متحدہ ہندوستان کی ایک سیاسی کہاوت تھی کہ ’’دہلی کے تخت پر وہ بیٹھے گا جس کا ملتان مضبوط ہوگا۔‘‘ یہ کہاوت اس قدر مشہور اور مقبول ہوئی کہ روزمرہ کا حصہ بن گئی۔ ملتان کی مضبوطی سے مراد ملک کی دو تہائی یا تین چوتھائی آبادی یعنی وہاں کے محنت کش طبقے سے اچھے تعلقات ہیں۔ ملتان کے حوالے سے جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے غلبے میں مزدوروں اور کسانوں کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہر ملک کا ایک اپنا ملتان ہوتا ہے۔
دکھائی دیتا ہے کہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کی ریاست کے ساتھ بھی یہی کچھ ہونے والا ہے۔ اس کے تخت پر بھی وہی بیٹھنے والے ہیں جنہوں نے اپنا ملتان مضبوط کرلیا ہے۔ ہندوستان کے مہاجنوں، ساہوکاروں اورپنڈتوں کے قبضے اور غلبے میں وہاں کے عام انسانوں کے جذبات سے کھیل کر سیاسی فائدے اٹھانے والی استحصالی قوتوں نے سال رواں کے دوران ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت سیاست کے
میدان میں اتاری یعنی مارکیٹ کی ہے جس نے ان طاقتوں کی خواہش کے عین مطابق حالیہ عام انتخابات میں ملک کی ’’تیسری سیاسی طاقت‘‘ کا مقام حاصل کرلیا ہے جو ہمارے ہاں کے عام انتخابات میں ’’تحریک انصاف‘‘ نے حاصل کیا تھا۔ انڈیا میں ’’عام آدمی پارٹی ‘‘بھارتی جنتا پارٹی اور نیشنل کانگریس کے درمیان اقتدار کی جنگ میں سیاسی دلالی کا کاروبار کرسکتی ہے۔
دہلی کی ریاست کی ستر ارکان کی اسمبلی میں بی جے پی نے 31 نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کو 28 ارکان اسمبلی ملے ہیں اگر ان کے ساتھ کانگریس کے آٹھ ارکان سیاسی تعاون کریں تو اس کی پوزیشن 36 ارکان والی ہوسکتی ہے جو حکومت بنا سکتی ہے۔ اپنے ملتان کو مضبوط بنا لینے کی وجہ سے دہلی کے تخت پر بیٹھ سکتی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما کیجریوال کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی سٹیٹ میں عام آدمی پارٹی کی حکومت قائم ہو جائے گی یعنی سیاسی کاروبار چل پڑے گا۔ یہ سوچنا اور سمجھنا تو ہندوستان کے سیاسی ماہرین کا کام ہے کہ دہلی کی عام آدمی کی حکومت کا ہندوستان کی قومی سیاست پر کیا اثر ہوگا مگر ہمیں پاکستان میں سوچنا پڑے گا کہ اس کا پاکستان کی قومی سیاست پر کیااثر ہوگا۔ ہماری سیاست کا کیا بنے گا؟
پاکستان کے گزشتہ عام انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی یا اقتدار میں لائی جانے والی پارٹیوں نے اپنا اقتدار کا ’’ہنی مون‘‘ کا عرصہ پورا کرلیا ہے اور اب اسلام آباد سے لاہور، پشاور، کراچی تک عوامی احتجاج کا سامنا کررہی ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف نے آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی اور میاں نوازشریف کی نون لیگ کے درمیان تیسری قوت کی اہمیت حاصل کی تھی مگر تحریک انصاف ملک کے جواں سال طبقے کی توجہ حاصل کرنے کے باوصف یوڈی کلون، آفٹر شیو لوشن، لپ سٹک اور گاگلز استعمال کرنے اور کاروں میں سفر کرنےوالی سپیشل مخلوق سے باہر نکل کر دھوپ، پسینے کی بدبو اور فٹ پاتھوں کی دھول میں چلنے والے عام آدمی کی پارٹی نہیں بن سکی چنانچہ بعید از قیاس نہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ ہمارے ملک کے نقال جو اپنی کوئی سوچ نہیں رکھتے اور ٹیلی ویژن پروگراموں سے لے کر سیاسی سرگرمیوں تک کی نقالی کرنے کی مہارت رکھتے ہیں اور نقل میں عقل استعمال کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے پاکستان میں سیاسی اقتدار کی جنگ میں حصہ لینے کی خواہش میں یہاں بھی کوئی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ وجود میں لانے کی کوشش کریں گے مگر سیاسی پارٹی کو وجود میں لانے کیلئے تھوڑی سی سیاست کی بھی ضرورت ہوتی ہے وہ کہاں سے آئے گی؟
یہاں ذوالفقار علی بھٹو یاد آتے ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ ہمارے ملک جیسے ملکوں کے لئے سب سے بڑی مصیبت چھوٹی سیاسی جماعتوں کے بڑے لیڈر ہوتے ہیں۔ ان لیڈروں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنی جماعتوں کی حیثیت اور وقعت سے بے تعلقی کی وجہ سے اپنے بے پناہ اور بے پایاں کمالات اور زبردست صلاحیتوں کو قومی اور عالمی سطح پر استعمال کرنے کی سہولت نصیب نہیں ہوتی چنانچہ جن خداداد اور خود ساختہ صلاحیتوں کو وہ استعمال نہیں کرسکتے ان کو پڑے پڑے زنگ لگ جاتا ہے۔ ان کے سیاسی جوہر ان کے اندر ہی وفات پا جاتے ہیں۔ بغیر اظہار کے گمنامی کی موت مر جاتے ہیں۔ شاعر نے بھی کہا ہے کہ؎
پھول تو دو دن بہار جانفزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
وہ غنچے بھی بن کھلے مر جھا سکتے ہیں جن کا ملتان تو بہت مضبوط ہوتا ہے مگر دہلی بہت دور ہوتی ہے۔ میرا اشارہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف ہرگز نہیں ہے۔