• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

سب سلسلوں پر سبقت لے گیا

مجھے کچھ کہنا ہے، کچھ لکھنا ہے، کچھ لکھ رہا ہوں۔ مَیں بندۂ حقیر، پُرتقصیر، ہرہفتے سنڈے میگزین باقاعدگی سے پڑھتا ہوں، لیکن خط باقاعدگی سے نہیں لکھ پاتا۔ وجہ مصروفیت اور وقت کی کمی ہے اور گھر سے دُوری بھی۔ خیر، 12 تا 18فروری کاسنڈےمیگزین پڑھا۔ سب سےپہلے رُوح پرور سلسلے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے مستفید ہوا۔ محمود میاں نجمی کیا عُمدہ لکھتےہیں۔ تاریخِ اسلامی کے ضمن میں یہ ایک بہت اچھا سلسلہ ہے اور بڑی محنت و لگن سے لکھا جارہا ہے۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا ’’دہلی نامہ‘‘ بھی بہت خُوب ہے، غالباً سفرنامے کے ذیل میں اب تک کے تمام سلسلوں پر یہ سبقت لےگیا ہے۔ ’’اسٹائل‘‘ کےصفحات بھی عُمدگی سے مرتّب ہوتےہیں، مگراس شعبے سے میری کچھ خاص دل چسپی نہیں۔ 

ویسے اِس ہفتے کے جریدے کا سب سے اچھا مضمون افشاں مُراد کا سفرِ عُمرہ سے متعلق مضمون تھا، جو بعنوان ’’مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ‘‘ شائع ہوا، بخدا تحریر نے رُلادیا۔ آنسوؤں کی ایک جھڑی آنکھوں سے جاری تھی اور پورا مضمون پڑھتے دل میں بس ایک ہی تڑپ اور کسک تھی کہ اے کاش، پھر حاضری کی اجازت ملے۔ اے کاش، پھر حاضری کی اجازت ملے۔ ڈاکٹر قمر عباس کی حمدِ باری تعالیٰ نے بھی رُوح جھنجھوڑ دی۔ کچھ عرصے سے شبینہ گل انصاری کی کوئی تحریر نظر نہیں آرہی، خیریت تو ہے۔ آخر میں میری تمام لکھنے والوں سے دست بستہ درخواست ہے کہ کوشش کیا کریں کہ اپنے مضامین میں انگریزی اور ہندی کےالفاظ کم سےکم استعمال کریں۔ ہمیں اپنی مادری زبان کی ترویج و اشاعت پر توجّہ دینی چاہیے۔ (ایم عبدالرئوف، ایچ بی ایل، ایل ڈی اے پلازا، ایجرٹن روڈ، لاہور)

ج:ہمارے خیال میں تو خُود رانجھا صاحب بھی ایسی پذیرائی کی توقع نہیں کررہے ہوں گے، کیوں کہ جب انہوں نے سفرنامہ بھیجا، تو وہ کچھ اتنے خاص پُرجوش نہیں تھے۔ ایک بار ہم سے تذکرہ کر کے خاموش ہو بیٹھے۔ ہم نے ہی کچھ عرصے بعد یاد دہانی کروائی، تو وہ طوعاً و کرہاً بھیجنے پر آمادہ ہوئے۔ اور یہ شبینہ گل انصاری کب ہماری اتنی ریگولر لکھاری ہوئی تھیں کہ آپ کو اُن کی کمی ہی محسوس ہوگئی؟

اُن کی صُورت نظر آئے تو…

18فروری کے فیشن کے صفحات پر ماڈل عبادت چوہدری کے ملبوسات سے متعلق آپ کی خُوب صورت و دل نشین تحریر پڑھ کر اندازہ ہوا کہ آپ کا ذوقِ شعری بھی نہایت اعلیٰ، ستھرا، نکھرا ہے، ماشاء اللہ اُردو ادب پر آپ کی گہری نظرہے۔ رائٹ اَپ کی آخری سطروں میں آپ نے لکھا کہ ’’اُن کی صُورت دیکھ کر جو بھی غزل ہو جائے، وہ آپ، ہم سے بھی شیئرکرسکتے ہیں۔‘‘ تو ایک غزل نذرِ جنگ، سنڈے میگزین کر رہا ہوں، اِس میں آپ کو حُسن و عشق کی رعنائیاں تو نہیں، مگر جمالیاتی جِھل مِل ضرور محسوس ہوگی۔ (حامد علی سیّد، نارتھ کراچی، کراچی)

