السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
سب سے بڑی خُوبی
جنگ، میگزین ہمیشہ سے میرا پسندیدہ ہے۔ تمام ہی سلسلے سمجھنے، پرکھنے اور سیکھنے کے لیے بہت شان دار ہیں۔ مَیں ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خط لکھ کر بھیجنا چاہتی ہوں، پلیز کسی گوشے میں جگہ عنایت فرمائیں۔ آپ کا داد دینا، آپ کی سب سے بڑی خُوبی ہے اور یہی وصف جریدے کی کام یابی کی ضمانت بھی۔ مجھے یقین ہے، آپ مجھے مایوس نہیں کریں گی، میرے خط کا جواب ضرور دیں گی۔ (مریم طلعت محمود بیگ، لاہور)
ج:ارے بھئی مریم، یہ کیا مذاق ہے، آپ نے تیسری بار وہی حرکت کی ہے۔ ایک ہی متن، مختلف رنگوں کے لیٹر پیڈز، بس، اب یہ آخری بار آپ کا اِس طرح کا خط شائع کیے دے رہے ہیں۔ آئندہ یہ سلسلہ نہیں چلے گا۔ ایک خط لکھیں اور اس پر تمیز سے تازہ جریدے کے مندرجات پر تبصرہ کرکے بھیجیں۔ یہ کیا رٹے رٹائے تین جملےہر بار چھے الگ الگ اور رنگا رنگ صفحات پر لکھ کے بھیج رہی ہیں۔
حکومت کا اخبار
آپ سنڈے میگزین میں کراچی کے گمبھیر مسائل، کراچی کے ساتھ ہونے والی زیادیتاں عوامی سطح پر اجاگر کیا کریں اور کراچی کے مسائل حل کرنے والی سیاسی و سماجی تنظیموں کی بھی کچھ تعریف و توصیف کر دیا کریں تاکہ عوام کی یہ رائے کسی حد تک تبدیل ہوسکے کہ جنگ صرف اور صرف حکومت کا اخبار ہے، حکومت کی ترجمانی کرتا ہے اور ملک سے زیادہ حکومت کو ترجیح دیتا ہے۔ (محمّد شاہد اعجاز، زینت آباد، گلزار ہجری، کراچی)
ج:’’سنڈے میگزین‘‘ ہمارا سینٹرلائزڈ جریدہ ہے۔ اس میں صرف کراچی کے مسائل پرفوکس نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ہر صوبے، ہر شہر کی بات کرنی ہوتی ہے۔ رہی عوامی رائےکی بات، تو عوام کی رائے اگر ایسی ہی صائب ہوتی، تو آج مُلک و قوم کا یہ حال نہ ہوتا۔ الحمدُللہ ہم اپنی سوچ اور عمل میں اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق بالکل آزاد ہیں۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کا شعور و ادراک رکھتےبھی ہیں اور کہتے بھی ہیں۔
بات ہی کچھ اور ہے
دل دھڑکتا ہے مِرا سینے میں… ہائے پہنچوں گا کب مدینے میں۔ ’’مدینہ منوّرہ‘‘ سے متعلق محمود میاں نجمی کے قلم سے نکلےحسین الفاظ کا گل دستہ ہر اتوار وصول پارہا ہے۔ بی این پی کے صدر، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سےوحید زہیر ک بات چیت زبردست رہی اور ڈاکٹر صاحب نے کیا خُوب بات کہی کہ ’’زندگی دوستوں کے بغیر ناکارہ ہے۔‘‘ کتابی آنکھوں والے قلم کار، منور مرزا مُلکی و قومی قیادت کے حوالے سے بجا فرما رہے تھے کہ ’’پُرانی قیادت خُود پیچھے ہٹ کر نوجوانوں کو موقع دے۔‘‘ بلاشبہ، ہمارا آج کا نوجوان بہت باصلاحیت ہے۔ اگر ان کو ذمّےداری سونپی جائےتو یہ یقیناً وطن کےسبز ہلالی پرچم کو آسمان کی بلندیوں تک لے جائیں گے۔ نواب شاہ کے نایاب قلم کار، رائو محمّد شاہد اقبال جب بھی کسی موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں، کمال کرتے ہیں۔ سائنس کے حوالے سے جو لکھا، اِس سے خُوب بھلا اور کیا لکھا جائےگا۔
