• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکلوتے بیٹے، بھانجے، بھتیجے کی یاد خون کے آنسو رُلاتی ہے

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

بلاشبہ، دنیا کا سب سے زیادہ اخلاص سے پُر رشتہ ایک ماں کا اپنی اولاد سے ہے۔ اس اَن مول رشتے کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہر ماں اپنی اولاد سے ٹُوٹ کر محبت کرتی ہے۔ اولاد کی چھوٹی سی چھوٹی تکلیف پر تڑپ اٹھنے والی اس ماں کا اگر کوئی لختِ جگر اچانک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داغِ جدائی دے جائے، تو بس پھر تو وہ جیتے جی مرجاتی ہے۔ اس ماں کی ذہنی حالت، بے چینی و بے قراری کا اندازہ صرف وہی لگاسکتا ہے، جو خود اس کرب سے گزرا ہو۔ 

مَیں گزشتہ چار برس سے اپنے اکلوتے بیٹے عمّارکی یاد میں روز جیتی، روز مرتی ہوں، جو ایک جانکاہ حادثے کا شکار ہوکرعالم ِشباب میں اپنے رب سے جا ملا۔ 28جولائی 2019ء کو مخالف سمت سے آنے والے تیز رفتار ڈمپر کی لاپروائی کے نتیجے میں پیش آنے والے اس الم ناک حادثے میں میرے بیٹے کے ساتھ اس کے دو کزنز بھی شدید زخمی ہونے کے بعد داعئ اجل کو لبّیک کہہ گئے۔ یہ دل خراش واقعہ تحریر کرتے ہوئے میرا قلم تھرتھرارہا ہے، میری ہر وقت نم رہنے والی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری ہیں اور بڑے حوصلے کے ساتھ یہ داستان غم رقم کررہی ہوں۔

واہ کینٹ، لالہ زار کالونی میں ہم چار بہنیں رہائش پذیر ہیں۔ قریب ہی دوسری کالونی میں میرے دو بھائی بھی رہتے ہیں۔ میرے بچّوں اور بہن، بھائیوں کے بچّوں کی عُمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ بیٹیاں بڑی اور بیٹے چھوٹے تھے۔ چار بیٹیوں کے بعد میرا اکلوتا بیٹا، عمّار پیدا ہوا۔ میرے تمام بہن، بھائیوں کے بچّوں میں بے حد پیار اور انس و محبت تھی۔ بڑی بہن کے بیٹے وقار، بڑے بھائی کے بیٹے بلال، چھوٹی بہن کے بیٹے حسّان اورمیرے لاڈلے عمّار کے درمیان یک جان چار قالب کے مانند انتہائی خلوص ومحبّت کا رشتہ تھا۔ چاروں صوم و صلوٰۃ کے پابند اور والدین کے فرماں بردار تھے۔

سب مل جل کر اکٹھے رہتے، ایک ساتھ کھاتے پیتے اور کھیلتے۔ خصوصاً چھٹی کے روز پورے دن اکٹھے گزارتے۔ کبھی میرے گھر کبھی دوسری خالہ کے گھر اور کبھی ماموں کے گھر اکٹھے ہوکر خوشیاں کشید کرتے تھے۔ اُن کی ایک دوسرے سے والہانہ محبت،یک جہتی، ایثار اور محبت دیکھ کر ہمیں بھی بہت خوشی ہوتی۔ اسی پیار و محبّت کے ماحول میں اُن کا بچپن گزرتا رہا، وقت کا پنچھی اُڑتا رہا اور سب بچّے جوانی کی حدود میں داخل ہوگئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی محبت بھی پروان چڑھتی گئی۔ ان چاروں کا گروپ ایک ایسا اتحادی گروپ تھا، جس میں کسی پانچویں کی گنجائش نہیں تھی۔ 

