• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وادئ بطحان: یہ مدینۂ منوّرہ کی بڑی وادیوں میں سے ایک ہے، جو چھوٹی چھوٹی چند وادیوں سے مل کر بڑی وادی میں تبدیل ہوئی۔ مسجدِ نبوی ؐ کے شمال مغرب سے جبلِ سلع کے مغرب تک دراز اس وسیع و عریض وادی سے متعلق اُم المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ’’جب ہم مدینۂ منوّرہ آئے، تو یہ جگہ اللہ کی زمینوں میں سب سے زیادہ وبائی زمین تھی اور وادیِ بطحان میں بدبودار اور بدمزہ پانی بہتا تھا۔‘‘ (صحیح بخاری، 1889) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور یہ دنیا کی سب سے مبارک جگہ بن گئی۔ سیّدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا ہے، بطحان جنّت کی نہروں میں سے ایک نہر کا دہانہ ہے۔‘‘ (صحیح بخاری،52/80)۔ 

سلسلہ احادیث صحیحہ میں ایک حدیث حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے مروی ہے، ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’وادئ بطحان جنّت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔‘‘ حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ غزوئہ خندق کے موقعے پر حضرت عمر فاروق ؓسورج غروب ہونے کے وقت تشریف لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، ’’یارسول اللہ ! میں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی۔‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ہم نے بھی نہیں پڑھی۔‘‘ پھر آپؐ وادئ بطحان تشریف لے گئے۔ جہاں آپؐ نے اور ہم سب نے عصر کی نماز پڑھی اور پھرمغرب کی نماز پڑھی۔‘‘ (صحیح بخاری، 4112)۔

وادئ قناۃ: پانی کے بہائو کے اعتبار سے یہ مدینۂ منوّرہ کی سب سے بڑی وادی ہے،جو طائف سے شروع ہوکر مدینۂ منوّرہ میں جبلِ رماۃ کے قریب سے گزرتی ہوئی عاقول ڈیم تک جا پہنچتی ہے۔ تاریخی روایت کے مطابق،1226ء میں جب مدینے کے پہاڑوں نے آتش فشاں لاوا اُگلا، تو اس وادی کا رُخ شمال کی جانب ہوگیا تھا، کیوں کہ اس کے بہائو کے راستے میں آتش فشاں پہاڑوں سے آنے والے پتھراور لاوا جمع ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے اس کے بہائو کا رُخ تبدیل ہوگیا۔ میونسپلٹی نے عاقول کے علاقے میں اس وادی کے آگے ایک دیوار بناکر یہاں ایک ڈیم قائم کردیا، جس کے بعد سے یہاں پانی کی خاصی مقدار جمع ہوجاتی ہے۔ مدینۂ منوّرہ کی میونسپلٹی نے وادئ قناۃ پر ایک کثیر المقاصد منصوبے پر کام کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت وادی کو مزید گہرا اور چوڑا کیا جائے گا، تاکہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں بارش اور سیلابی پانی جمع کرکے استعمال میں لایا جاسکے۔ 

عاقول ڈیم بھی اسی پراجیکٹ کا حصّہ ہے۔ یہ منصوبہ 16کلو میٹر پر محیط ہوگا۔ وادی کے اطراف خودرَو سبزہ زار اور قدرتی مناظر کو خُوب صُورت بناکر تفریح گاہوں میں تبدیل کیا جائے گا۔ 70ہزار مربع میٹر پر ایک جدید پارک تعمیر کیا جائے گا، تاکہ اہالیانِ مدینہ قدرتی مناظر، سبزہ زار اور باقی صحت افزا ماحول سے لُطف اندوز ہوسکیں۔مدینۂ منوّرہ کے گورنر فیصل بن سلمان نے اپنے حالیہ دورے میں اس منصوبے پر کام کی رفتار تیز کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

وادی رانوناء: یہ وادی، مدینۂ منوّرہ کے شمال میں ایک پہاڑ کی گھاٹی سے شروع ہوکر قباء کی بستی سے گزرتی ہوئی مغرب میں وادئ بطحان سے جا ملتی ہے۔ اس وادی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینۂ منوّرہ میںجمعے کی پہلی نماز اسی وادی میں پڑھائی تھی۔ قبا کی بستی میں اپنے قیام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کی صبح مدینۂ منوّرہ کے لیے روانہ ہوئے اور حضرت سالم بن عوفؓ کے قبیلے کے پاس پہنچے، تو نماز جمعہ کے لیے قیام فرمایا۔ آپؐ نے یہاں نمازِ جمعہ کی ہدایت فرمائی۔ آج یہاں’’ مسجد ِجمعہ‘‘ کے نام سے موجود ایک خُوب صُورت مسجد، ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حسین یادوں کو تازہ کرتی ہے۔

