بئرالبُصّہ: یہ کنواں جنّت البقیع سے قباء کی جانب جاتے ہوئے راستے میں ایک باغ کے اندر واقع تھا۔ ساتھ ہی حضرت ابو سعید خُدریؓ کا گھر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہداء کی زیارت اور ان کے اہل وعیال کی مزاج پُرسی کو تشریف لے جاتے، تو اس کنویں کا پانی نوش فرماتے۔ ایک مرتبہ آپؐ حضرت ابوسعید خدریؓ کے گھر تشریف لے گئے، جمعے کا دن تھا۔ آپؐ نے ابوسعید خدریؓ سے سردھونے کی خواہش کا اظہار فرمایا اور کنویں پر تشریف لے گئے۔ آپؐ نے سرمبارک دھویا اور استعمال شدہ پانی کنویں میں ڈال دیا۔ (اخبار ِمدینہ46)۔ بئربُصّہ کا شمار بھی مدینۂ منوّرہ کے سات تاریخی کنوئوں میں ہوتا ہے۔
شاہ فہد قرآنِ کریم پرنٹنگ کمپلیکس
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’بے شک ہم نے ہی قرآن نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ (سورئہ الحجر آیت 9) اور یقیناً آج چودہ سوبرس گزرجانے کے باوجود اس کے زیر زبر میں بھی کوئی کمی یا بیشی نہیں کی جا سکی۔ ہم سب واقف ہیں کہ نزولِ قرآن کریم کی ابتدا مکّہ مکرّمہ میں ہوئی مگر اس کا بیش تر حصّہ ارضِ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا۔ اور پورے قرآن کریم کا نزول بائیس سال پانچ ماہ اور چودہ دن میں مکمل ہوا۔ عملی طور پر قرآن کریم کے احکامات کا نفاذ بھی آنحضرت ؐکی نگرانی اور سرپرستی میں پہلی مرتبہ مدینے کی ارضِ مقدس ہی میں ہوا۔ آنے والے وقتوں کی نزاکتوں کے پیشِ نظر خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے قرآن کریم کی تمام آیات کو جمع کرواکر ایک مستند نسخہ تیارکروایا۔
حضرت عثمان غنیؓ کے زمانے میں یہ نسخہ حضرت حفصہ بنت عمرفاروقؓ کے پاس محفوظ تھا۔ سیدناعثمان غنیؓ نے ایک بڑا کام یہ کیا کہ اس مستند قرآن کے کئی نسخے تیارکروائے اور انہیں مکّہ مکرّمہ، بصرہ، یمن، کوفہ اور شام وغیرہ میں بھجوا دیئے۔ آج دنیا بھر میں وہی مستند قرآن کریم ہے، جسے سیدنا ابوبکرؓ نے تحریراً تدوین کروایا اور سیدنا عثمان غنی ؓنے اس کے نسخے تیارکروا کر دنیا کے مختلف ممالک میں بھیجے۔
سعودی حکومت کا عظیم کارنامہ: سعودی حکومت نے قرآنِ کریم کی حفاظت، طباعت اور تقسیم کا خصوصی انتظام کرتے ہوئے مدینۂ منوّرہ میں دنیا کا سب سے بڑا اور عظیم الشان پرنٹنگ کمپلیکس تعمیر کیا ہے۔ ڈھائی لاکھ پچاس ہزار مربع میٹر کے رقبے پر محیط یہ عظیم تعمیراتی شاہ کار مدینہ طیبہ شہر کے شمال مغرب میں تبوک روڈ پر واقع ہے۔ خادم الحرمین الشریفین، شاہ فہد بن عبدالعزیز نے اس منفرد عظیم قرآن محل کا سنگِ بنیاد 16محرم الحرام 1403ء ہجری بمطابق 2؍نومبر 1982 ء کو رکھا اور صفر 1405ہجری بمطابق اکتوبر1984عیسوی کو کمپلیکس میں عملی کام کا آغاز ہوا۔
اس قرآن کمپلیکس میں انتظامی عمارات، دیکھ بھال اور سیکیوریٹی کے مراکز دنیا کی جدید ترین پرنٹنگ مشینوں پر مشتمل پرنٹنگ پریس، ریسرچ لیبارٹریز، کوالٹی کنٹرول لیب، اسٹورز، رہائشی عمارتیں، ہاسٹلز، لائبریری، تحقیق و جستجو اور بحث و تمحیص کے لیے آڈیٹوریم، ڈسپنسری، جامع مسجد اور ریسٹورنٹ موجود ہیں اور تمام متعلقہ شعبہ جات نہایت تن دہی کے ساتھ اپنے فرائض کی تکمیل کے لیے ہمہ وقت سرگرداں رہتے ہیں۔ نماز اور کھانے کے وقفوں کے علاوہ طباعت کا کام دن رات جاری رہتا ہے۔
