• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے ملک کی املاک اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں برباد ہوتے دیکھنا کس قدر اذیت ناک ہے۔ نجانے ملک کی شاہراہوں، گاڑیوں، عمارتوں اور دفاتر کواپنے ہاتھ سے آگ کی چنگاری کے حوالے کرکے شعلوں کے ساتھ ناچنے والے لوگ کس مٹی کے بنے ہیں۔ وطن کوئی خیالی تصور نہیں، جیتی جاگتی اور دھڑکتی زمین کا نام ہے جس کے صحن میں ہماری زندگی، پہچان اور بقا کی پرورش ہوتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ لوگوں نے ایسا غیرقانونی اور ملک دشمنی پر مبنی عمل کیوں کیا، سوال یہ ہے کہ انھوں نے اتنی دلیری اور بے خوفی سے اتنا بڑاجرم کیسےکیا جس پر نہ انھیں کوئی شرمندگی ہے نہ سزا کا خوف۔ان کے ضمیر نے ملامت کی نہ ریاست کے کسی قانون نے ان کی متشدد سوچ کا ہاتھ روکا۔ ایک فرد کی چاہت وطن کی محبت پر حاوی ہوگئی۔ وقت نے کیسا پلٹا کھایا،پچھتر سال تک حب الوطنی کے گیت گانے اور زمین پر جان نچھاور کرنے کی قسمیں کھانے والے زمین کا حسن جلا کر خاکستر کرنے پر تُل گئے۔ حیرت اور فکرمندی کی بات یہ ہے کہ ذہنی طور پر مفلوج بنائے گئے لوگوں کے ہاتھوں اتنا نقصان دیکھنے کے باوجود شرپسندی کی حمایت کرنے والے اس رویے کو برا کہنے اور اصلاح پر تیار نہیں۔

ایسی سفاکیت تو شاید پہلے کبھی یہاں وقوع پذیر نہیں ہوئی مگر ملک کو نقصان پہنچانے کے چھوٹے موٹے واقعات کئی بار ہو چکے ہیں بلکہ پچھلے کچھ عرصے سے ہر احتجاج پر کچھ توڑ پھوڑ ضرور کی جاتی رہی ہے جسے سرکاراوراداروں کے نظرانداز کرنے سے لوگ قانون سے کھلواڑ کرتے لاقانونیت کی طرف بڑھتے رہے۔پچھتر سال سے ہجوم کو قوم کی شکل نہ دینے کا الزام تمام بر سرپیکار قوتوں اور حکومتوں کے علاوہ والدین، اساتذہ اور معاشرے پر بھی عائد ہوتا ہے۔ معاشی اور سیاسی آزادی کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں غیریقینی صورتحال نے ایک ایسی فضا کو پروان چڑھایا جہاں لوگوں کی شخصیت میں تہذیب و شائستگی کو اجاگر کرنےکی بجائے ان کی جبلت کی خونخواریت کو خوراک دے کر طاقتور کیا گیا۔وحشت کے درجے پر انسان جانوروں سے زیادہ خطرناک اور اتنے وحشت ناک ہو جاتے ہیں کہ اپنے رستے میں آنے والی ہر شے کو روند ڈالنے میں سکون محسوس کرتے ہیں۔توڑ پھوڑ کرنے والوں کے نفسیاتی مسائل اور محرومیوں کا بھی کافی عمل دخل ہے۔جو ایک الگ بحث اور مسئلہ ہے۔

9 مئی کی سہ پہر جب میں لبرٹی سے گزر رہی تھی تو دھوئیں اور پتھروں کا کھیل جاری ہو چکا تھا۔ نہتے لوگ اپنی جان و مال کی فکر میں پریشان حال تھے۔ہر چوک پر کھڑے لوگوں کی آنکھوں کی وحشت اور ہاتھوں کے ڈنڈوں سے گاڑیوں کے اندر بیٹھے لوگ بھی سہمے ہوئے تھے۔یہ تماشا کوئی عام بات نہیں۔تخریبی ذہنوں کا ہتھیار بنتا جارہا ہے۔ مانگ پوری کرنے کا یہ طریقہ اور وطیرہ اب ختم ہونا چاہئے۔ یہ منفی طرزعمل ہمارے عزیز ملک کےماتھے پر غیر محفوظ اور بدامنی کا داغ بن چکا ہے،اس کے باعث سیاح ہمارے ملک کا رخ کرتے گھبراتے ہیں۔ورنہ ہمارے پاس مختلف مذاہب کے چاہنے والوں اور تاریخ دانوں کو متاثر کرنے والے جتنے مذہبی تاریخی، ثقافتی اور فطری نظاروں سے بھرے مقامات ہیں یہاں محققین اور سیاحوں کا تانتا بندھا رہنا چاہئے۔ اس بار حکومت اور اداروں کو مثال قائم کرنی چاہئے اور ملک دشمنی پر کڑی سزائیں دے کر آئندہ اس قسم کی وحشت کا رستہ روکنا چاہئے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ ملک میں بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے مگر یہ اصلاحات خونیں احتجاج کی بجائے ووٹ کی طاقت اور قانون سازی کے ذریعے کی جانی چاہئیں۔عمران خان صاحب بھی ساڑھے تین سال سب اچھا کی رپورٹ دیتے مطمئن رہے اور حکومت جانے کے بعد اپنے بندھے ہاتھوں کا رونا رونے لگے۔ آخر تین سال کے دوران جمہوریت کو مضبوط کرنے والی قانون سازی کیوں نہ کی گئی۔ مقصد اگر عوامی اقتدار ہو تو ہی جمہوریت بھی پنپ سکتی ہے اور ملک بھی ترقی کر سکتا ہے۔ ذاتی اقتدار کے گرد گھومتی سوچ سوائے سمجھوتوں کے کوئی قابل ذکر اقدام کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی...... دکھ تواس بات کا بھی ہے کہ ہم رونے اور ہنسنے کے سلیقے کو روتے تھے ہمیں تو آج تک احتجاج کرنا بھی نہ آیا۔ جمہوری رویوں، قانون کے احترام اور اختلاف کرنے کی تربیت کے ساتھ وطن پرستی بھی نصاب میں شامل کرنا پڑے گی۔ بقول شاعر

وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں

یہ تیرے جسم، تری روح سے عبارت ہے

پاکستان سے محبت ہماری روح میں سرایت کئے ہوئے ہے خدارا ہماری محبت کو بےوقار نہ ہونے دیجئے، ملک کی تذلیل کرنے والوں کا ہاتھ روکیے۔

تازہ ترین