مدینۂ منوّرہ کے چند تاریخی کنویں

ایک زمانے میں مدینۂ منوّرہ میں بے شمار کنویں تھے۔ اُن میں سے بہت سے ایسے تھے، جن میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعابِ دہن ڈال کر اُن کی قدرو منزلت میں بے تحاشا اضافہ فرمادیا تھا، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ مدینہ طیبہ کی جدید تعمیر و توسیع نے اکثر کنوئوں کا نام و نشان ہی مٹادیا۔ بہرحال، یہاں ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اُن سات تاریخی، مقدّس و متبرک کنوئوں کا تذکرہ کیے دیتے ہیں، جن سے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص تعلق رہاہے۔ یاد رہے، ’’بئر‘‘ عربی میں کنویں کو کہتے ہیں۔

بئر رومہ: یہ کنواں مدینۂ منوّرہ سے شمال کی جانب مسجد قبلتین کے شمال میں وادئ عقیق پر واقع ہے۔ آج بھی اس کے اطراف موجود کھجوروں کے قدآور درخت، لہلہاتے کھیت کھلیان اور سبزہ زار اس کی خُوب صُورتی میں اضافے کا باعث ہیں۔ مسلمان جب ہجرت کرکے مدینہ آئے، تو یہاں میٹھے پانی کا صرف ایک ہی کنواں تھا۔ جس کا مالک ایک شرپسند یہودی تھا اور مسلمانوں کے ساتھ بغض وعناد کی وجہ سے کنویں کو تالا لگا کر رکھتا تھا۔ وہ شخص پانی کی منہ مانگی قیمت وصول کرتا تھا، جب کہ مفلوک الحال اور نادار مسلمان پانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص بئر رومہ خرید کر اسے مسلمانوں کے لیے وقف کردے، تو اسے اس کے صلے میں جنّت ملے گی۔‘‘ چناں چہ سیّدنا عثمان غنی ؓ نے اسے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔

ذی الحجہ35ہجری میں باغیوں نے امیرالمومنین سیّدنا عثمان غنیؓ کے گھر کا محاصرہ کرکےآپ ؓ کا پانی بند کردیا تھا۔ ایک دن حضرت عثمان ؓ نے گھرکی چھت سے باغیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’اے لوگو! تم اچھی طرح سے واقف ہو کہ جب مسلمانوں نے یہاں ہجرت کی، تو مدینے میں اس وقت بئررومہ کے علاوہ میٹھے پانی کا کوئی کنواں نہیں تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مَیں نے اسے خرید کر عام مسلمانوں کے لیے وقف کردیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنّت کی بشارت دی تھی۔ آج تم مجھے اس کاپانی پینے سے محروم کررہے ہو۔‘‘ (جامع ترمذی، 3699)۔

بئرالغرس: حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بئرغرس کی منڈیر پر تشریف فرما تھے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں نے رات خواب میں دیکھا کہ میں جنّت کے چشموں میں سے ایک چشمے پر بیٹھا ہوں اور وہ چشمہ بئرغرس ہے۔‘‘ (وفاء الوفاء،2/146) ۔سیّدنا ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بئرغرس جنّت کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے۔‘‘ (کنزالعمال، 12/267)۔ یہ کنواں مسجدِ قباء سے چار سو میٹر شمال مشرق کی جانب واقع ہے۔ یہ ایک صحابی حضرت سعد بن خیثمہؓ کی ملکیت تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جتنے دن قباء کی بستی میں قیام فرما رہے، اسی کنویں کا پانی نوش فرماتے رہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے شہد کا تحفہ پیش کیا۔ آپؐ نے اس میں سے کچھ کھایا اور باقی بئرغرس میں ڈال دیا۔ ساتھ ہی کئی بار اپنا لعابِ دہن بھی اس کنویں میں ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا پانی میٹھا، ہاضم اور باعثِ شفاء تھا۔ بئرغرس کا پانی گہرا سبزمائل تھا، یہ پانیا آپؐ کو نہ صرف محبوب تھا، بلکہ آپؐ کی وصیت کے مطابق آپؐ کو آخری غسل بھی اسی کنویں کے پانی سے دیاگیا تھا۔ 1972ء تک یہ کنواں، اس سے ملحق مسجد اور باغ الغرس موجود تھے، لیکن بعد میں یہ بھی مدینۂ منوّرہ کی تعمیر وتوسیع کی نذر ہوگئے۔

