امبیڈ کر سوسائٹی کے زیر اہتمام بین الاقوامی ویب ینار منعقد کیا گیا ۔ پاکستان سے میں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ ڈاکٹر امبید کر نے برطانوی ہند اور پھر بھارت میں نچلی ذات کے حقوق کیلئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں ۔ مگر نہایت افسوس کے ساتھ ہی ایک حقیقت موجود ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہر اس مقام پر کی جا رہی ہے جہاں بھارت کی موجودہ اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کے خلاف آزادی کی خواہش موجود ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کر کے بھارت نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ کشمیریوں کی آواز سننے کیلئے سرےسے تیار نہیں ۔ اور اب وہ جی ٹوئنٹی کانفرنس سری نگر میں کرکے اس بات کو عالمی برادری سے بھی منوانا چاہتا ہے کہ کم از کم عالمی برادری کا اس حوالے سے بھارتی عزائم کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے کشمیر کے حوالے سے مؤقف کیلئےایک پریشان کن امر ہے ۔ پاکستان کی یہ خواہش نہیں کہ انڈیا میں اس کانفرنس کا انعقاد نہ ہو بلکہ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ اس کانفرنس کا انعقاد اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ تصفیہ طلب علاقے مقبوضہ کشمیر میں نہ ہو ۔ اس حوالے سے پاکستان کو موثر سفارتکاری کیلئے روایتی سفارتکاری سے ہٹ کردیگر مؤثر افراد کی بھی خدمات سے استفادہ کرنا چاہئے جو ان ممالک میں اپنا اثر رکھتے ہوں۔ جی ٹوئنٹی میں ہمارا عزیز دوست ملک ترکیہ شامل ہے ترکی کو ہمارے موقف پر قائل کیا جا سکتاہے،پھر اس تنظیم میں انڈونیشیا ،سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب میں تو ابھی نواز شریف کوجس طرح سے پروٹوکول دیا گیا ،یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس وقت پاکستان کی سب سے بااثر شخصیت اور مستقبل کے وزیر اعظم بھی ہیں، تو نواز شریف کے ایسے وقار سے بھی فائدہ اٹھانا ممکن ہے اور ان دونوں ممالک کو بھی هہمنوا بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے موقف کی تائید میں صرف مسلمان ممالک پر ہی سفارت کاری کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اور دیگر ممالک سے بھی اس حوالے سے روابط قائم کرنے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر اٹلی جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اضافے کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑا ہے ۔ جرمن وزیر خارجہ نے تو اسلام آباد اور برلن میں کھڑے ہو کر کشمیر کی بات کی اور دو مختلف مقامات پر ایک سا موقف اپنانے کا صاف مطلب ہے کہ وہ کشمیر پر ہمارے نقطہ نظر کے حامی ہیں۔ بھارت کے پیٹ میں ان کے بیانات کے بعد بہت مروڑ بھی اٹھا تھا ۔علاوہ ازیں ابھی سکھوں کے حوالے سے برطانیہ نے بھارت کی پروا نہ کرتے ہوئے ایک اصولی موقف اپنایا ،بہت اچھا کیا مگر برطانیہ کو کشمیر کے حوالے سے بھی اسی طرح اصولی موقف کی حمایت کرنی چاہئے ۔ کیوں کہ یہ تو مسئلہ چھوڑا ہوا یا پیدا کردہ ہی برطانیہ کا ہے ۔ چین کو تو ایک ہی کشتی میں بٹھانا پاکستان کیلئےبہت آسان ہے۔ امریکہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی بات کرتا رہتا ہے جب چاہتا ہے وہ بھارت کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور وہاں پر جا بجا ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ جاری کرتا رہتا ہے،مقصد یہ ہے کہ امریکہ کو بھی سمجھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس حوالے سے موثر حکمت عملی تیار کی جائے۔ ویسے بھی آج کل بھارت کی کٹھ پتلی شیخ حسینہ واجد پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر امریکہ کے خلاف تقریر کر رہی ہے کہ امریکہ ان کی حکومت کو بدلنا چاہتا ہے ۔ جب کوئی کارکردگی نہ دکھا سکو ، جمہوری قدروں کو پامال کر دو، اپنے مخالفین کو قید کروا دو اور پھر ان تمام اقدامات کے نتیجے میں حکومت ڈانواں ڈول ہونے لگے تو امریکہ پر الزام لگا دو کہ جو کرا رہا ہے امریکہ کرا رہا ہے۔ یہی رویہ ہم نے پاکستان میں دیکھا کہ معزول اپنی حرکتوں کے سبب سےہوگئے اور عوامی جذبات سے کھیلنے کیلئےالزام امریکہ پر لگا دیا ۔ خانہ فرہنگ میں یوم القدس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھی میں نے یہی کہا کہ امت کو دو مسائل کا سامنا ہے فلسطین اور کشمیر ۔ کچھ مسلمان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے ۔ اس لئے ان دونوں معاملات پر امت کی ایک آواز ہونی چاہئے ورنہ مسائل بڑھتے رہیں گے ۔ الامین اکیڈمی جو سی ایس ایس کی تیاری کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دے رہی ہے کی تقریب میں شرکت کی ۔ مجیب الرحمن شامی ، سہیل وڑائچ ،ضیاء الحق نقشبندی کی اس حوالے سے خدمات لائق تحسین ہیں خدا مزید توفیق عطافرمائے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)