• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ’’میچ فکسنگ‘‘ کی اصطلاح نئی نہیں جسے عموماً کرکٹ کے کھیل میں استعمال کیا جاتا ہے مگر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ’’بینچ فکسنگ‘‘ کی اصطلاح اس وقت متعارف ہوئی جب انہوں نے اپنے ہم خیال ججوں پر مشتمل بینچ سے من پسند فیصلے کروائے اور عمران خان کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور (ن) لیگ کی دیگر سرکردہ شخصیات تواتر کے ساتھ سابق چیف جسٹس پر ہم خیال ججوں کے ساتھ بینچ فکسنگ کرکے نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنے کے الزامات لگاتی رہی ہیں۔

گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف کا یہ بیان قابل غور ہے کہ ’’ثاقب نثار پاکستان کے چیف جسٹس نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ایجنٹ تھے جنہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دلوانے اور 2018 ءمیں عمران خان کو ملک پر مسلط کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور اب بھی ثاقب نثار، عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘ وزیراعظم شہباز شریف کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر سنگین الزامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب وہ اور ان کے بیٹے کی آڈیو لیکس سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس سے الزامات کی تصدیق ہوتی ہے اور یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ ثاقب نثار کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے دن رات سوموٹو کا ناجائز استعمال کرتے رہے مگر عوامی مفاد پر انہوں نے کوئی سوموٹو نہیں لیا۔

یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ 2017ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی پانامہ کیس میں نااہلی کے وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار،جن کے من پسند بینچ میں جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے، نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ سنایا۔ نواز شریف جب نااہل ہوگئے تو نااہلی کی مدت کا تعین کرنے کیلئے بننے والے بینچ میں جسٹس ثاقب نثار، عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے جنہوں نے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا۔ بعد ازاں نواز شریف کی بطور پارٹی سربراہ کی اہلیت پربننے والے بینچ میں بھی چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے جس نے نواز شریف کو تاحیات پارٹی سربراہ کی حیثیت سے نااہل قرار دیا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ دسمبر 2017ءمیں عمران خان کا بنی گالہ کا گھر ڈکلیئر نہ کرنے پر چیف جسٹس ثاقب نثار کے قائم کردہ بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب تھے جنہوں نے عمران خان کو کلین چٹ دے دی۔ 2018 میں ڈیم فنڈ پر بننے والے بینچ میں جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے۔ اس سے قبل سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھی گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے مصدقہ حلف نامے میں الزام لگایا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار جو گلگت کے دورے پر تھے، نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو فون پر احکامات دیئے تھے کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔

ثاقب نثار کے جانے کے بعد آج بھی سپریم کورٹ اسی طرح کے الزامات کی زد میں ہے اورکہا جارہا ہے کہ ایک خاص بینچ کے مخصوص جج سینئر ججوں کو نظر انداز کرکے انتہائی اہم نوعیت کے فیصلے کررہے ہیں جن کے فیصلوں کی پہلے سے ہی آگاہی ہوجاتی ہے جس سے نہ صرف شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں بلکہ سپریم کورٹ کی سا کھ بھی متاثر ہورہی ہے۔ گزشتہ دنوں عمران خان کے حامیوں نے ملکی سلامتی کے اداروں کو وہ نقصان پہنچایا جو دشمن بھی نہیں پہنچاسکتاتھا۔سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا عمران خان کے ساتھ مشفقانہ رویہ، ’’خوش آمدید‘‘ اور ’’آپ سے مل کر خوشی ہوئی‘‘ جیسے ریمارکس سے چیف جسٹس تنقید کی زد میں ہیں جس کے ردعمل میں پی ڈی ایم جماعتوں نے چیف جسٹس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے باہر بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا اور پی ڈی ایم قیادت نے چیف جسٹس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

اداروں پر الزامات ایک حساس معاملہ ہے لیکن بات اب بہت آگے نکل چکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں 25 سے زائد چیف جسٹس صاحبان گزر چکے ہیں جن میں سے کئی ایسے تھے جو متنازع فیصلوں کا حصہ رہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھاکر انہوں نے نہ صرف اصولوں پر سمجھوتہ کیا بلکہ ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دی۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی توہین عدالت کی سزا میں اور پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کی اقامہ پر تاحیات نااہلی جیسے متنازع فیصلے ادارے کے دامن پر داغ نہیں تو کیا ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ متنازع فیصلے کرنے والے جج صاحبان کیخلاف انکوائری کمیشن قائم کرکے ملوث کرداروں کو بے نقاب کیا جائے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سپریم کورٹ میں بینچ فکسنگ کی ایک المناک تاریخ ہے جس پر ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ججز دو گروپس میں منقسم دکھائی دیتے ہیں جس کا نقصان ادارے اور عدالتی نظام کو ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس دانشمندی کا مظاہرہ کریں اور سیاسی فیصلے کرنے سے اجتناب کریں بصورت دیگر عوام کا عدلیہ پر اعتماد متزلزل ہوگا اور ملک مزید آئینی بحران کا شکار ہوجائے گا۔

تازہ ترین