’’پیارا گھر‘‘میں ڈاکٹر عزیزہ انجم کی قلمی کاوش ’’نئے برس میں نئی صبح کا ستارہ ڈھونڈیں‘‘ کانچوڑ یہ تھا کہ دل خدا کا گھر ہے، شیطان کا آشیانہ نہیں۔ اس میں بس محبّتیں بَھریں اور نفرت کے کانٹوں کو آگ لگائیں کہ ’’دوپَل کی زندگی اور بکھیڑے ہزار… بہتر یہی ہے کہ اِسے ہنس کر گزار۔‘‘ فرحی نعیم سمجھا رہی تھیں کہ ’’زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔‘‘ پھر ہر اتوار دستر خوان پر کچھ میٹھا تو ہونا ہی چاہیے، تو چاروں خواتین کی تراکیب بہت میٹھی لگیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی ماڈل کے پہناوے زبردست تھے۔ اُس پر مدیرہ کا شاہ کار طرزِ تحریر، گویا قوسِ قزح کے رنگ بکھر بکھرگئے۔ ’’دہلی نامہ‘‘ ڈاکٹر احمد حسن رانجھاکابہت ہی دل چسپ اورحیرت انگیز سفر نامہ ہے۔
خُود تو ہم شاید ہی زندگی میں کبھی دہلی جا پائیں، مگر سنڈے میگزین کے ذریعے چپّا چپّا ضرور گھوم رہے ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے دونوں مضامین شعور و آگہی میں اضافے کا باعث بنے کہ جان ہے تو جہان ہے۔ بینک دولت پاکستان کے پہلے گورنر، زاہد حسین کے اوراقِ زندگی سلیم اللہ صدیقی نے خُوب وا کیے کہ ایسے شان دار لوگ اب کہاں ملتے ہیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں صائبہ مشام مصطفیٰ اور قاری عبدالماجد کے دل کے قلم سے لکھے رشتے کمال تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں محمود شام، ڈاکٹر قمر عباس اور اختر سعیدی کی نظمیں میگزین کو چار چاند لگا گئیں تو گوجرہ کی قانتہ رابعہ نے بھی اپنےقلم سے بھرپور انصاف کیا۔
گئے سال کے حوالے سے ڈاکٹر شمیم آزر نے بھی خُوب رنگ جمایا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں واقعات زندگی کے حُسن سے بھرپور تھے۔ کتابوں پر تبصرہ کرنا تو کوئی اختر سعیدی سےسیکھے کہ ’’ہم نے الفاظ کی تاثیر کو پرکھا ہی نہیں…نرم لہجے سے تو پتھر بھی پگھل جاتے ہیں۔‘‘ جس طرح سنڈے میگزین کی بات کچھ اور ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بات کچھ اور ہے۔ اِسی طرح ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی بھی بات ہی کچھ اور ہے۔ اور اس بار تو یہ بھی کہوں گا کہ شائستہ اظہر صدیقی کی بھی بات کچھ اور ہے۔ کُڑی سیالکوٹی جب جب آتی ہیں، چھا جاتی ہیں۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میر پورخاص)
ج: سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ایک نہیں، کئی خطوط نگاروں کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اور بلاشبہ اس فہرست میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔
الفاظ پاکیزہ،جملے باوضو
