• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھٹو فیملی کے ساتھ بالعموم میرے تعلقات اچھے رہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً فردا ً فرداً بھی۔ جب بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر صاحبہ کے درمیان چپقلش تھی میں اپنے تعلقات کی بنا پر ان کے درمیان مفاہمت کا رول بھی ادا کرتا تھا۔ اس ضمن میں ایک دفعہ بیگم صاحبہ نے مجھے بلایا۔ جب میں گیا تو اس وقت ان کے ساتھ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ تھے۔ تھوڑی دیر بعد جب قائم علی شاہ چلے گئے تو بیگم نصرت بھٹو نے بینظیر کے ساتھ تعلقات، ملکی سالمیت اور دیگر متعلقہ نیشنلائزیشن وغیرہ کے بارے میں گفتگو کی اور اس میں بھٹو ازم اول ۔ پھر نہایت انہماک سے چند توجہ طلب اقتصادی امور پر بات شروع ہوگئی جس کیلئے میں تیار نہ تھا۔ بہرحال اگلے دن اخبارات میں میرے نام سے ایک بیان شائع ہوا جس میں میری گفتگو کے علاوہ وہ دیگر مواد بھی تھا جو حالات کا تقاضا بھی تھا ! افسوس کہ بینظیر زندہ نہ رہیں۔ اگر انہیں موقع ملتا تو وہ ملک کے سیاسی ، سماجی اور اقتصادی امور کو بہتربناتیں۔
ملکی سالمیت
بہرحال اب دور ڈی نیشنلائزیشن کا ہے یا ریشنلائزیشن کا! دنیا میں گلوبلائزیشن کا دور دورہ بھی ہے۔ لبرلائزیشن ، ریگولائزیشن ، ڈی نیشنلائزیشن کا پرچار ہے۔ مگر یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں۔ خود ترقی یافتہ ممالک اس پر عمل نہیں کرتے۔ اور اس کا نتیجہ بقول عالمی مالیاتی فنڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹرڈ امینک اسٹراس کے ’’یہ بیروزگاری ، غیر مربوط سماجی ڈھانچے اور سیاسی ناہمواری کا بدترین امتزاج ہے جس نے اقتصادی ناہمواری کو جنم دیا‘‘۔ پاکستان میں دس فیصد غریب ترین طبقہ قومی پیداوار کا صرف چار فیصد حصہ حاصل کرپاتا ہے جبکہ دس فیصد امیر ترین لوگ ستائیس فیصد ہیں۔
گزشتہ68سالوں میں کئی مارشل لاء سربراہوں کی تبدیلی ، حکومتوں کی تبدیلی جیسے مختلف حالات کے باوجود پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح نمو اوسط پانچ فیصد سالانہ رہی ہے۔ ملک میں آج زرمبادلہ کے ذخائر بلند سطح یعنی 18.5 بلین ڈالر ہیں۔ کرنٹ اکائونٹ سرپلس ، تارکین وطن کی ماہانہ 1.5 بلین ڈالر کی ترسیل ہوتی ہے۔ زرعی معیشت مضبوط ۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود گندم اور چاول برآمد ہوئے۔ کپاس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا جس سے کاشتکار کو فائدہ ہوا ۔ دنیا کی چھٹی بڑی آبادی ٹیکسٹائل میں پانچویں ، دھاگے کی برآمد میں پانچویں اور پھل فروٹ میں غیرجانبدار ہے۔ دیگر بہترین وسائل یعنی افرادی قوت ، زراعت اور معدنیات ، کوئلہ ، تانبا ، چاندی ، سونا وغیرہ کے باوجود ’’بدترین امتزاج‘‘ نے پاکستان کی اقتصادی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سماجی ، سیاسی اور معاشی حالت بدستور گھرائو میں ہے۔
گلوکلائزیشن
