قوسِ قزح کے رنگ:مسجد نبویؐ کے شمال میں بابِ فہد، گیٹ21 سے باہر نکلیں تو سامنے چند کلو میٹر دُور سے ایک خُوب صُورت پہاڑ پر نظر پڑتی ہے۔ یہی وہ عظمت والا پہاڑ ہے، جس کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جبلِ اُحد ہم سے محبّت کرتا ہے اور ہم اس سے محبّت کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، 4083)۔جبل اُحد کا شمار جزائرِ عرب کے مشہور و معروف پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ یہ مبارک پہاڑ مسجدِ نبوی ؐ کے شمال کی جانب تقریباً 5کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
اس کی لمبائی مشرق سے مغرب کی جانب 8کلو میٹر، جب کہ چوڑائی 3کلو میٹر ہے۔ اس کی سب سے بلند چوٹی350 میٹر ہے۔ یہ مدینے کے اطراف میں ایک قدرتی حصار ہے، سرخی مائل خالص ٹھوس پتھروں سے مزیّن اس حسین پہاڑ کی چٹانیں بھی قوسِ قزح کے رنگوں کی طرح دل کش ہیں۔ ویسے تو اس کی بیش تر چٹانیں سرخ، لاجوردی اور مٹیالے رنگ کی ہیں، لیکن شمال مشرق کی جانب پائی جانے والی چٹانوں کا رنگ نیلا اورآسمانی ہے، جب کہ کچھ چٹانیں سفید، سبزی مائل ہیں۔
پہاڑ کے ایک حصّے میں آتش فشاں چٹانیں بھی ہیں۔ جبلِ اُحد میں کئی تاریخی وادیاں، گھاٹیاں، قلعے، کھجور کے درخت اور چوٹی کے اطراف سرسبز ہریالی ہے۔ پہاڑ میں میٹھے پانی کے کئی چشمے بھی اس کے حُسن میں اضافے کا باعث ہیں۔ اُحد کا جنوبی حصّہ ٹھوس اور مضبوط چٹانوں پر مشتمل ہے اور اس کے دامن میں وہ وادی ہے، جہاں غزوئہ اُحد کے نام سے مشرکینِ مکّہ کے ساتھ ایک خوں ریز معرکہ وقوع پذیر ہوا تھا۔
کوہِ اُحد کے دامن میں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکّہ مکرّمہ سے ہجرت کے دو سال، نوماہ اور سات دن بعد یعنی 7شوال 3ہجری بمطابق 23مارچ625عیسوی کو مشرکینِ قریش کے سپہ سالار ابوسفیان بن حرب نے اپنے تین ہزار ماہر جنگجوؤں اور جدید ترین سامانِ حرب کے ساتھ مدینۂ منورہ پر حملہ کردیا۔ اُس وقت 8کلو میٹر پر محیط جبلِ اُحد مدینۂ منورہ کا وہ قدرتی حصار تھا، جس نے دشمن کے ناپاک قدموں کو مدینہ منورہ کی جانب بڑھنے سے روک دیا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں سات سو مفلوک الحال مجاہدین کے لشکر نے بے سروسامانی کی حالت میں مشرکین کا نہایت شجاعت وبہادری سے مقابلہ کیا، لیکن پھر اپنوں ہی کی غلطی سے اس جیتی ہوئی جنگ میں مسلمانوں کا جانی نقصان ہوا۔ آپؐ کے چچا، حضرت حمزہؓ سمیت ستّر صحابہ کرام ؓ شہید ہوئے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ انور اور ہونٹ مبارک پر زخم آئے اور رباعی دانت شہید ہوگیا۔ زخمی ہونے کے بعد چند صحابہ ؓ آپؐ کو اُحد پہاڑ کی جانب لے گئے۔(صحیح بخاری، 4076-4075)جہاں آپ ؐنے ایک اونچی گھاٹی میں آرام فرمایا۔ (بعض روایات میں ہے کہ اُحد پہاڑ آپؐ کو زخمی حالت میں دیکھ کر شق ہوگیا اور اس میں اتنی بڑی دراڑ پڑگئی، جس سے ایک وقت میں ایک آدمی اندر داخل ہوسکتا تھا)۔ یہ پہاڑ کے مغربی کنارے پر ہے۔ اس دراڑ کو اگر قریب سے دیکھا جائے، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پہاڑ کا یہ کونا شق ہوا ہے اور وہاں رستہ بنا ہے۔ اب سے چند سال پہلے تک اُحد پہاڑ میں موجود اس گھاٹی کی زیارت کی جاسکتی تھی، بلکہ اس کے اندر اس پتھر کو بھی دیکھا جاسکتا تھا، جس کے سہارے آپؐ نے اپنے زخمی رُخ ِ انور اور سرمبارک کو ٹِکایا تھا۔