بئراریس: یہ کنواں مسجدِ قباء سے مغرب کی جانب 38میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہ اریس نامی ایک یہودی کی ملکیت تھا اور اسی کے نام پر مشہور ہوا۔ سیّدنا ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مَیں نے ارادہ کیا کہ آج سارا دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزاروں گا۔ مَیں نے گھر پر وضوکیا اور مسجد میں آکر حضورؐ کے بارے میں دریافت کیا، معلوم ہوا کہ آپؐ قباء کی جانب تشریف لے گئے ہیں۔ قباء پہنچا، تو معلوم ہوا کہ آپؐ بئراریس پر تشریف فرما ہیں۔ یہ کنواں ایک باغ کی چاردیواری کے اندر واقع تھا۔ مَیں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اریس نامی اس کنویں میں پائوں لٹکا کر منڈیر پر تشریف فرما تھے۔ 

اتنے میں دستک ہوئی، دیکھا کہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ آئے ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا ’’اُنھیں اندر آنے دو اور جنّت کی خوش خبری سُنادو۔‘‘ مَیں نے تعمیلِ ارشاد کی اور پھر دروازہ بند کردیا۔ صدیقِ اکبر ؓحضورؐ کے پہلو میں کنویں کے اندر پائوں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ پھر دستک ہوئی، تو دیکھا کہ فاروقِ اعظمؓ تشریف لائے ہیں۔ حضورؐ کے حکم پر انہیں بھی جنّت کی خوش خبری سُنائی۔ وہ بھی کنویں میں پائوں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ میں پھر دروازہ بند کرکے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر دستک ہوئی، دیکھا کہ عثمان غنیؓ تشریف لائے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر انہیں بھی جنّت کی خوش خبری سُنائی گئی۔ وہ بھی حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کنویں میں پائوں لٹکا کربیٹھ گئے۔ (واقعے کی تفصیل کے لیے رجوع فرمائیں،صحیح بخاری، حدیث 3674، 3695، 6216، 7097،7262)۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک انگشتری (انگوٹھی) ہوا کرتی تھی۔ جسے آپؐ مُہر کے طور پر استعمال فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ کے بعد وہ صدیقِ اکبرؓ پھر فاروقِ اعظمؓ اور اُن کے بعد حضرت عثمان غنیؓ کے پاس آگئی۔ یہ انگوٹھی چھے سال تک حضرت عثمانؓ کی انگلی میں رہی۔30ہجری میں حضرت عثمانؓ ’’بئراریس‘‘ پر تشریف لے گئے۔ وہاں وہ انگوٹھی آپؓ کے ہاتھ سے کنویں میں گرگئی۔ حضرت عثمان ؓ نے فوری طور پر انگوٹھی کی تلاش شروع فرمادی۔ کنویں کا تمام پانی سینچ لینے کے باوجود مسلسل تین دن تک انگوٹھی کی تلاش جاری رہی، لیکن وہ نہ مل سکی۔ حضرت عثمانؓ کو اس کے کھونے کا بڑا ملال تھا۔ کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ہی سے حضرت عثمان ؓپر مشکلات و پریشانی کے دَور کاآغاز ہوگیا۔ حالاں کہ آپؓ نے فوری طور پر اس جیسی ایک دوسری انگوٹھی بنواکر پہن لی تھی۔ (خلفائے راشدین،82)۔ 1972ء میں اریس کا وہ کنواں سڑک کی توسیع کی زد میں آکر معدوم ہوگیا۔ اب اس کا کوئی نام ونشان موجود نہیں ہے۔