ج: ہاہاہا… کبھی کبھی بڑا دل چاہتا ہے کہ اے کاش! پرنٹ میڈیا پر بھی تحریر کے ساتھ ایموجیز کے استعمال کا رواج عام ہو۔ ماشاء اللہ آپ کی فرماں برداری تو لائقِ صد ستائش ہے، ہماری طرف سے ایک سیلوٹ قبول فرمائیے، ہم نے تو بس بات برائے بات ایک جملہ لکھ ڈالا تھا، زہے نصیب، آپ تو پوری غزل ہی لکھ لائے ہیں۔ خیر، صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی انچارج کے سپرد کردی ہے۔ شاعرِ محترم، اختر سعیدی نے یہ ’’جمالیاتی جِھل مِل‘‘ پاس کردی، تو شائع بھی کردیں گے۔

رُوح کی گہرائیوں میں…

قوی اُمید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ اللہ جل شانہ، وطنِ عزیز کو ہر قسم کے خطرات اور دہشت گردی سے محفوظ رکھے۔ محمود میاں نجمی کا معلومات افزا سلسلہ رُوح کی گہرائیوں میں اُتر رہا ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کے تجزئیات کا جواب نہیں ہوتا۔ موصوف اپنے تیئں تعلیم و تربیت کی بھرپور سعی کرتے ہیں، مگر یہ قوم اتنی آسانی سے کہاں سدھرنے والی ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال اہم موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ شفق رفیع اور رائو محمّد شاہد دونوں ہی کی متنوّع موضوعات پر گرفت کا جواب نہیں۔ ’’متفرق‘‘ کےتحت بھی اچھی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔’’ناقابل فراموش‘‘ کے واقعات اور ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی کہانیاں، پیارا گھر کے مضامین، ڈائجسٹ کے افسانے سب ہی ہمارے دل کے بہت قریب ہیں۔ (مبارک علی ثاقب، راول پنڈی)

ج: آپ کا یہ خط کوئی چھے ماہ پُرانا ہے، یا تو آپ لوگ خود پوسٹ کرنا بھول جاتے ہیں یا محکمہ ڈاک ہم تک پہنچانا۔ بہرحال، محض رسید دینے کی خاطر آپ کے مندرجات جنرلائز کرکے شائع کیے دے رہے ہیں۔

تین صفحات ضایع کردیئے

ڈیئر نرجس جی! کیسی ہو۔ تمہارا شکریہ کہ تم نےمیرا خط شائع کردیا۔ نئی کتابوں پر اختر سعیدی کا تبصرہ بہت متوازن اور منصفانہ ہوتا ہے، سب کو برابر کی جگہ دیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں میری رائے یہ تھی کہ اگر کتاب کے پتے کےساتھ فون نمبر بھی لکھ دیا کرو، تو کتاب منگوانے کےلیےخط لکھنا نہیں پڑے گا،فون پر رابطہ کرکے آن لائن بھی منگوائی جاسکےگی۔ ہمایوں ظفر کے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی تعریف نہ کرنازیادتی ہوگی۔ڈاکٹراحمدحسن رانجھا کا دہلی کا سفرنامہ گھر بیٹھے دہلی کی سیر کروا رہاہے، اِس نے تو مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں کی یادتازہ کردی۔سماجی انصاف سےمتعلق رائو محمّدشاہدکا مضمون پڑھا،بھائی! سماجی انصاف اب دنیا میں رہ کہاں گیا ہے۔ گھروں سے دفاتر اور حکومت سے عوام تک سماجی ناانصافی ہی کا دَور دورہ ہے۔ 