وہ پتھر سرمبارک رکھنے کی وجہ سے اس جگہ سے اس طرح دب گیا تھا، جسے نرم تکیہ۔ پہاڑ کی اس گھاٹی پر پہنچنے سے پہلے آپؐ نے کم گہرائی کی ایک دوسری گھاٹی میں بیٹھ کر نمازِ ظہر کی امامت فرمائی، پھر آپؐ اوپر تشریف لے گئے۔ ان مقامات پر خلاف ِ شرع امور کی وجہ سے سعودی حکومت نے پابندی لگادی ہے اور چاروں جانب خاردار تار لگا کر راستہ بند کردیا ہے، جب کہ جگہ جگہ تنبیہ کے بورڈ بھی نصب کر دیئے گئے ہیں۔ اوپر والی گھاٹی کے دروازے کو پتھروں سے مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ (راقم نے پابندی عاید ہونے سے قبل ان دونوں جگہوں کی بارہا زیارت کی ہے۔)
جبل ِاُحد کی فضیلت: کوہِ اُحد کی عظمت و اہمیت کا انداہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’ھٰذا جَبَل یحبّنا ونُحبّہ‘‘ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبّت کرتے ہیں۔ (صحیح بخاری، 4083) ایک اور موقعے پر ارشاد فرمایا ’’اُحد رکن من ارکان الجنّۃ۔‘‘ ترجمہ:’’کوہِ اُحد جنّت کا ایک رکن ہے۔‘‘ ایک اور موقعے پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’کوہِ اُحد جنّت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر ہوگا۔ جب تم اس کے پاس سے گزرو تو اس کے درختوں کا میوہ کھالیا کرو۔ اگر کچھ بھی نہ ملے، تو وہاں کی صحرا کی گھاس ہی چبالیا کرو۔‘‘ (کنزالعمال،268) حضرت انس بن مالکؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد پہاڑ پر چڑھے، تو آپؐ کے ساتھ سیّدنا ابوبکرؓ، سیّدنا عُمرؓ اور سیّدنا عثمان ؓبھی تھے۔ پہاڑ ہلنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا ’’اُحد پُرسکون ہوجا، تجھ پر ایک نبیؐ، ایک صدیق ؓ اور دو شہید ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، 3675)
عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن جبلِ اُحد پر تشریف لے گئے اور غزوئہ اُحد کے شہیدوں کے لیے اس طرح نماز پڑھی، جیسے میّت کے لیے پڑھی جاتی ہے، پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا ’’مَیں تم سے پہلے جارہا ہوں۔ میں تمہارے حق میں گواہی دوں گا۔ تم سے ملاقات حوضِ (کوثر) پرہوگی۔‘‘(صحیح بخاری3596-1344) مدینہ منورہ کی آبادی اب جبلِ اُحد تک پھیل چکی ہے۔ اس شہرِجاناں میں وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر زیادہ تعمیر و توسیع اور ترقیاتی کام ہوئے ہیں، جن کی بنا پر اب مدینہ میں صرف صرف اُحد پہاڑ ہی ہے، جو اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔
جمالیاتی ہنر کا شاہ کار: مدینہ منورہ کی میونسپلٹی نے رات کے وقت اُحد کے قدرتی حُسن کو اُجاگر کرنے کے لیے لائٹنگ کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی سے سورج طلوع ہونے کا منظر اخذ کیا ہے۔ رات کے وقت آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ان روشنیوں نے پہاڑ کی خُوب صُورتی میں اضافہ کرکے اسے جمالیاتی ہُنر کا شاہ کار بنا دیا ہے۔
جبل ِ رماق (جبلِ عینین)
جبل ِ رماق کو جبل عینین بھی کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں میٹھے پانی کے دو چشمے ہوا کرتے تھے۔ جبل رماق، کوہِ اُحد کے جنوب مغرب میں50میٹر کے فاصلے پر وادی قناق کے جنوبی کنارے میں ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے، جس کی لمبائی 180میٹر اور چوڑائی40میٹر ہے۔
پچاس تیر اندازوں کی تعیناتی: غزوئہ اُحد کی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی صفوں کی ترتیب فرماتے ہوئے پچاس ماہر تیراندازوں کا ایک دستہ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کی قیادت میں رماق پہاڑی پر تعینات کرتے ہوئے سختی سے تاکید فرمائی تھی کہ ’’اگرتم لوگ یہ دیکھو کہ ہمیں پرندے اُچک رہے ہیں۔ تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا، یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں اور اگر یہ دیکھو کہ ہم نے انہیں شکست دے کر کچل ڈالا ہے، تب بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔
یہاں تک کہ میں بلابھیجوں۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 3039) جنگ کاآغاز نہایت جوش و جذبے اور تیز رفتاری سے ہوا اور جلد ہی گھمسان کی جنگ کی صُورت اختیار کرگیا۔ ایک طرف جزائرِ عرب کے خوں خوار جنگ جوئوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، تو دوسری طرف جذبۂ جہاد سے سرشار دریا کی بپھری موجیں۔ چند گھنٹوں کی لڑائی کے بعد ہی ربِ کعبہ نے اہلِ ایمان کی جھولی میں فتح و نصرت ڈال دی۔
جب فتح روٹھ کر واپس ہوگئی: میدانِ جنگ سے عرب سورما بھاگ چکے تھے۔ اُن کا قیمتی سامان ِ حرب اور مال و اسباب بکھرا پڑا تھا۔ فتح سے سرشار مجاہدین نے اُسے جمع کرنا شروع کردیا۔ اُدھر جبل ِ رماق پر تعینات تیرانداز یہ سمجھے کہ لڑائی ختم ہوچکی ہے۔ چناں چہ پچاس میں سے چالیس تیراندازوں نے بھی اس حسّاس ترین مورچے کو چھوڑ دیا اور مالِ غنیمت لینے نیچے اُترگئے۔ (صحیح بخاری، حدیث3039) اللہ کو یہ حکم عدولی پسند نہ آئی اور پھر یوں لگا کہ جیسے فتح اُن سے روٹھ کر واپس ہوگئی۔
مشرکینِ مکّہ کے نوجوان سپہ سالار خالد بن ولید نے جب رماق کا اہم مورچہ خالی دیکھا تو اچانک اپنے سو سواروں کے ساتھ پہاڑی پر ہلّہ بول دیا۔ دس مجاہد سو سے زیادہ کافروں کا مقابلہ کب تک کرتے؟ آخرکار ایک ایک کرکے سب شہید ہوگئے۔ ادھر پسپا ہوتے ہوئے مشرکین واپس پلٹے اور عکرمہ بن ابوجہل اور ابوسفیان کی قیادت میں دونوں طرف سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ جب کہ خالد بن ولید بھی اپنے لشکر کے ساتھ مجاہدین کے خلاف میدان میں حملہ آور ہوگئے۔
قبرستان شہدائے اُحد
مسجد نبویؐ کے شمال میں جبل ِ اُحد اور جبلِ رماق کے درمیان یہ قبرستان واقع ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ ؓ سمیت غزوہ اُحد کے ستّر شہید مدفون ہیں۔ ان ستّر شہداء میں سے65انصار صحابیؓ تھے، جن میں قبیلہ خزرج کے 41 اور قبیلہ اُوس کے24افراد شامل ہیں۔ سعودی حکومت نے قبرستان کے گرد چاردیواری بناکر گیٹ نصب کردیا ہے، جس کے اندر جانا ممنوع ہے۔
جبل ِ سلع
مسجد نبویؐ کے مغرب میں50میٹر دُور یہ تاریخی پہاڑی واقع ہے۔ اس کی لمبائی ایک ہزار میٹر اور چوڑائی تقریباً 5سو میٹر ہے۔ جب کہ بلندی 80میٹرہے۔ یہی وہ پہاڑ ہے، جس کے مغربی دامن میں غزوئہ خندق کے موقعے پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس پہاڑ پر صحابۂ کرامؓ کے بھی خیمے نصب تھے۔ غزوۂ خندق اس میدان کے دامن میں لڑی گئی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے دورِامارت میں ان خیموں کی جگہ مساجد تعمیر کروادی تھیں۔
جن کی تعداد سات تھی۔ اسی وجہ سے جبل ِ سلع کی اس جگہ کو ’’سبعہ مساجد‘‘ یعنی سات مسجدوں والی جگہ کہا جاتا ہے۔ اب یہاں صرف چار چھوٹی چھوٹی مساجد رہ گئی ہیں، جب کہ جبل سلع کے دامن میں جنگِ خندق کے پورے میدان پر ایک بڑی خُوب صُورت اور جدید طرزِ تعمیر کی شاہ کار ’’جامعہ مسجد خندق‘‘ کے نام سے تعمیر کردی گئی ہے۔ جبل ِ سلع پر ایک قدیم غار بھی واقع ہے، جسے ’’غارِ سجدہ‘‘ کہتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ اس غار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خندق کے موقع پر سجدے کے دوران مجاہدین کی کام یابی کے لیے دُعا فرمائی تھی۔
جبل عَیر (دوزخ کا پہاڑ): یہ پہاڑ مدینہ منورہ کے جنوب مغرب میں مسجد نبویؐ سے 8کلو میٹر دُور مکّہ مکرّمہ جانے والے راستے میں مسجدِ علیؓ یعنی مسجد ذوالحلیفہ کے قریب واقع ہے۔ مدینہ منورہ کے منافقین کی اکثریت کے مکانات اسی پہاڑ کے دامن میں تھے۔ چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دشمن پہاڑ قراردیا۔ سیّدنا انسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرِ مبارک جبل اُحد پر پڑی، تو زبان سے بے ساختہ اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی اور ارشاد فرمایا ’’یہ پہاڑ ہم سے محبّت کرتاہے، ہم اس سے محبّت کرتے ہیں اور یہ جنّت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، جب کہ عَیر بھی ایک پہاڑ ہے، جو ہم سے دشمنی کرتا ہے اور ہم اسے دشمن سمجھتے ہیں۔
وہ جہنّم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔‘‘ (کنزالعمال،268) اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جمادات میں بھی دوستی، دشمنی، نیک بختی اور سعادت مندی کی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ (تاریخ مدینۂ منورہ، محمد عبدالمعبود،161) جبل عَیر کا طول دو ہزار میٹر اور عرض 70میٹر ہے۔ سطحِ سمندر سے اس کی بلندی تقریباً 955 میٹر ہے۔ اس کی کوئی چوٹی نہیں ہے، بلکہ اوپر کا حصّہ ہم وار ہے۔ اسی لیے اسے گدھے کی پشت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ (عربی میں عَیر گدھے کی ایک قسم کو کہتے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مدینے کی حد قرار دیا ہے۔ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مدینہ عَیر اور ثور کے درمیان حرم ہے۔‘‘ (تاریخ مدینہ منورہ، ڈاکٹر احمد شعبان،96)
جبل ِ ثور: یہ اُحد پہاڑ کے پیچھے شمال مغرب میں گول شکل کی ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے، جس کا رنگ مائل بہ سرخی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شمال میں حرم مدینہ منورہ کی حد قرار دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا عَیر اور ثور کے درمیان حرم مدینہ ہے۔
مدینہ منوّرہ کے آتش فشاں پہاڑ
سعودی عرب میں دو ہزار سے زائد آتش فشاں پہاڑ ہزار ہا سال سے موجود ہیں۔ ان میں سے اکثر مردہ نہیں ہیں۔ بلکہ بعض میں سے تاریخ میں تیرہ مرتبہ لاوا پھوٹا ہے۔ مدینہ منورہ میں بھی آتش فشاں پہاڑوں کا ایک بڑا سلسلہ موجود ہے۔ خیبر کے علاقے میں جبل القدر واقع ہے۔ یہ پہاڑ سطح سمندر سے دو ہزار میٹر بلند ہے۔ اس پہاڑی پر بہت گہرے غار اورآتش فشانی دہانے موجود ہیں۔ جبل ِ القدر کے نزدیک ہی جبل الابیض ہے جس کی آتش فشانی کھوہ مشہور ہے۔ جبل اُحد کی چوٹی پر بھی آتش فشانی دہانے موجود ہیں۔
اسی طرح طائف شہر کے نزدیک بھی سعودی عرب کا بڑا آتش فشانی دہانہ موجود ہے۔ جامعہ شاہ سعود میں جیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹرعبدالعزیز بن لعبون کے مطابق، ’’ان میں سے بعض آتش فشانی دہانے خُوب صُورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔‘‘ مدینہ منوّرہ کے جنوب مشرق میں واقع ایک پہاڑ سے 1226عیسوی میں نکلنے والے آتش فشاں کے لاوے نے 23کلومیٹر تک کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ یہاں تک کہ مسجد نبویؐ سے اس کا فاصلہ صرف 8کلو میٹر رہ گیا تھا۔ (العربیہ ڈاٹ نیٹ)
مدینہ منورہ کی چند مشہور وادیاں
وادئ عقیق: یہ مشہور اورتاریخی وادی مدینہ منورہ کے مغرب سے گزرتی ہوئی جبل عَیر کے شمال سے ہو کر وادئ قناۃ سے مل جاتی ہے۔ اس وادی کے بارے میں کئی احادیث موجود ہیں۔ صحیح بخاری میں امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروق ؓبیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے وادئ عقیق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ’’آج رات میرے پاس میرے ربّ کی جانب سے آنے والا (فرشتہ) آیا اور اس نے کہا، اس مبارک وادی میں نماز پڑھو۔‘‘(صحیح بخاری، 1534)۔ (جاری ہے)