• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور ایرانی ہم منصب امیر عبدالبیان کی گزشتہ دنوں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ملاقات کو دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے کے حوالے سے ایک تاریخ ساز قدم قرار دیا جارہا ہے جس میں دونوں ممالک کے سفارتخانے کھولنے اور پروازیں دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق رائے ہوا۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ چین کی ثالثی کے نتیجے میں بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران نے سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے کا اعلان کیا جس نے امریکہ سمیت پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ حالیہ معاہدے اور سفارتی تعلقات کی بحالی کو مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور خطے میں امریکہ کے کردار کیلئے چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد جوبائیڈن انتظامیہ تنقید کی زد میں ہے اور کہا جارہا ہے کہ معاہدے کے نتیجے میں چین خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب ہوگیا ہے جس سے امریکہ کا خطے میں کردار محدود ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب، مشرق وسطیٰ اور اسلامی ممالک میں امریکہ کا ایک بڑا اتحادی سمجھا جاتا تھا مگر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے آنے کے بعد اب سعودی عرب میں بڑی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں اور سعودی عرب امریکی تسلط سے آہستہ آہستہ باہر نکل رہا ہے اور پہلے کی طرح امریکی ڈکٹیشن کا پابند نہیں۔ گزشتہ سال امریکہ، سعودی عرب تعلقات میں اس وقت کشیدگی دیکھنے میں آئی جب امریکی صدر جوبائیڈن کے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی صدر کا سعودی عرب سے تیل کی پیداوار میں اضافے کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں سعودی عرب چین سے اپنے تعلقات میں گرمجوشی لایا اور چین نے سعودی عرب اور ایران کو یہ باور کرایا کہ سعودیہ ایران کشیدگی دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں بلکہ امریکہ کے مفاد میں ہے جو دو اسلامی ممالک کے درمیان ’’تقسیم کرو اور اپنا تسلط قائم کرو‘‘ جیسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے بعد چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران نے تعلقات میں بحالی کیلئے یہ انتہائی مثبت قدم اٹھایا۔

ماضی میں سعودی عرب اور ایران خطے میں دوسرے مسلم ممالک شام ، یمن، لبنان اور لیبیا میں جاری تنازعات میں پارٹی بنے ہوئے تھے جس سے امریکہ اور اسرائیل فائدہ اٹھارہے تھے تاہم حالیہ پیشرفت سے ان ممالک میں جاری تنازعات بھی دم توڑ رہے ہیں جس کی حالیہ مثال یمن میں جنگ بندی اور جنگی قیدیوں کی رہائی، ایک خوش آئند امر ہے۔ دوسری طرف حالیہ معاہدے سے امریکہ کے مدمقابل خطے میں چین، روس، سعودی عرب اور دیگر ممالک پر مشتمل ایک نیا گروپ تشکیل پارہا ہے جس میں چین مرکزی کردار ادا کررہا ہے۔ چین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں فرانس کے صدر عمانویل میکرون نے چین کا دورہ کیااور چین کے صدر سے درخواست کی کہ چین، روس یوکرین جنگ رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ سعودیہ ایران سفارتی معاہدے کے پاکستان سمیت خطے میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان ہمیشہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان اچھے تعلقات نہ ہونے کے باعث آزمائش سے دوچار رہا ہے۔ تاہم حالیہ سعودیہ ایران معاہدہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور پاکستان بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ایران پر امریکی پابندیوں کے باعث کئی سالوں سے تعطل کا شکار ہے۔ ایران نے پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک بچھادی ہے لیکن مالی مشکلات کے باعث پاکستان اپنے حصے کی پائپ لائن بچھانے میں ناکام رہا ہے اور منصوبے پر تاخیر سے ایران خوش نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان، سعودی عرب اور چین کی مدد سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے جس سے نہ صرف پاکستان میں انرجی بحران پر قابو پایا جاسکے گا بلکہ پیٹرولیم مصنوعا ت پر انحصار بھی کم ہوگا۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ پیشرفت پاکستان اور بھارت کیلئے ایک سبق ہے۔ اس معاہدے سے عالمی برادری کا دونوں ممالک پر دبائو بڑھے گا کہ وہ بھی خطے میں امن کیلئے اپنے دیرینہ مسائل بالخصوص مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ اگر چین، ایران اور سعودی عرب کی دیرینہ دشمنی کو دوستی میں بدلنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے تو یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ خطے کے دو ایٹمی ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جس سے جنوبی ایشیاکا امن خطرے میں پڑا ہوا ہے اور ایٹمی جنگ کے خطرے کی تلوار برصغیر پر مسلسل لٹک رہی ہے، میں کمی اور دونوں ممالک کو قریب لانے میں اپنا اہم کردار ادا کرے۔سعودیہ ایران تعلقات کی بحالی کو ایک مثبت قدم قرار دیا جارہا ہے۔بلاشبہ چین نے وہ کام کر دکھایا ہے جس پر چینی قیادت مبارکباد کی مستحق ہے۔ حالیہ معاہدے کے نتیجے میں چین خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب ہوگیا ہے جبکہ امریکہ کا خطے میں کردار محدود ہوکر رہ گیا ہے جو یقیناًپاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔

تازہ ترین