ڈیئر نرجس جی! اُمید ہے، خیریت سے ہوگی، آج پہلی بار تمہاری محفل میں شرکت کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے، دو اہم باتوں نے محبّت نامہ لکھنے پر مجبور کیا۔ پہلی، حجاب پر تمہاری منفرد اور دل کےتاروں کوچھیڑنے والی تحریر اور دوسری محمود میاں نجمی صاحب کی میگزین میں واپسی۔ اور یہ میری خُوش قسمتی ہے کہ یہ دونوں چیزیں مجھے ایک ہی شمارے میں مل گئیں۔ ویسے غزالی صاحب نے بھی ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ کے عنوان سے اچھے مضامین لکھےتھے۔ بات یہ ہے کہ میگزین تو سب ہی اخباروں کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن جنگ، سنڈے میگزین کا اپنا ہی نشہ ہے۔
بقول میرے میاں کے کہ جنگ اخبار نہ پڑھو تو ایک تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ اِسی طرح محمود میاں نجمی کے الفاظ میں جو اپنائیت، چاشنی اور انفرادیت ہے، اُس کی بھی بات ہی کچھ اور ہے۔ اور پھر اس عُمر میں جس عرق ریزی کے ساتھ وہ کتابوں کو کھنگال کر اپنے مضامین کوتحقیقی مراحل سےگزارتے ہیں، اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ مکّہ معظمہ کے بارے میں مستند حوالوں سے جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں، وہ معلومات کم ازکم میرے لیے تو نئی بھی ہیں اور قیمتی بھی۔ اُن کی خدمت میں ہم دونوں میاں بیوی کی جانب سے ڈھیروں دُعائیں اور سلام۔
ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سے متعلق صرف ایک جملہ کہ اُن کے مضامین کے الفاظ پاکیزہ اور جملے باوضو ہوتے ہیں، معین الدّین عقیل بھی دونوں شماروں میں موجود تھے، مایہ ناز استاد، علم کی دنیا کا بہت بڑا نام، اےکاش!ہمارےمحکمۂ تعلیم کی ذمّےداری ایسے قابل لوگوں کے پاس ہوتی۔ خوش بخت شجاعت کا انٹرویو پڑھا۔ اُن سےایک سوال یہ بھی ہونا چاہیے تھا کہ آپ کے اسکول کی فیس کتنی ہے اور غریب بچّوں کے لیے بغیر فیس کےکتنی سیٹیں مختص ہیں؟ میرے خیال میں انٹرویوز کے دوران کچھ چبھتے ہوئے سوالات بھی ضرور ہونے چاہئیں، پہلی اینٹری میں اتناہی کافی ہے، بقول میاں جی کے،ہاتھ ہولا رکھو، پہلا خط ہے۔ تو کبھی کبھی شوہروں بےچاروں کا مشورہ مان لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتا، مگر روز روز نہیں کہ زیادہ سعادت مندی بھی اچھی نہیں۔ اللہ نگہبان۔ (شاہدہ تبسّم، کراچی)
ج:آپ کے تو ایک سے زائد خطوط شایع ہوچُکے ہیں۔ غالباً محکمۂ ڈاک کی شان دار کارکردگی کی بدولت اِس خط کے بعد لکھے گئےخطوط ہمیں پہلے مل گئے اور یہ اب مِلا ہے۔ بہرحال، وہ کیا ہے کہ ؎ خط اُن کا بہت خُوب عبارت بہت اچھی… تو بہت تاخیر سے ملنےکےباوجود بھی پورے اہتمام سے شایع کیے دے رہے ہیں۔
بہت سنبھال کے رکھ لیا