زبانوں کے ایشو نے مُلک میں بہت لسانی فسادات برپاکیےہیں، اِس دقیانوسی موضوع پر میگزین کے تین قیمتی صفحات ضائع کرنا بڑی زیادتی ہےاور تمہارے انتخاب اسرار الحق مجاز کی چھوٹی سی نظم کے خُوب صورت رومانی اشعار نے کالج لائف یاد کروا دی۔ اتنی دل نیشن تحریر پر تمہاری بلائیں لے لیں۔ سیاسی انٹرویوز اور مضامین سے معذرت، سب اوپر سے گزرجاتے ہیں، تُرکیہ اور شام کے قیامت خیز زلزلوں پر پروفیسر سیماناز اور ڈاکٹر سمیحہ راحیل کے مضامین نے دل بہت اُداس کر دیا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر اپنا رحم فرمائیں۔ ڈاکٹر صاحبہ مسلمان خواتین کی رول ماڈل ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مدینہ منوّرہ کی گیارہویں قسط پڑھی، جنگِ بدرکے واقعات اتنے خُوب صُورت انداز میں لکھےگئےتھے کہ یوں لگا کہ ہم خُود بھی جنگ میں شامل ہیں۔

حضرت خدیجہؓ کے ہار کے واقعے نے آنکھیں نم کردیں۔ اللہ تعالیٰ بزرگ محقّق، محمود میاں نجمی کی عُمر میں برکت اور اُن کی تحقیقات، عرق ریزی کاصلہ دین و دنیا دونوں میں عطا فرمائے۔ راول پنڈی کے مبارک علی ثاقب اور شبینہ گُل انصاری نے نجمی صاحب کی تحریروں کو میگزین کے سر کا تاج قرار دیا، اگر پروفیسر منصور پاکستان میں ہوتے، تو بڑے خوش ہوتے۔ پروفیسر صاحب! دنیا کے کسی بھی کونے میں اگر آپ میگزین پڑھ رہے ہیں، تو پلیز، ہم سب آپ کے محبّت بھرے خطوط کا بڑی شدّت سے انتظار کررہے ہیں، اپنی خیریت سے ضرور مطلع فرمائیں۔ (شاہدہ تبسم، کراچی)

ج: آپ جیسی صاحبِ علم خاتون کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ ’’ایک دقیانوسی موضوع پر تین صفحات ضائع کردئیے۔‘‘ آپ نے غالباً تحریر پڑھے بغیر ہی یہ رائے قائم کی اور ہم تک پہنچا بھی دی۔ یہ زبانیں، بولیاں ہی تو درحقیقت ہماری شناخت، پہچان ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو زبانوں کا عالمی یوم کیوں منایا جاتا۔ دنیا سے معدوم ہوتی زبانوں کے تحفّظ کی کوششیں کیوں کی جاتیں۔ کیا آپ کو اپنی ماں بولی سے (وہ زبان جس میں آپ کی ماں سب سے پہلے آپ سے مخاطب ہوئی) قدرتی، فطری لگائو، محبّت نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ بڑی حیران کُن بات ہے۔ گرچہ ہماری رابطے کی زبان اُردو ہے، لیکن پنجابی سے ہمیں الگ ہی عشق ہے کہ ہماری ماں، ہم سے اِسی زبان میں بات کیا کرتی تھیں۔