تعلیمی مراحل سے فراغت کے بعد چاروں کو اپنے اپنے نصیب کے مطابق ملازمت بھی مل گئی۔ جس سال میرے بیٹے عمّار کو ملازمت ملی، اسی سال کے آخر میں میری جواں سال بیٹی مختصر علالت کے بعد اچانک انتقال کرگئی۔ جوان بچّی کا صدمہ کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ گھر کی فضا سوگ وار ہوگئی، وقت کے ساتھ ساتھ اُداسیوں کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے۔ مجھے ایک پَل چین نہ آتا تھا۔ میرا بیٹا بھی بہن کو یاد کرکے دن رات تڑپتا رہتا۔ اسی صدمے میں ڈھائی سال گزر گئے، لیکن بیٹی کی جدائی کا غم بُھلائے نہیں بُھولتا تھا، پھر خاندان کے کچھ لوگوں کے مشورے پر مَیں نے اپنے بیٹے کی شادی کردی کہ بہو کے آجانے سے گھر میں رونق ہوجائے گی اور ہمارا غم بھی کم ہوجائے گا۔

بہو کے آتے ہی گھرکی رونق بحال ہوگئی اور اللہ نے مجھے پانچ سال کے اندر اندر دو پوتوں سے نواز دیا۔ اب میرا غم کافی حد تک کم ہوچکا تھا۔ ایک بار پھر میرا گھر خوشیوں کا مسکن بن گیا۔ میرا بیٹا حسّاس طبیعت کا مالک، خلوص و محبت کا پیکر اور اپنے اعلیٰ اخلاق کی بدولت خاندان سمیت اپنے دوستوں میں منفرد مقام رکھتا تھا۔ ماں، باپ اور بیوی، بچّوں کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف پر تڑپ جاتا تھا۔ اُس نے چھوٹی سی عُمر میں ہماری خُوب خدمت کی۔ شادی کے بعد بیوی، بچّوں کے فرائض بھی احسن طریقے سے انجام دیتا رہا۔ میری بہو کالج میں لیکچرار تھی۔

ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنے میکے لاہور چلی جاتی تھی اور کالج کُھلنے سے ایک ہفتہ پہلے گھر آجاتی تھی۔ اُس سال بھی حسبِ معمول وہ لاہور گئی ہوئی تھی۔ جولائی کےتیسرے ہفتے میرا بیٹا اُسے گھر لانے کے لیے لاہور گیا، مگر وہ بوجوہ اس کے ساتھ تو نہ آسکی، لیکن اگلے ہفتے اپنے بھائی ساجد کے ساتھ آگئی۔ میرا بیٹا دو ماہ بعد اپنے بچّوں کو دیکھ دیکھ کر نہال ہورہا تھا اور مَیں اپنے بیٹے کو خوش ہوتا دیکھ کر باغ باغ ہورہی تھی۔ ہفتے کی صبح اُس کے سالے، ساجد نے لاہور جانے کا ذکر کیا، تو بیٹے نے یہ کہہ کر اُسے روک لیا کہ ’’کل میرے کزن بلال کی منگنی کی رسم ہے، آج شام ہم سب کزنز ایک ہوٹل میں اکٹھے ہوں گے، بلال کے ساتھ خوب شغل رہے گا اور آپ کی سب سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔‘‘ 

اس کے پُرخلوص انداز سے روکنے پر اُس کا سالا رُک گیا۔ ہفتے کا دن گزرگیا اور رات ڈھل گئی۔ رات کے دس بجے اس کے کزنز کے فون آنا شروع ہوگئے۔ سب بے چینی سے اس کے منتظر تھے اور اُسے بلارہے تھے۔ میرے بیٹے عمّار نے میری طرف دیکھتے ہوئے اجازت طلب کی، تو مَیں نے دُعائیں دیتے ہوئے مُسکرا کر ’’اللہ حافظ‘‘ کہا۔ بیٹے نے جاتے ہوئے دوبار میری طرف مُڑکر دیکھا اور ہاتھ ہلاتے ہوئے مُسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ کاش! مجھے معلوم ہوجاتا کہ یہ اُس کی زندگی کی آخری مُسکراہٹ ہے، تو میں اُس کے قدموں سے لپٹ جاتی، لیکن یہ راز کب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظاہر کرتا ہے۔ 