سال بھر کے واقعات کو جس عرق ریزی سے مجتمع کیا گیا، کمال ہے۔ مَیں نے تو آپ کا ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ سنبھال کے رکھ لیا ہے۔ اور ہاں، سال بھر کے خطوط نگاروں میں شمائلہ نیاز کا نام بھی شامل تھا، تو دیکھ کے بڑی خوشی ہوئی۔ امن و امان خریدکے لادے کوئی ہمیں…، مُنصف تو کسی سے رعایت نہیں کرتا…، دہکا ہوا ہے آتشِ گل سے چمن تمام…، ہوتا ہے شب و روز تماشا مِرے آگے…، کتابِ عُمر کا ایک اور باب ختم ہوا…، نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پاہے رکاب میں…، نیرو تو بانسری ہی بجاتا رہا فقط…، جن کے دَم سے تھی بزم کی رونق…، اور پھر ’’سال بھر کی بہترین چٹھی‘‘ ، آپ کا حرفِ آغاز، پورے جریدے کی عُمدہ ترتیب و تزئین کے ساتھ، خصوصاً آپ کا لکھا ایڈیشن کا پہلا اور آخری صفحہ تو گویاجریدے کی جان ٹھہرے۔ سچ میں، مَیں نے تو جریدہ بہت سنبھال کے رکھ لیا ہے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، مظفّر گڑھ)
ج: ویساسنبھال کےتو نہیں رکھ لیا کہ جو پھر بہت ڈھونڈے سے بھی کہیں نہیں ملتا۔
ایمان تازہ بھی، زیادہ بھی
میگزین میں اشاعت کے لیے مَیں نےمختلف مضامین ارسالِ خدمت کیے، مگر اللہ جانے وہ کس معذوری کے تحت اشاعت کے گھوڑے پر سوار نہ ہوسکے۔ مگر اُمید تاحال جواں ہے، حسرت محوِ آہ و فغاں ہے کہ ابھی کوئی خزاں ہے۔ کبھی تو بہار کا جھونکا آئے گا۔ بہرحال، محترمہ! ایک اور مضمون بعنوان ’’بھوکی چڑیاکی فریاد‘‘ ارسال کر رہا ہوں مہربانی کر کے سنڈےمیگزین کے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بنادیں کہ یہ قارئینِ کرام کے ایمان کو تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ بھی کرےگا۔یوں بھی یہ حقیقی تحریر ہے، کوئی فرضی تحریرنہیں۔ آپ کی شرائط پر بھی مکمل طور پر پوری اُترے گا اِن شاء اللہ، اپنی ساری ٹیم کو سلام عرض کریں اور میری طرف سےآپ سب کی کاوشوں اور محنتوں پہ آفرین۔ (جمیل احمد اعوان، سبزہ زار اسکیم، ملتان روڈ، لاہور)
ج: آپ کی بھرپور خُود اعتمادی اپنی جگہ، مگر ہمارا جانچ پڑتال کا اپنا طریقۂ کار ہے۔ لاکھ کسی کی اُمید جواں، حسرت محوِ آہ و فغاں رہے، اشاعت کے گھوڑے کی سواری معیار کے تعیّن اور باری کے انتظار کے بغیر ممکن نہیں۔
لکھنے پڑھنے کا شوق
مَیں آپ لوگوں کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ میرے بھیجے ہوئے واقعات کو عُمدہ کاٹ چھانٹ سے قابلِ اشاعت بنایا۔ مَیں جانتا ہوں، میری تحریر کچھ خاصہ پختہ نہیں ہے، لیکن بہرحال لکھنے پڑھنے کا شوق رکھتا ہوں۔ (ایم اے ہاشمی آف گلگت، سولجر بازار، کراچی)
ج:بلاشبہ، اپنی ذات، قابلیت و صلاحیت سے متعلق آگہی بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