بے چینی سے انتظار

اُمیدہےکہ آپ اورآپ کی ٹیم بخیر ہوگی۔ ’’سرچشمہ ہدایت‘‘ میں محمود میاں مدینہ منوّرہ کی تاریخ تفصیلاً فراہم کررہے ہیں۔ ہر قسط کا بہت بےچینی سےانتظاررہتاہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور راجپوت نے بلدیاتی انتخابات پر روشنی ڈالی۔ ’’گفتگو‘‘ میں رئوف ظفر، ڈاکٹر جاوید اقبال سے فکرانگیز گفتگو کرتے نظر آئے۔ رائو محمّد شاہد نوجوانوں کے مُلک چھوڑ کر بیرونِ ملک جا بسنے کی وجوہ بتا رہے تھے۔ ’’یوم یک جہتیٔ کشمیر‘‘ پر عُمدہ مضمون پیش کیا گیا۔ ’’حالات واقعات‘‘ میں سوال تھا کہ ’’پاکستان کی معاشی حالت کیسے بدلے گی؟‘‘ اور اِس کا جواب بھی بہت ہی مدلّل انداز میں دیا گیا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے آغا جان کی5 فروری سے متعلق یادداشتیں شیئر کیں۔

’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے30روپے میں دہلی کی خوب سیر کروائی۔ ’’رپورٹ‘‘ میں عرفان صدیقی کی ایک غزل بہت پسند آئی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں مدثر اعجاز نے ’’ایک تولے کی خوشی‘‘ کے عنوان سے اور قانتہ رابعہ نے بھی اچھا افسانہ لکھا۔ ذکی طارق بارہ بنکوی کی غزل اچھی تھی اور ’’کشمیر، ہماری شہہ رگ‘‘ محبوب حیدر سحاب نے بھی اچھی منظرکشی کی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات پُراثر تھے۔ کوئٹہ مرکز کی منجھی ہوئی فن کارہ شائستہ صنم کی بات چیت سے بھی لُطف آیا۔ ’’متفرق‘‘ میں نیلم احمد نے کشمیر کے حوالے سے اچھی تحریر لکھی، تو ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عبدالعزیز میمن نے سرطان سے متعلق بہترین معلومات فراہم کیں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

کمال کی گفتگو

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کی موجودگی دل کو بہت سُکون دیتی ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اور پروفیسر سیما ناز صدیقی کے مضامین بہت پسند آئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ٹھیک ہی فرما رہے تھے کہ عوام سُدھریں گے، تو ہی مُلک سُدھرے گا۔ حمّاد غزنوی کو ہم اکثر جنگ میں کالم نگار کی حیثیت سے تو پڑھتے رہتے ہیں، آج اُن کی خُوب صُورت گفتگو بھی پڑھنے کو مل گئی۔ کیا کمال کی گفتگو کی، مزہ آگیا۔ ’’ماں بولی‘‘ پر منور راجپوت نے بہت اچھی رپورٹ تیار کی ہے۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کے ’’دہلی نامہ‘‘ کا تو کوئی مول ہی نہیں اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ہومیو ڈاکٹرایم شمیم نوید کےچارقصّے بہت ہی اچھے لگے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

خطّاطی کے لیے وقف صفحہ؟

مَیں گلگت کا باشندہ ہوں اور یہاں سولجر بازار کراچی میں عرصےسےرہائش پذیر ہوں۔ میری تعلیم بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ مَیں یہ خط آپ سے صرف یہ پوچھنے کے لیے لکھ رہا ہوں ہے کہ کیا آپ کے میگزین میں خطّاطی کے لیے کوئی صفحہ یا سلسلہ وقف ہے، جس میں، مَیں بھی شریک ہو سکوں۔ پلیز، جواب دے کر ممنون فرمائیں۔ خط کے ساتھ ایک چھوٹا سا مضمون بھی ارسالِ خدمت ہے، قابلِ اشاعت ہو، توشایع کر کے شکریے کا موقع دیجیے گا۔ (ایم اے ہاشمی، سولجر بازار، کراچی)

ج: جی، باقاعدہ طور پر کوئی صفحہ یا سلسلہ مختص تو نہیں ہے، لیکن ہم وقتاً فوقتاًخطّاطی سے متعلقہ مضامین یا انٹرویوز کی اشاعت کا اہتمام کرتے رہتے ہیں، اور ساتھ خطّاطی کے مختلف نمونے وغیرہ بھی شایع کیے جاتے ہیں۔ آپ کی تحریر بھی لائقِ اشاعت ہوگی، تو ضرور شامل کر لی جائے گی۔