بہرحال گلو بلائزیشن کے بجائے گلوکلائزیشن پر عمل کرکے سیاسی ، سماجی اور اقتصادی ارتقا ممکن ہے۔ پاکستان میں لاقانونیت کی وجہ سے اس امر پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ قانون ساز عدلیہ کے خلاف ہڑتالیں کررہے ہیں۔ وکلا اپنے موکلوں سے فیس لے لیتے ہیں مگر عدالت میں حاضر نہیں ہوتے۔ اب تو ڈاکٹر بھی ، جو اس پیشے میں انسانیت کی خدمت کرنے کا حلف اٹھا کر آتے ہیں، اپنے مریضوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کو صرف اپنی فیس سے غرض ہے نہ کہ قومی صحت سے۔ سرکاری ملازمین جن کا کام انتظام چلانا ہے وہ خود سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ ’’قومیں لادینیت پر تو زندہ رہ سکتی ہیں مگر ناانصافی پرنہیں‘‘۔
ملک میں ہر جگہ خودکش حملے ہورہے ہیں۔ مسجد ، مزار نہ مندر کچھ بھی محفوظ نہیں۔ اغوا اور گاڑی ، فون یا پرس چھیننے کے واقعات عام ہیں اور اگر کوئی مزاحمت کرے تو قتل کردیا جاتا ہے۔ صاحب استطاعت لوگ اپنے گھروں اور گاڑیوں میں گارڈ رکھتے ہیں۔ فیکٹریوں میں پولیس کی گاڑیاں اور ہر جگہ رینجرز موجود ہیں۔ کام کرنے کے ایام کم ہوتے جارہے ہیں۔ مذہبی تہواروں یعنی محرم ، چہلم ، عید ، ، بقر عید ، کرسمس ، نیا سال اور قومی ہیروز کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر چھٹیاں ہی چھٹیاں ہوتی ہیں جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتیں۔ مزید برآں آئے دن ہڑتالوں سے کاروباری بری طرح متاثر ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ معاشی ابتری ہے۔
حقیقی ادارے
مزید برآں مزدور یونین بھی ماحول خراب کرتی ہیں۔ صنعتی ادارے حال ہی میں کے ای ایس سی کی انتظامیہ ناجائز دبائو کی وجہ سے پانچ ہزار فاضل ملازمین کو برطرف نہ کرسکی۔ پی آئی اے میں یونین کے مطالبے پر مینیجنگ ڈائریکٹر کو استعفٰی دینا پڑا۔ عام آدمی کے علاوہ صنعت کار بھی پانی ، بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ نتیجتاً صنعتی ادارے بند ہورہے ہیں۔ تاجر جبری ’’بھتہ‘‘ کے خلاف ہڑتال کررہے ہیں۔ صاحب حیثیت افراد ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ افسوس کہ ملک سرمائے اور ہنرمند افراد سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے اور کو ن کررہا ہے!
تعجب یہ بھی ہے کہ عالمی بینک اور ایف بی آر کی رپور ٹ کے مطابق پاکستان کی ستاون فیصد معیشت پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ اس میں انڈر انوائیسنگ ، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی شامل ہیں۔ اگر صرف پوشیدہ آمدنی پر ٹیکس وصول کیا جائے تو یہ نہ صرف سالانہ آمدنی سے زائد ہوگا بلکہ غیرملکی امداد اور قرضہ جات سے بھی زیادہ ہوگا، جن کی سنگین شرائط کی وجہ سے پاکستان کو سیاسی ، سماجی اور معاشی خودمختاری پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔
اب تو امداد دینے والے ممالک نے بھی اس بات پر زور دینا شروع کردیا ہے کہ اپنی معیشت کو بہتر بنانےکیلئے امداد لینے والے ممالک کو پہلے اپنے وسائل پر انحصار کرناچاہئے۔ ہمیں بھی اپنے مسائل کا حل اسی میں تلاش کرنا ہے کہیں اور نہیں!
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
تازہ ترین