وسط فروری کا شمارہ سامنے ہے۔ اِس سے پہلے کچھ عرصہ ہم سافٹ کاپی سے استفادہ کرتے رہے، لیکن جو مزہ ہارڈ کاپی میں ہے، وہ سافٹ کاپی میں کہاں؟ ایک ہاتھ میں میگزین اور دوسرے میں چائے کی پیالی ہو، تو تب ہی اصل ماحول بنتا ہے، تنہائی سے لطف اندوز ہونے کا۔ وہ کیا ہے کہ ؎ اُن کی صُورت نظر آئے، تو غزل کہتے ہیں… پر، اب کہاں رہے جی یہ شاعرانہ خیالات، جب کہ بہ سبب ِمنہگائی، اب تو اُترن بھی میسّر نہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ کی کڑوی گولیوں نے سارا مزہ ہی کر کرا کر دیا۔ لیکن ’’سنڈے اسپیشل‘‘ نے لُطف دیا کہ ان جیسے عوامی مسائل سے ہم جیسی تیسری دنیا کی مخلوق ہی دو چار نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی ہم قدم ہیں بلکہ اخلاقی گراوٹ میں بڑھ کر ہی ہیں۔ یعنی کہ موقع ملا نہیں اور لُوٹ مار کا بازار گرم۔
’’مالِ مفت، دلِ بےرحم‘‘ مثل اِن جیسوں ہی پر صادق آتی ہے اور چلے ہیں دوسروں کو سبق پڑھانے۔ پہلےخُود تو شرافت کا سبق پڑھ لیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ نے پھر سے افسردہ کر دیا۔ کرنے والےاپنا وار کرجاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتا ہے، ایجینسیز کی کارکردگی پر بڑا سا سوالیہ نشان، ایکشن پلان کی تلاش گم شدگی کی رپٹ لکھوائیں جا جا کے تھانے میں۔ کیا پتا، کہیں پڑا سو رہا ہو، بے ہدایتا کہیں کا۔ کوئٹہ شہر ہی نہیں، ہمارے ہاں ہر ادارہ ہی از سرِ نو ماسٹر پلان کا متقاضی ہے۔ درست، بروقت فیصلےاور ان پر عمل… اپنی زندگی میں یہ بہار نہ جانے ہم دیکھ بھی پائیں گے۔ یا حسرتوں کے ساتھ ہی دفن ہو جائیں گے۔ ’’فیچر‘‘ بہت خُوب تھا۔ ڈاکٹر صاحب دلّی پہنچ چُکے ہیں اور ماضی میں سرگرداں ہیں۔
مُغلوں کی تاریخ پڑھتے ہوئے سازشی کہانیوں کا ایک باب سا کُھل جاتا ہے۔ تخت یا تختے کے لیے باہم دست و گریباں ہوتے عزیز رشتے، گلاب کا پھول سونگھتے بادشاہوں کی تصویریں دیکھتے، خیال آتا ہے کہ کیا گلاب اور گلاب رُتوں کو چاہنے والے اس قدر سنگ دل بھی ہو سکتے ہیں۔ اپنوں کی آنکھیں نکال دیں، طشتری میں رکھا کٹا سر دیکھ کر آسودگی حاصل کریں، نہ جانے اُن پھولوں میں اُنہیں خون کی مہک بھی محسوس ہوتی تھی؟ ہاں، چندن، صندل سے نہائے شاہ و شاہ زادوں، شہزادیوں اور ملکائوں پر واری صدقے ہونے والے عوام، عوام ہی رہے۔
زوال کوئی ایک دن کی کہانی نہیں، بلکہ اس کی بُنت بدلتے انسانی رویّوں کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ماڈلز سے متعلق واہیات قسم کے تبصرے بالکل پسند نہیں آئے۔ لوگ تو خادم ملک کی کھری کھری پر خُوب خُوب لتّے لیتے ہیں، تو اِن فضول باتوں پر کیوں کچھ نہیں بولتے۔ اس بار سالانہ تبصرہ بھی آپ کے حصّے میں آگیا، وگرنہ تو یہ کارِ خیر راجا بھائی انجام دیتے ہیں۔ آج کل کہاں ہیں؟ خیر تو ہے، کم کم نظر آرے ہیں۔ اور ہاں، اس ہفتے جو میری چٹھی شائع ہوئی ہے۔ وہ 25؍ اگست کو پوسٹ کی گئی تھی، جب کہ پھر کافی انتظار کے بعد یکم نومبر کو بھی ایک خط ارسال کیا تھا، پتا نہیں اتنی دیر کیوں ہوئی؟ (عشرت جہاں، لاہور)