وہ ساجد کے ساتھ ہوٹل پہنچا، تو سب موجود تھے، مگر حسّان کسی وجہ سے لیٹ ہوگیا تھا۔ رات کے ایک بجے حسّان ہوٹل پہنچا، پھر رات ڈھائی بجے کھانے پینے اور گپ شپ کے بعد ہوٹل سے فارغ ہوکر سب گھر کے لیے روانہ ہونے لگے، ہوٹل سے نکلے تو ساجد نے ان کی دوستی، خلوص و محبت اور اپنائیت کی بہت تعریف کی۔ میرے بھانجے وقار نے برملا جواب دیا،’’ساجد بھائی! ہم نے بڑی محبّت کے ساتھ اپنا بچپن گزارا ہے اور الحمدللہ، اب بھی بڑی محبّت سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں جنّت میں بھی ایک ساتھ اکٹھا رکھے۔‘‘ اوپر والا سُن رہا تھا اور شاید اُن کی دُعا کو قبولیت کی سند دے چکا تھا۔

ہوٹل سے باہر آکر حسّان اپنی گاڑی اور باقی تینوں میرے بیٹے کی گاڑی میں سوار ہوگئے۔ ابھی دونوں گاڑیاں گھر کی طرف روانہ ہی ہوئی تھیں کہ مخالف سمت سے آنے والے ایک تیز رفتار ڈمپر نے بے قابو ہوکر بیٹے کی گاڑی کو اتنی زور سے ہٹ کیا کہ آناً فاناً گاڑی کا کچومر نکل گیا، اندر بیٹھے تین بچّوں کو سانس لینے کا بھی موقع نہ ملا اورایک لمحے میں میرا معصوم بھتیجا، بھانجا اور میرا لختِ جگر زندگی کی بازی ہار گئے، جب کہ ساجد اللہ کے حکم سے بچ گیا۔ حادثے کے بعد حسّان نے بڑی ہمّت اور حوصلے سے کام لیا اور فون پر سب کو اطلاع دی۔

یہ رُوح فرسا خبر میری سماعتوں سے ٹکرائی تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ سر گھوم گیا، دل اس خبر کو کسی طور بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ وہ شب ہم پر بہت بھاری گزری۔ ایک ساتھ تین گھروں میں قیامت برپا ہوچکی تھی۔ میں مکمل طور پر ہوش و حواس کھو بیٹھی تھی، پھٹی پھٹی آنکھوں سے گھر میں آنے جانے والوں کو دیکھ رہی تھی۔ میری بہنیں دیوانہ وار اپنے بیٹوں کو پُکار رہی تھیں، آنسوؤں کے دریا بہادیئے، لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اتوار کو عصر کے بعد میرے بھتیجے بلال کی منگنی تھی اور عین اُسی وقت بلال اور بھانجے وقار کا جنازہ اٹھایا گیا۔ یہ ایک قیامت خیز منظر تھا، ہر کوئی جواں موت پر خون کے آنسو رو رہا تھا۔ 

میرے بیٹے کا جنازہ پیر کے روز گیارہ بجے اُٹھایا گیا، کیوں کہ اُس کی بہن کو کویت سے آنا تھا۔ وہ پہنچی اور بھائی کو جی بھر کے دیکھا بھی نہ تھا کہ جنازہ اٹھالیا گیا۔ میری بہو عدّت پوری کرکے اپنے بچّوں کولے کر میکے چلی گئی۔ یہ میری دوسری بڑی آزمائش تھی۔ بچّوں کے دُور ہونے سے ہمارے زخم اور گہرے ہوگئے۔ گھر میں اُداسیوں کے سائے بڑھ گئے۔ بیٹے کی جدائی کے صدمے نے ہماری کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ میرا بیٹا میرا سرمایۂ حیات تھا، اُسے دیکھ دیکھ کر جیتی تھی۔ اب اُس کے جانے کے بعد احساس ہوا کہ وہ اکیلا تو نہیں تھا، اُس کے ساتھ تو ایک دنیا تھی، وہ میرے دل کا چین و قرار تھا، میری آنکھوں کا نور تھا۔ میرے پاس اب صرف اُس کی یادوں کے چراغ رہ گئے ہیں، جو میں شام و سحر جلاتی ہوں اور رب العزت سے یہی دعا مانگتی ہوں کہ ہمیں صبر و قرار کی توفیق کے ساتھ میرے بھانجے، بھتیجے اور بیٹے کی لحد پہ کروڑوں رحمتوں کا نزول فرما کر انھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔(آمین) (والدہ، عمّار احسن، لالہ زار، واہ کینٹ)