ماہر علمائے کرام کی جماعتیں طباعت کے مختلف مراحل کے دوران ایک طے شدہ نظام کے تحت نگرانی و رہنمائی کے لیے ہمہ وقت مستعد و فعال رہتی ہیں۔ قرآنِ کریم کی طباعت کو غلطیوں سے پاک رکھنے کے لیے ہر نسخے کو سخت ترین کوالٹی کنٹرول کے پراسس سے گزارنا ہوتا ہے، جس کی تکمیل کے بعد ہرنسخے پر مُہر ثبت کردی جاتی ہے۔ نیز، طباعت کے دوران تمام کارکنان کا باوضو رہنا ضروری ہے۔
اس کمپلیکس میں قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم کی طباعت کے دوران، ان زبانوں کے ماہر اہلِ علم جانچ پڑتال اور نگرانی کے امور پر تعینات کیے جاتے ہیں۔ یہاں اردو، انگریزی، ترکی، فرانسیسی، صومالی، جرمنی، جاپانی، چینی، تاملی، بوسنائی، انڈونیشی، قذاقی، بروہی، ہندی اور بنگالی سمیت 50سے زائد زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم چھاپے جاتے ہیں۔ پھرترجمے و تفاسیر کے علاوہ دنیاکی زندہ زبانوں میں آڈیو کیٹس بھی تیار کرکے مختلف ممالک میں بھیجے جاتے ہیں۔
کمپلیکس کی سالانہ پیداواری گنجائش ایک کروڑ 50لاکھ نسخے ہے اور ان نسخوں سے استفادہ کرنے والے ممالک کی تعداد 90سے زائد ہے۔ اب تک 20کروڑ سے زائد نسخے دنیا بھر میں تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ قرآن کمپلیکس کا دورہ کرنے والے تمام زائرین کو قرآنِ کریم کاایک نسخہ بطور تحفہ پیش کیاجاتا ہے۔ اسی طرح تمام حجاجِ کرام کو بھی حج سے واپسی پر جدّہ یا مدینہ ائرپورٹ پر بادشاہ کی جانب سے قرآن ِ مجید کا تحفہ پیش کیاجاتا ہے۔
مدینہ کے تعلیمی مراکز
مدینہ یونی ورسٹی:’’جامعہ اسلامیہ مدینۂ منوّرہ ‘‘کے نام سے اس یونی ورسٹی کی بنیاد25ربیع الاوّل 1381ہجری میں رکھی گئی۔ اس کے پہلے سرپرستِ اعلیٰ ولی عہد، فہد بن عبدالعزیز مقرر ہوئے۔ اس جامعہ میں 150 ممالک کے طلبہ بلامعاوضہ اقامتی تعلیم حاصل کررہے ہیں، جن کے جملہ اخراجات سرکاری سطح پر اٹھائے جاتے ہیں۔ یاد رہے، اس یونی ورسٹی میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) تک کی جدید تعلیم دی جاتی ہے۔
مدرسہ دارالحدیث مدینۂ منوّرہ
یہ مدرسہ 1351ہجری بمطابق 1923ء میں سعودی حکم راں، شاہ عبدالعزیز کی تائید و تعاون سے قائم ہوا۔ جہاں دنیا بھر سے تشنگانِ علم اپنی پیاس بجھانے آتے ہیں۔ یہ مدرسہ دینی تعلیم کے فروغ میں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس وقت مدرسے کی مجلسِ منتظمہ کی سربراہی سعودیہ کے سابق مفتئ اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز کے پاس تھی، ان کی شدید خواہش کے پیش نظر 1384ہجری بمطابق 1964ء میں مدرسے کو جامعہ سے ملحق کردیاگیا۔ جب کہ ان کی وفات کے بعد سے مدرسے کی سربراہی سعودیہ کے مفتئ اعظم، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن محمد آل شیخ کے سپرد ہے۔ (تاریخ مدینۂ منوّرہ، دارالسلام،124-123)۔
جامعہ طیبہ یونی ورسٹی: 1425ہجری میں ابنِ سعود یونی ورسٹی اور شاہ عبدالعزیز یونی ورسٹی سمیت چند دیگر تعلیمی اداروں کو ضم کرکے طیبہ یونی ورسٹی (جامعہ) تشکیل دی گئی، جس میں سائنس کالج، میڈیکل کالج، کمپیوٹر ٹریننگ کالج، انجینئرنگ کالج، اکائونٹینسی فیکلٹی، ٹیچرٹریننگ کالج، ٹیکنالوجی کالج اور گرلز کالج اپنے اپنے شعبوں میں اہم تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہاں تعلیم، صنعت و صحت کے میدان میں بہت سے چھوٹے بڑے سرکاری اور نجی ادارے وجود میں آگئے ہیں، جو بہترین تعلیم و تربیت فراہم کررہے ہیں۔ (تاریخِ مدینہ منورہ، ڈاکٹر احمد محمد شعبانی، 111)۔