بئرحاء: مسجدِ نبویؐ کے شمال میں چند میٹر کے فاصلے پرایک احاطے کے اندر کھجوروں کے باغ کے درمیان یہ کنواں موجود تھا۔ 1984ء میں مسجدِ نبویؐ کی آخری توسیع سے پہلے تک یہ باغ اورکنواں موجود تھے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’مدینہ طیبہ کے انصار میں سے حضرت ابوطلحٰہ ؓکے پاس سب سے زیادہ باغات تھے۔ اُن تمام باغات میں انہیں اپنا کھجوروں کا باغ بئرحاء بہت زیادہ عزیز تھا۔ یہ باغ مسجدِ نبوی کے قریب تھا۔ چناں چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً وہاں تشریف لاتے۔ اس باغ کے درمیان ایک کنواں تھا، جس کا پانی نہایت شیریں، ٹھنڈا اور خوش ذائقہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی کو نوش فرماتے تھے۔ 

اس اثناء میں سورئہ آلِ عمران کی آیت نمبر 92نازل ہوئی۔لَن تَنالُو البِرّحتّٰی تُنفقوا ممّا تُحبُون(ترجمہ) ’’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکوگے، جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خُوب جاننے والا ہے۔‘‘اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابوطلحہ ؓحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے، ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اپنی محبوب چیزوں میں سے ’’بئرحاء‘‘ سب سے زیادہ عزیز ہے، مَیں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں۔ لہٰذا آپؐ جس طرح چاہیں، اسے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال میں لائیں۔‘‘ 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ ؓ کی اس فراخ دلانہ سخاوت کو پسند کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اے ابوطلحہ! تمہارا یہ خلوص آخرت میں تمہارے لیے بڑا فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اب تم اسے اپنے غریب رشتے داروں میں تقسیم کرو۔‘‘ چناں چہ انہوں نے ایساہی کیا۔ (صحیح بخاری،4554)۔ یہ باغ اور بئرحاء بھی شاہ فہد بن عبدالعزیز کے عہد میں مسجد کی تعمیر و توسیع کی نذر ہوگیا۔ مسجد نبویؐ کے شمال میں بابِ فہد گیٹ نمبر21 سے مسجد میں داخل ہوں، تو بائیں جانب پہلی صف میں قالین کے نیچے فرش پرتین گول دائرے بنے ہوئے ہیں۔ درمیانی دائرے کا مخصوص نشان بئرحاء کی نشان دہی کرتا ہے۔ (یہ بات راقم کو مسجد انتظامیہ کے ایک بزرگ عربی رکن نے بتائی، جب کہ دیگر نے بھی اس کی تصدیق کی۔)

بئرالعہن: مدینۂ منوّرہ کے سات تاریخی کنوئوں میں سے ایک بئرالعہن ہے۔ یہ کنواں مسجد قباء سے ایک کلو میٹرکے فاصلے پر محلّہ العوالی میں واقع ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اس کنویں کا نام العسرۃ تھا، جو مشقّت کے معنوں میں آتا ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اسے چٹان تراش کر بنایا گیا تھا، لیکن اس کا پانی نہایت نمکین تھا۔ مدینہ ہجرت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اس محلّے میں تشریف لے گئے۔ آپؐ نے اس کنویں سے وضو کے بعد پانی نوش فرمایا، جو نمکین تھا۔ آپؐ نے اپنا لعابِ دہن کنویں میں ڈالا اوراللہ تعالیٰ سے دُعا فرمائی۔ اس کے ساتھ ہی آپؐ نے اس کا نام تبدیل کرکے الیُسرۃ یعنی کشادگی اورآسانی رکھ دیا۔ آپؐ کی دُعا اور لعابِ دہن کی برکت سے اس کنویں کا پانی میٹھا ہوگیا۔

بئربضاعہ: یہ کنواں مسجد نبویؐ کے جنوب مغرب میں واقع تھا۔ شاہ فہد کے عہد میں مسجد کی توسیع میں یہ کنواں بھی مسجد کی حدود میں شامل ہوکر اپنی شناخت کھوچکا۔ بئربضاعہ کے تعلق سے ایک حدیث سنن ابودائود میں حضرت ابوسعید خُدری ؓ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ آپؐ کے لیے بئربضاعہ سے پانی لایا جاتا ہے، حالاں کہ اس کنویں میں نجس چیزیں ڈالی جاتی ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’پانی پاک ہوتا ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔‘‘ (سنن ابودائود،حدیث67)۔ (جاری ہے)