• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدلیہ کا جو بحران دیگر بحرانوں کی سنگینی اور شدت میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔ عدلیہ میں تقسیم کا جو تاثر بن رہا ہے، وہ کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں۔ سیاست دانوں کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دینا کسی بھی طرح تاریخی حقائق سے میل نہیں کھاتا۔ عدلیہ کی طرف سے ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی کی سزا دی گئی اور اس پر عمل درآمد ہوا۔ دو منتخب وزرائے اعظم کو نااہل قرار دیا گیا، عدالتوں کے یہ فیصلے بھی قبول کئے گئے۔ آئین کے بدنام زمانہ آرٹیکل 58 (2 ) بی کے تحت دو منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے کے صدارتی حکم کی عدالتوں نے توثیق کی۔ سیاست دانوں نے یہ بھی قبول کیا۔ عدالتوں نے مولوی تمیز الدین کیس سے لے کر نصرت بھٹو کیس تک نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دیئے تو بھی ان فیصلوں پر عمل درآمد ہوا۔ یہ اور بات کہ ملک میں سیاست اور جمہوریت نہ پنپ سکی۔ عدالتوں نے ایک فوجی آمر کو آئین میں من مانی ترامیم کرنے کا اختیار دیا تو بھی عدالتوں کے فیصلے مانے گئے ۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ عدلیہ کے حالیہ بحران کے ذمہ دار سیاست دان ہیں ؟ عدلیہ کے حالیہ بحران کو اگر عدلیہ کے ماضی کے کردار کا منطقی نتیجہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا تاہم اسکے کچھ تازہ اسباب بھی ہیں۔ یہ بحران اس وقت پیدا ہوا، جب چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے از خود نوٹس لیا اور اس کیس کی سماعت کیلئے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بینچ میں شامل دو ججوں جسٹس اعجاز الحق اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو یہ دونوں معزز جج بینچ سے علیحدہ ہو گئے، بینچ سات رکنی رہ گیا۔ کیس کی سماعت کے دوران دو اور معزز جج صاحبان جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے یہ کہہ کر خود کو بینچ سے علیحدہ کر لیا کہ چیف جسٹس اس معاملے پر سوموٹو نہیں لے سکتے۔ اس کے باوجود چیف جسٹس نے پانچ رکنی بینچ کے ساتھ کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ اس بینچ نے یکم مارچ کو اکثریتی فیصلے (تین ۔ دو) کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ انتخابات کا شیڈول جاری کرے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے پنجاب میں 30اپریل کو انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ آتے ہی متنازع ہو گیا۔ پانچ رکنی بینچ کے دو ججز جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے چیف جسٹس کیلئے ’’ون مین شو‘‘ جیسے سخت الفاظ استعمال کئے۔ انہوں نے چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات کے استعمال کو سیاسی نظام میں مداخلت سے تشبیہ دی۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ یہ پانچ رکنی نہیں بلکہ 7 رکنی بینچ تھا، جس میں سے چار ججز نے سوموٹو نوٹس کو مسترد کر دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے بعد ازاں اپنے تفصیلی فیصلے میں واضح کر دیا کہ فیصلہ چار تین کا ہے۔ اس طرح عدلیہ میں تقسیم خود ججوں کے اختلافات سے ہوئی۔ الیکشن کمیشن اگرچہ دو تین کے فیصلے پر پنجاب میں الیکشن شیڈول کر چکا تھا لیکن حکومت نے موقف اختیار کیا کہ انتخابات کیلئے درکار فنڈز اور سکیورٹی فراہم کرنا بوجوہ ممکن نہیں، جس کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کروانے سے معذرت کر لی۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف نے پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ چیف جسٹس نے ایک نیا پانچ رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ اس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج قاضی فائز عیسی نے حافظ قرآن امیدواروں کو 20 اضافی نمبر دینے کے کیس کا فیصلہ سنا دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ جب تک چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات سے متعلق رولز واضح نہیں ہو جاتے، تب تک تمام سوموٹو کیسز پر سماعت روک دی جائے۔ اس فیصلے میں بینچ کے دوسرے جسٹس امین الدین، جو نئے پانچ رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے،نے کیس کی اگلی سماعت کے دوران پانچ رکنی بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی، دوسرے دن سماعت شروع ہوئی تو پتہ چلا باقی چار رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا کیونکہ جسٹس جمال مندوخیل چیف جسٹس کے بینچ بنانے اور سوموٹو اختیار پر اختلاف کرتے ہوئے بینچ سے علیحدہ ہو گئے۔ تاہم چیف جسٹس نے تین رکنی بینچ کے ساتھ سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس بینچ نے متفقہ طور پر الیکشن کمیشن کا انتخاب ملتوی کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پنجاب میں 14مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا لیکن اس حکم سے پرانے 7رکنی بینچ میں شامل چار ججوں کا اختلاف اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے، جس روز یہ فیصلہ سامنے آیا، اسی روز چیف جسٹس نے ایک اور چھ رکنی بینچ بنایا، جس نے قاضی فائز عیسی کا سوموٹو اختیارات کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس طرح پنجاب کے پی انتخابات کے التوا پر سوموٹو کیس ہی عدلیہ کی بظاہر تقسیم کا سبب بنا۔ عدلیہ کو اپنا بحران خود ختم کرنا ہے۔ اسی سوموٹو کیس میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے پر بھی عدلیہ کو فیصلہ کرنا چاہئے جن کی تحلیل کا کوئی آئینی جواز نہیں تھا۔ عدلیہ کو یہ بھی فیصلہ کرنا چاہئے کہ اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پہلے ہوتے ہیں تو بعد ازاں کیا آئینی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ ان دونوں معاملات پر معززجج صاحبان سوالات اٹھا چکے ہیں۔ انہیں غیر فاصل نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ورنہ عدلیہ کے بحران کے ساتھ ساتھ ملک بڑے سیاسی بحران اور آئینی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات اور بینچ بنانے کے طریقہ کار سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف اب پی ٹی آئی نے عدالت سے رجوع کیا ہے اور عدالت سیاسی جماعتوں کے اس مطالبے کو نہیں مان رہی کہ اس پر فل کورٹ بینچ بنایا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بحران رہے گا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کی آئینی حیثیت کا پہلے تعین کر لیا جاتا تو بحران پیدا نہ ہوتا۔ اب عدالت سیاسی جماعتوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ ایک ساتھ انتخابات کیلئے مذاکرات کریں۔ اس نکتے کو بھی اسی وقت طے کر لیا جاتا، جب معزز جج صاحبان نے یہ معاملہ اٹھایا تھا تو بھی بحران پیدا نہ ہوتا۔ بھی یہی چاہتے ہیں تاکہ ملک میں سیاسی بحران ختم ہو اور اقتصادی بحران پر قابو پانے کے حالات پیدا ہوں ۔

تازہ ترین