مدینۂ منوّرہ کے کتب خانے
شاہ عبدالعزیز لائبریری: ایک لاکھ سے زائد قدیم اور جدید کتب پر مشتمل اس عظیم الشّان لائبریری کا قیام 1403ہجری بمطابق1983ء عمل میں آیا۔ مدینہ منورہ کے تمام قدیم کتب خانے، جو پہلے محکمۂ اوقاف کی زیرِنگرانی تھے، اب اس لائبریری میں ضم کردیئے گئے ہیں۔ مسجدِ طوبیٰ کے مغربی صحن سے متصل یہ لائبریری ایک پرشکوہ عمارت میں قائم ہے۔
مسجدِ نبوی ؐ لائبریری: یہ لائبریری حرم نبوی ؐ کے اندر شمال کی جانب پہلی منزل پر موجود ہے اور صبح آٹھ بجے سے بعد ازنمازِ عشاء کھلی رہتی ہے۔ یہاں 50ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔
پبلک لائبریری: یہ لائبریری مسجد نبویؐ کی جنوبی جانب اوقاف لائبریریز کمپلیکس میں قائم ہے۔ اس میں 35ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی چند اہم کتب خانے ہیں۔مثلاً کتب خانہ جامعہ طیبہ یونی ورسٹی، کتب خانہ اسلامی یونی ورسٹی، کتب خانہ قرآن کمپلیکس، مکتبۂ آلِ ہاشم، مکتبۂ شیخ حماد انصاری، مکتبۂ مجمع البرکہ الخیری اور مکتبۂ النادی العربی کے علاوہ بھی بہت سے ذاتی کتب خانے اور لائبریریز وغیرہ۔
مدینۂ منورہ کی کھجوریں: اللہ تعالیٰ نے اس شہرِ جاناں کو کھجوروں کی بے شمار اقسام سے نوازا ہے۔ تاریخِ کبیر میں ایک سو انتالیس اور خلاصۃ الوفاء میں ایک سو تیس اقسام بیان کی گئی ہیں۔ عام طور پر بیس اقسام کی کھجوریں مدینے کے بازار میں دست یاب رہتی ہیں، جن میں سے عجوہ سب سے مشہور و معروف ہے۔ آنحضرتؐ نے عجوہ کا درخت اپنے دستِ مبارک سے لگایا تھا۔
سیّدنا سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا، ’’جو شخص صبح نہار منہ سات عدد عجوہ کھجور کھالے، تو اس پر سارا دن زہر اور جادو اثر نہیں کرے گا۔‘‘(صحیح بخاری، 5436) ایک اور جگہ فرمایا ’’عجوہ جنّت کی کھجوروں میں سے ہے اور یہ زہر کا تریاق ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ، 247) مسجدِ نبویؐ کے جنوب مغرب میں بابِ سلام سے چند سو میٹر دور دنیا کا سب سے بڑا کھجور بازار ہے، جہاں مدینے میں پیدا ہونے والی کھجوروں کی تمام اقسام نہایت ارزاں قیمت پر دست یاب ہیں۔
مدینۂ منوّرہ کے جدید میوزیم
مسجد نبوی ؐ کی بین الاقوامی نمائش: جنوری 2021ء میں مدینہ منورہ کے گورنر، شہزادہ فیصل بن سلمان بن عبدالعزیز نے مسجد نبویؐ کے احاطے میں ایک منفرد نمائش کا افتتاح کیا۔ جس میں مدینۂ منوّرہ کے عہدِ قدیم سے دَورِ جدید تک کے تمام اہم حالات و واقعات کو جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے اُجاگر کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی ہجرتِ مدینہ سے اسلامی ریاست کے قیام اور غزوات سے فتح مکّہ تک کی جدوجہد، پیغمبرِ اسلام کی ثقافتی، معاشرتی و اصلاحی کاوشیں اور مکارمِ اخلاق کو منفرد اور تیکنیکی و اختراعی سہولتوں کے ذریعے نہایت خُوب صُورتی اور مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس نمائش میں تھری ڈی کمپیوٹرائزڈ سسٹم اور دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے اسلامی نشاطِ ثانیہ کی فلم بندی اس طرح کی گئی ہے کہ ناظرین خود کو اس ماحول کا حصّہ سمجھنے لگتے ہیں۔ مسجدِ نبویؐ کی زیارت کے لیے جانے والوں کو یہ نمائش ضرور دیکھنی چاہیے۔