ج:تاخیر کی وجہ اللہ جانے یا پاکستان پوسٹ، ہمیں تو یہ پتا ہے کہ خط نہ صرف تاخیر سے بلکہ خاصی کم تعداد میں بھی آرہے ہیں۔ یا تو لوگ اب اس سلسلے سے بھی اُکتا گئے ہیں یا پھر مُلکی معاشی و سیاسی صورت حال، ہوش رُبا منہگائی، ہر وقت کی دھینگا مشتی نے لوگوں کو کسی تعمیری کام کے قابل ہی نہیں رہنے دیا، اور اپنے محمّد سلیم راجا صاحب بھی اللہ جانے کہاں غائب ہو گئے ہیں۔ خط کے ساتھ کبھی فون نمبر بھی نہ لکھا کہ ہم کال کر کے ہی حال احوال دریافت کر لیتے۔ ویسے اُن کے خطوط کی کمی کچھ زیادہ ہی شدّت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ اللہ کرے کسی مصروفیت ہی کے سبب غیرحاضر ہوں۔
گوشہ برقی خطوط
* آپ سے بس دل کا رشتہ جُڑ گیا ہے، اس لیے وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ لکھ کر بھیجتی رہتی ہوں، خواہ وہ کوئی مختصر سی ای میل ہی کیوں نہ ہو۔ آپ سے ایک بات پوچھنی تھی کہ جب سال کے اور اہم تہواروں، ایّام وغیرہ پر ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کا صفحہ شائع ہوتا ہے، تو ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کے موقعے پر کیوں نہیں؟ ہم عام خواتین کا بھی دل چاہتا ہے کہ کوئی ہمیں، ہمارے دن پر مبارک باد دے اور کسی کو ہم وِش کریں۔ (فوزیہ ناہید سیال، لاہور)
ج: اوکے۔ بشرطِ زندگی، اگلےسال آپ کی اس خواہش کی تکمیل کی ضرور کوشش کریں گے۔
* آپ کے جوابات میں اکثر کوئی نہ کوئی سیاسی یات ہوتی ہے، تو پھر غیر جانب دارانہ بات کیا کریں۔ ہمیں ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کرپشن کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ اس مُلک کا یہ حال اِسی وجہ سے ہوا ہے کہ آپ صحافی لوگ حق اور سچ کا ساتھ نہیں دیتے۔ (سرمد حیات صدیقی)
ج: او بھائی! کون سا حق اور سچ ؟؟سچّی بات تو یہ ہے کہ ہم اندھی تقلید، اندھی پیروکاری کو گناہِ عظیم سمجھتے ہیں اور پچھلے چار سال میں جو زومبیز کی ایک نسل تیارہوئی ہے، اُس سے تو کسی بھی قسم کی بحث و تکرار، دلیل سے بات کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ہاں، اتنا ضرور کہیں گے کہ ایمان داری کے چیمپئن کی صرف کورٹ میں پیشی ہی کے موقعے پرجو سرکس لگتا ہے اور اس نام نہاد ’’ریاستِ مدینہ‘‘ میں لگاتار یہ دوسرا رمضان المبارک جس طرح سیاسی نحوست کی بھینٹ چڑھ رہا ہے، ماضی کے سارے کرپٹ ایک طرف اور آپ کے سُپر ہیرو ایک طرف۔ اچھا خاصا مُلک ایک رائٹ پاتھ، ٹریک پر چل رہا تھا، انوکھے لاڈلے نے کھیلن کو چاند مانگا اور وہ پلیٹ میں رکھ کے پیش کردیا گیا۔ آج پلیٹ بھی کِرچی کِرچی ہے اور چاند بھی پیروں تلے رُل رہا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر پچھلے سارے کرپٹ، نااہل تھے، تو یہ مہا کرپٹ، مہا نااہل ہیں۔ ہم نے نہ کبھی اُنہیں دیوتا کے منصب پر بٹھایا تھا، نہ عقل و شعور کے دروازے بند کرکے اِنہیں بٹھانے کو تیار ہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk