• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعری سے کربلا کے استعارے اور حوالے نکال دیے جائیں تو شاعری کی دھڑکتی سر زمین بے آب وگیاہ صحرا میں ڈھل کر بنجر اور ویران ہو جائے، اس میں تاثیر کے پھول اُگنا اور درد مہکنا معدوم ہو جائے۔ وجود کے خیمے میں پناہ گزین دل کی کٹیا میں درد کی وہ لے کبھی نہ جاگے جو پتھر سوچوں کو مہکانے کی سبیل کرسکتی ہے۔ اسی طرح اگر اردو شاعری سے محسن نقوی کا نام حذف کر دیا جائے تو اردو شاعری اپنی تنگئی داماں کا ماتم کرنے لگے۔ محسن نقوی دکھ جننے والی دھرتی کا بیٹا ہے، جو غم خواروں اور عزاداروں کے آنسووں کو رستہ دینے کی خدمت پر مامور کر کے اس دنیا میں بھیجا گیا۔ اس نے درد کی چوگ چنی،سماج کی طرف سے ملنے والا قطرہ قطرہ رنج اور نفرت کا زہر پیا، اسے اپنے وجود میں سمو کر چاہت کا رنگ دیا اور لفظوں کی صورت زمانے کے حوالے کردیا۔ اس کےقلم تک آنے والا ہر لفظ ذکر بن گیا۔ وہ پڑھتا رہا اور لوگوں کے دلوں اور روحوں میں اترتا رہا۔اُس نے حیات کے صحن میں بکھرے ملال کربلا سے نتھی کر دئیے اور اہلِ بیت کے ذکر سے دلوں کو نرمایا اور رلایا۔کائنات اور اس میں سانس لینے والی تمام افضل مخلوقات کی اصلیت میں نا آسودگی، تشنگی اور بے قراری رچی ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قسم قسم کی سہولتیں اور تعیشات روح میں گھر کئےدُکھ کا مداوا کرنے سے قاصر ہیں۔ رونا انسان کے وجود کی سرشت کا جزو بن گیا ہے۔آنکھیں وجود کے سمندر کے وہ دریا ہیں جن میں درد ہمیشہ رواں دواں رہتے ہیں۔

کیونکہ حزن و ملال کائنات کے خمیر میں ہے اس لئے ہمیں رو کر جو اطمینان اور ہلکے پھلکے ہونے کااحساس ہوتا ہے وہ کسی اور طور ممکن ہی نہیں۔مصنوعی قہقہے لگا کر ہم زیادہ دکھی اور آزردہ ہو جاتے ہیں۔ روح سے جدا رہ کر چلنے میں اطمینان نہیں۔روح سے جڑت آنسووں سے ہمنوائی ہے۔محسن نقوی کی شاعری کے تمام حوالے پر تاثیر ہیں۔وہ انسان کے اندر رکھے فخروغرور کے اکڑے بت توڑ کر انھیں حلیمی سے جوڑتے ہیں۔ اہل بیت سے عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کا جادوئی قلم زمان و مکاںکی حدبندیاں توڑتا کائنات کو ایک دائرے میں سموتا دکھائی دیتا ہے۔لیکن ان کی شاعری صرف ذکر تک محدود نہیں وہ شاعر ہیں اور شاعر کے دل میں محبت کی کئی بیلیں ہر وقت سرسبز رہتی ہیں۔ محسن نقوی کی شاعری کا عمیق مطالعہ کریں تو وہ محبت کے کومل جذبوں کے منفرد شاعر دکھائی دیتے ہیں جو ایک خاص اسلوب کے وارث ہیں۔وہ اسلوب جس کی دل تک آشنائی اور رسائی ہے،اُن کے قلم سے نکلنے والے اشعار دلوں میں سرایت کرنے اور دل کی آواز محسوس ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ رومانی شاعری کی خوبصورتی میں روانی، سادگی، سہلِ ممتنع اور بھرپور شعری جمال اور کمال نمایاں ہے۔25مئی 1947 کو ڈی جی خان میں جنم لینے والے بے پناہ خوبصورت شاعر کے جنم دن پر تقریب کا اہتمام کئے جانا بذات خود ایک بڑی سعادت تھی جو دردمند انسان، منفرد شاعر اور محسن نقوی کی محبت میں غرق اسد رضوی کو نصیب ہوئی۔ ملک میں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی انھوں نے چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر دوستوں کو فون کے ذریعے دعوت دی اور ہم سب ان کی محبت میں کھنچے الحمرا پہنچے۔ ان کے دستِ راست رضا عباس نقوی نے نہایت عمدگی سے پروگرام ترتیب دیا اور خوبصورت نظامت سے پروگرام کی دلچسپی بڑھائے رکھی۔ عہد ساز ادبی شخصیات عطاالحق قاسمی اورخالد شریف نے محسن نقوی کی یادوں کو تازہ کیا۔عطا الحق قاسمی نے ادبی اسٹیبلشمنٹ کے تجزیہ نگاروں کو احساس دلایا کہ وہ بھی اب نیوٹرل ہو کر نقدونظر کریں اور محسن نقوی کے مقام کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ عقیل نقوی کی شخصیت اور لب ولہجہ دیکھ کر سب کو محسن نقوی کا گمان ہوتا رہا، عقیل نقوی عمدہ شاعر اور خوبصورت انسان ہیں۔ ہر لمحہ مسکرانے والے عقیل نقوی 15جنوری1996کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے کیونکہ یہی وہ سیاہ دن تھا جب شہرِ شعر وسخن لاہور میں ایک اندھے جنون نے محبت کی کیفیت میں رہنے والےدردمند اور نازک احساسات کے مالک شاعر کے مہربان وجود پر کئی وار کر کے قتل کردیا مگر جمالیاتی احساسات کا پیرہن اوڑھے،درد کی کیفیات میں بھیگے لفظ نہ قتل کئے جاسکے وہ اب بھی بولتے اور چیختے رہتے ہیں اور ہم سے سوال کرتے ہیں کہ معاشرے میں لفظوں کے پیامبر وحشیانہ انداز میں قتل کرکے سماج کو بنجر کرنے والی سوچ کب بدلے گی۔ محسن نقوی کی شاعری ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنا دائرہ کار وسیع کرتی جا رہی ہے۔بقول خالد شریف کتابیں خریدنے کارواج کم ہورہا ہے مگر محسن نقوی کی کتابوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔

تازہ ترین