                                  فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

محمود میاں نجمی ’’مدینہ منوّرہ‘‘ عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک …‘‘ کی گیارہویں قسط کے ساتھ سنڈےمیگزین میں چھائےہوئےتھے۔ کیا خُوب صُورتی سےبتایا کہ پیارےآقامحمّد مصطفیٰﷺ کی زندگی کے تمام پہلو اور ارشادات محفوظ ہیں اور تمام انسان آپؐ کے مکارمِ اخلاق ہی کی تقلید کرکے معاشرے کو صحیح راہ پرگام زن کرسکتےہیں۔ ترکیہ اور شام کے زلزلوں نے انسانیت کو لرزا کر رکھ دیا۔ واقعی، ہم اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے ساتھ اب نہیں کھڑے ہوں گے، تو کب کھڑے ہوں گے کہ اُمّتِ مسلمہ ’’جسدِ واحد‘‘ کی مانند ہے۔ قلم بھی کانپ اُٹھتاہے، تباہی و بربادی کے مناظر قلم بند کرتے ہوئے۔

ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اور پروفیسر سیما ناز صدیقی سب کچھ کیسے ضبطِ تحریر میں لائیں، اُن ہی کا حوصلہ ہے۔ یہ بھی کتنابڑاالمیہ ہے کہ مُملکتِ خدا داد پاکستان میں فلاسفر، سائنس دان، دانش وَر، مصنّف، ڈاکٹر، انجنیئر، حکیم، عالم، فاضل، مصوّر،شاعراور لگ بھگ ہرشعبےکےماہرین موجود ہیں، مگر مجموعی معاشرتی حالات سدھرنے کے بجائے روز بروز تنزّلی ہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ دردِ دل رکھنے والے لکھاری، منور مرزا کے مضمون کا نچوڑتھا کہ ہم اخلاصِ نیّت ہی سے مُلک کی تعمیر و ترقی میں کچھ حصّہ ڈال سکتے ہیں اور معروف کالم نگار، حمّاد غزنوی سے فکر انگیز مکالمہ یہ باور کروا گیا کہ ہم علم دوست، کتاب دوست، امن دوست اور انسان دوست بن کر ہی معاشرے میں کچھ پھول کِھلا سکتے ہیں کہ جہالت کے سمندر سے علم کا ایک قطرہ اور علم کے سمندر سے عمل کا ایک قطرہ بہتر ہوتا ہے۔ 

ماڈل ہو حوریہ جیسی اور قلم ہو نرجس ملک کا، تو الفاظ تو مُسکراتے، گنگناتے، پھول بکھیرتے ہی چلے جاتے ہیں اور پھر سیدھےدل میں بھی اُترتے ہیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں منفرد قلم کار، منور راجپوت نے مادری زبانوں کے عالمی یوم پر بہت زبردست رپورٹ قلم بند کی۔ بلاشبہ، مختلف علاقوں میں مروّج زبانیں ہماری تہذیب و روایات کاحُسن ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں اسپیشل لکھاری، رائو محمّد شاہد اقبال ’’سماجی انصاف: ہر جگہ، ہر ایک کے لیے‘‘ کےعنوان سے آئے اور درسِ محبّت دے گئے کہ جو خُوشی دوسروں کو دینے میں ہے، وہ اوروں سے لینے میں نہیں۔ ’’دہلی نامہ‘‘ کی دسویں قسط کےساتھ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا اندرا گاندھی کے زیرِ استعمال چیزوں کو بذاتِ خود دیکھ آئےاورہم سےبھی معلومات شیئرکیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ایم شمیم نوید’’گدڑی کےلعل‘‘ کے ذریعےسمجھا گئے کہ خُوشیاں بانٹنے ہی سے ملتی ہیں۔ اختر سعیدی کو بھی اللہ نے بڑی بردباری، عقل و عرفان عطا کر رکھا ہےکہ کیا مہکتے الفاظ اوراق کے سینے پر بکھیرتے ہیں۔ اورجب بھی جھڈو کا نام سربلندہوتا ہے، تو ہمارا سرفخر سےخُود بخود بلند ہوجاتا ہے۔ اس بار نورالہدی محمّد اسلم ’’آپ کا صفحہ‘‘میں جگمگا رہی تھیں، تو بےاختیار ہی لبوں پر آگیا، ’’کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج: چلیں، ماشاء اللہ، آج تو ’’جھڈو ‘‘ کا نام آپ کے سبب روشن ہوا ہے، تو آج تو آپ کا پُورے شہر میں سر اُٹھاکے چلنا بنتا ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں نے دیکھا ہے کہ اگر کوئی تحریر میرٹ پر پوری اُترتی ہو، تو آپ لوگ بِنا کسی پرچی کے شائع کر دیتے ہیں۔ اِسی خیال سے اپنی ایک تحریر بھیج رہی ہوں اور اُمید رکھتی ہوں کہ مناسب لگی تو باری آنے پر ضرور شائع کردیں گی۔ (فرح فضل)