دارالمدینہ میوزیم: مسجد ِنبویؐ کے جنوب میں ائرپورٹ روڈ پر 3کلو میٹر کی مسافت کے بعد نئے ریلوے اسٹیشن کے دائیں جانب یہ میوزیم قائم کیا گیا ہے، جس میں مدینۂ منوّرہ کی مرحلہ وار تاریخ اجاگر کی گئی ہے۔ یہاں بہت سے پرانے ماڈل بھی رکھے گئے ہیں، مثلاً عہدِ نبویؐ میں مدینۂ منوّرہ کا ماڈل، مسجدِنبوی ؐ کی ابتدا سے آج تک مرحلہ وار تعمیر و توسیع کی تفصیلات۔
اُمہات المومنینؓ کے حجروں کے ماڈلز اور غزوئہ خندق میں کھودی جانے والی خندق کے ماڈل سمیت مختلف غزوات کی عکّاسی، نیز، پرانے دَور کے سامانِ حرب، عام استعمال کی اشیاء سمیت مدینۂ منوّرہ کی تاریخ اور اس کے قدیم ورثے کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ عہدِ قدیم کی تاریخ پر مبنی ایک بہت خُوب صُورت میوزیم ہے۔
قدیم ریلوے اسٹیشن اور عجائب گھر
مسجد نبوی ؐکے جنوب مغرب میں دس منٹ کی مسافت پر باب عنبریہ کے ساتھ سیاہ گنبدوں والی خُوب صُورت عنبریہ مسجد ہے۔ سرمئی پتھروں سے مزیّن اس مسجد کو ’’ترکی مسجد‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد کے دوسری طرف سرمئی تراشیدہ خُوب صُورت پتھروں سے تعمیر کیا جانے والا مدینے کا حجاز ریلوے اسٹیشن عرب اور ترک فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ یہ ریلوے اسٹیشن مدینۂ منوّرہ کے اہم تاریخی مقامات میں سے ہے۔
اس کی بنیاد سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان، عبدالحمید کے دَورِ حکومت میں رکھی گئی اور 28 اگست1908ء کو پہلی ریل دمشق سے 1330کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے مدینۂ منوّرہ پہنچی۔ اس طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ اس شہرمقدس کو باہر کی دنیا سے مربوط کردیا گیا۔ 1330 کلو میٹر طویل اس ریل کے سفر میں جگہ جگہ چھوٹے بڑے76ریلوے اسٹیشن بنائے گئے تھے۔ اس سے پہلے لوگ حجازِ مقدس کا سفر اونٹوں پرکیا کرتے تھے جو دو ماہ پر محیط ہوتا تھا۔ ریلوے نظام کے باعث یہ سفر چند دنوں میں طے ہونے لگا۔ یہ ریل 9برس تک نہایت کام یابی کے ساتھ چلتی اور مدینۂ منوّرہ میں خوش حالی کا باعث بنتی رہی۔
دوسرے مرحلے میں اس ٹرین کو مدینۂ منوّرہ سے مکّہ مکرّمہ تک لے جانے کے کام کا ابھی آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ جنگِ عظیم اوّل شروع ہوگئی اور سلطنتِ عثمانیہ کی اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے یہ منصوبہ شروع نہ کیا جاسکا۔ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے عقب میں ریل کی پٹری، اس کے ڈبّے اور پرانے زمانے کا انجن سلطنت ِ عثمانیہ کے عظیم الشان دَور کی یاد دلاتا ہے کہ جب خلافتِ عثمانیہ، دنیا کی سب سے بڑی قوّت اور تین براعظموں کی مالک تھی۔ ریلوے اسٹیشن کی اس قدیم عمارت کو عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا ہے، جس کی بنیاد 1419ہجری بمطابق 1999ء میں رکھی گئی۔
میوزیم میں حضوراکرم صلہ اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی بعض اشیاء محفوظ کی گئی ہیں۔ گرائونڈ فلور پر قدیم زمانے کی آٹا پیسنے کی ایک بڑی اور موٹی چکّی، مٹی کے برتن، زیورات، گھریلو سامان موجود ہے، جب کہ پہلی منزل پر قدیم زمانے کے آلات ِ ضرب، تلواریں، تیر کمان اور نیزے وغیرہ آویزاں ہیں۔ اس کے علاوہ قرآنِ کریم کے قدیم نسخے، اور نادر تصاویر وغیرہ بھی عہدِ قدیم کی یاد دلاتی ہیں۔یاد رہے، باب ِ عنبریہ کے میدان میں ریلوے اسٹیشن کے اندر واقع اس میوزیم کی نگرانی وزارتِ ثقافت کے شعبہ آثارِ قدیمہ کے ذمّے ہے۔ (ختم شُد)