ پتا ہی نہیں تھا کہ اسے پانی میں ڈال کر استعمال کرتے ہیں۔ بس انگلی سے چاٹتے اور جھومتے چلے جاتے۔کچھ سستا نمکین کھانے کو دل چاہتا تو چورن موجود تھا۔ اس کی ایک چٹکی زبان پر رکھتے ہی بے اختیار منہ سے پٹاخہ نکل جاتا۔ اب چورن بھی نہیں ملتا ، شاید اس لئے کہ آجکل صرف فرقہ واریت اور سیاست کا چورن بکتاہے۔

مجھے گانے سننے کا بھی بہت شوق تھا۔ گھر میں بڑے بھائی نے ایک کارٹیپ کے ساتھ ڈیک منسلک کیا ہوا تھا۔ یہ کارٹیپ ایسی تھی کہ اس میں کیسٹ ڈالتے تو ٹھاہ کی آواز کے ساتھ کیسٹ اندر کی طرف جاتی اور جب نکالنا ہوتی تو بٹن کو زور سے جھٹکا دیتے اور کیسٹ اتنی زور سے باہر آتی کہ کئی دفعہ اچھل کر دو گز دورجاگرتی۔میں نے اس ٹیپ میں ’بناکا گیت مالا، شرابی غزلیں، شوکی خان کی مزاحیہ قوالیاں، معین اختر کی کامیڈی ، حسن جہانگیر ، عالمگیر،محمد علی شہکی کے شوخ گانے، مراتب علی کے درد بھرے گیت اور ظفر اقبال ظفری کے ساتھ ساتھ مہدی حسن، غلام علی، پٹھانے خان، اُستاد جمن ، مہناز، ترنم ناز ، مسرت نذیر اور بے شمار لوگوں کی آوازیں دل میں اُتاریں۔ ظفر اقبال ظفری بیک وقت مردانہ اور زنانہ آواز میں گاتے تھے ۔

مجھے گھڑے کا ٹھنڈا پانی بہت پسند تھا۔ سائیکل کا ٹائر گلیوں میں چلانا بہت اچھا لگتا تھا۔ہاکی اور ٹیبل ٹینس میری پسندیدہ اسپورٹس تھیں اور جی چاہتا تھا سارا دن کھیلتے رہیں۔مجھے خربوزے کے بیج چھیل کر کھانا اچھا لگتا تھا۔میرا ٹرین میں سفر کرنے کو دل کرتا تھا۔کسی گرائونڈ میں لگے جھولے کو دیکھ کر میں مچل جایا کرتا تھا۔ سلائیڈز (المعروف گھیسیاں) مجھے کبھی نہیں تھکنے دیتی تھیں۔میں عید میلاد النبی ﷺ پر مسجد میں شوق سے نیاز کھانے جاتا تھا۔ محرم میں ہر سبیل سے شربت کے گلاس بھر بھر کر پیتا۔ ابا جی کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر حسن پروانہ ملتان کے قبرستان میں قوالی سننے جاتا اور الفاظ کا مطلب سمجھ میں نہ آنے کے باوجود جھوم جھوم جاتا۔ابا جی سائیکل کے ڈنڈے پر ایک کپڑا اس طرح باندھ دیتے کہ مجھے بیٹھنے میں تکلیف نہ ہوتی اور میں مزے سے سائیکل کی گھنٹی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھ کر ٹرن ٹرن کرتا رہتا۔

مجھے فون پر بات کرنے کا بھی بہت شوق تھا۔ لینڈ لائن فون کی گھنٹی بجتی تو میں چھلانگ مار کر پہلی گھنٹی پر ہی رسیور اٹھا کر ’ہیلو ہیلو‘ کہنا شرو ع ہوجاتا۔مجھے ٹیلی فون ڈائریکٹری بہت دلچسپ لگتی تھی۔ اس میں باریک الفاظ میں لاکھوں نمبر ز دیے ہوتے تھے ، میں ان میں سے اپنے قریبی عزیزوں کے فون نمبر تلاش کرتا ، یہ پزل مجھے کبھی بور نہیں ہونے دیتا تھا۔جنتری بھی میں نے بہت خریدی۔ اس میں سے فالیں نکالیں۔ ٹی وی کا انٹینا ٹھیک کرنے میں مجھے بڑا مزا آتا تھا۔آج..... میرے پاس سب کچھ ہے لیکن کچھ کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے نہ کوئی چیز خریدنے کی ۔ایک طرف سب کچھ میسر ہو تو دوسری طرف سب کچھ چھن جاتا ہے.....یہ خوفناک انکشاف مجھ پر دو دن پہلے ہوا ۔

تازہ ترین