چین نے شرح پیدائش میں مسلسل کمی کے پیشِ نظر والدین کو مالی امداد فراہم کرنے کا نیا منصوبہ متعارف کروا دیا، جس کے تحت تین سال سے کم عمر بچوں کے والدین کو سالانہ 3 ہزار 600 یوان (تقریباً 500 امریکی ڈالر) فی بچہ دیے جائیں گے۔
چینی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ یہ پہلا قومی سطح کا وظیفہ ہے جس کا مقصد آبادی میں تیزی سے آتی کمی کو روکنا اور نئی نسل کی افزائش کو فروغ دینا ہے۔
یہ اسکیم ملک بھر میں تقریباً 2 کروڑ خاندانوں کو بچوں کی پرورش کے اخراجات میں سہولت فراہم کرے گی، اسکیم 2024ء کے آغاز سے نافذ العمل سمجھی جائے گی اور 2022ء سے 2024ء کے درمیان پیدا ہونے والے بچوں کے والدین بھی جزوی سبسڈی کے لیے درخواست دے سکیں گے۔
مارچ میں چین کے شمالی شہر ہوہوٹ نے تین یا اس سے زائد بچوں والے خاندانوں کو فی بچے ایک لاکھ یوان (تقریباً 14 ہزار امریکی ڈالر) دینے کا اعلان کیا تھا۔
چین کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کی پرورش کے اخراجات سب سے زیادہ ہیں، یووا پاپولیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق چین میں ایک بچے کو 17 سال کی عمر تک پالنے پر اوسطاً 75 ہزار 700 امریکی ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2024ء میں چین کی آبادی مسلسل تیسرے سال کم ہوئی، گزشتہ برس ملک میں 9.54 ملین بچے پیدا ہوئے، جو اگرچہ پچھلے سال کے مقابلے میں معمولی اضافہ تھا لیکن کل آبادی میں کمی کا رجحان برقرار رہا۔
چین کی 1.4 ارب آبادی اب ناصرف کم ہو رہی ہے بلکہ تیزی سے عمر رسیدہ بھی ہو رہی ہے، جو بیجنگ کے لیے ایک بڑا سماجی و معاشی چیلنج بنتی جا رہی ہے۔