ج: جی، اگر قابلِ اشاعت ہوئی تو ضرور شائع کر دی جائے گی۔

* میگزین شان دار ہے۔ کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ بس پلیز، ایک فرمائش پوری کردیں۔ ممکن ہو تو حبا بخاری اور عاریز احمد کا بھی انٹرویو کروائیں۔ (خالدہ علی، لاہور)

ج: کوشش کرکے دیکھتے ہیں۔ وگرنہ عمومی فن کاروں کا آج کل ایک ہی سوال ہوتا ہے ’’Pay کتنا کریں گے؟‘‘اور یہاں حال یہ ہے کہ ورکرز کو 3، 3ماہ سے تن خواہیں نہیں مل رہیں تو ہم اِن اداکاروں کو کہاں سے پےکریں۔

* 26 فروری کا جریدہ پڑھ کے دل ہی خُوش ہوگیا۔ ایک چھوٹی سی زنبیل میں کیا کچھ نہیں تھا۔ اسٹائل، پیارا گھر، ڈائجسٹ، کچھ توجّہ اِدھر بھی۔ خصوصاً اب ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پڑھ کر تو بہت ہی لُطف آرہا ہے۔ ویسے میرے دو خط اور دو تحریریں آپ کی پائپ لائن میں ہیں، پلیز مناسب لگیں تو شائع کردیں۔ (ثناء توفیق خان، ماڈل کالونی، کراچی)

ج: آپ کی تحریریں قابلِ اشاعت ہوں گی، تو باری آنے پر ضرور شائع ہوجائیں گی اور خط تو شاید شامل ہو بھی چُکے ہیں۔

* زمانۂ طالب علمی سے روزنامہ جنگ اور ’’سنڈے میگزین‘‘ کا قاری اور فین ہوں۔ مگر ستم ظریفی دیکھیے، ملازمت کے سلسلے میں میرا تبادلہ بنّوں ہوگیا ہے اور یہاں ہر جگہ پتا کروالیا، مگرجنگ اخبار دست یاب نہیں ہے۔ براہِ مہربانی متعلقہ شعبے تک میری شکایت پہنچا دیں کہ میرا جنگ اخبار کے بغیر گزارہ بہت مشکل ہے۔ (ڈاکٹر حیدر داوڑ، بنّوں)

ج: ڈاکٹر صاحب! آپ کی شکایت متعلقہ شعبے تک پہنچا دی ہے۔ اور جب تک آپ کی شکایت دُور نہیں ہوتی، ہماری درخواست ہے کہ آپ جنگ اخبار کے انٹرنیٹ ایڈیشن سے استفادہ کریں۔ ہمارے بیرون مُلک اوراُن تمام علاقوں میں مقیم بیش تر قارئین، جہاں تک جنگ اخبار نہیں پہنچ پاتا، ہمارے انٹرنیٹ ایڈیشن ہی سے استفادہ کرتے ہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk