• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت سے ایسے سیاسی لیڈر گزرے ہیں، جنہیں ریاستی اداروں کے سیاسی کردار کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح خود ایک فوجی آمر کے خلاف الیکشن میں برسر پیکار تھیں اور مارشل لاء کو چیلنج کرنے والی پہلی خاتون رہنما بن گئیں۔ایوب خان نے بدترین دھاندلی کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کوشکست سے دوچار کیا ۔جس نے بھی پنجاب میں قائداعظم محمد علی جناح کی بہن کے پولنگ ایجنٹ کے فرائض انجام دئیے،انہیں نواب امیر محمد خان(گورنر مغربی پاکستان) کے ذریعے زندہ یا مردہ حالت میں گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا۔مگر انتخابی نتائج میں شکست کا نتیجہ وصول کرنے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے پاکستان کو توڑنے یا آگ لگانے کی بات نہ کی۔فاطمہ جناح نے کبھی کسی سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا ۔یہ نہیں کہا کہ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی بہن کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے تو انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔اسی طرح جنرل(ر) ضیا الحق نے مارشل لاء لگانے کے بعد پیپلزپارٹی سے، دل میں، ہمدردی رکھنے والوں کو بھی نہ بخشا،پی پی پی کےکارکنان نے بدترین تشدد کا سامنا کیا،ذوالفقار علی بھٹو کو را ت کی تاریکی میں پھانسی دے کر ایک خفیہ طیارے میں ان کا جسد خاکی نوڈیروپہنچا دیا گیا اور کسی کو جنازہ تک پڑھنے نہ دیا گیا۔صرف چند لوگو ں کی موجودگی میں جنازہ ہوا اور بھٹو کو دفنا دیا گیا۔باپ کی المناک موت کے بعد بے نظیر بھٹو کو قید کردیا گیا۔مگر کسی پیپلزپارٹی والے نے سندھ کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی بات نہ کی۔ کسی پی پی پی رہنما نے فوجی تنصیبات کو نشانہ نہ بنایا بلکہ ریاست کا ناانصافی پر مبنی فیصلہ بھی زہر کا گھونٹ سمجھ کر پی لیا اور سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔

نوے کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومت کو دو مرتبہ غیرآئینی طریقے سے برطرف کیا گیا مگرکسی نے پاکستان میں آگ نہیں لگائی۔نوازشریف کو مشرف آمریت میں جھوٹے طیارہ سازش کیس میں عمر قید کی سزا سنادی گئی مگر نوازشریف نے جدہ اور پھر لندن جا کر پاکستان کے خلاف سازشیں شروع نہ کیں ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی راولپنڈی میں ناگہانی موت ریاست کے سینے پر بہت بڑا بوجھ تھی۔آصف زرداری اور پی پی پی کی قیادت چاہتی تو اسی شہادت کے بدلے ریاست سے چالیس سال کی زیادتیوں کا بدلہ لے لیتی۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت پاکستان میںفوجی حکمراں کی ہی حکومت تھی۔ان حکمرانوں سے بدلہ لینے کا اس سے بہتر موقع شاید پی پی پی کو نصیب نہ ہوتا۔ایک تیر سے دو شکار کئے جاسکتے تھے۔اداروں میں بیٹھے ہوئے جو لوگ تلوار سے بچ کر نکل چکے تھے اب ان کیلئے تیر سے بچنا مشکل تھا۔مگر آصف زرداری اور پی پی پی قیادت نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگاکر دشمن قوتوں کے عزائم خاک میں ملادئیے۔پیپلزپارٹی نے زخمی دل کے باوجود قومی سلامتی کے اداروں پر کیچڑ نہ اچھالی۔اسی طرح نواز شریف کی بیوی بستر مرگ پر سسکتی مر گئی کہ ان کی شوہر سے بات ہی کر وادی جاتی مگر ایسا نہ ہونے دیاگیا۔

نوازشریف اقتدار میں آگئے۔ان کے بھائی وزیراعظم بن گئے۔ان کی جماعت نے پورے طمطراق کے ساتھ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی۔لیکن نوازشریف نے آج تک پاکستان کے اداروں کو آگ لگانے کی بات نہیں بلکہ ریاست کے ہر جبر کو صبر سے برداشت کیا۔

آج ریاست ایک کرپشن کے مقدمے میں عمران خان کو گرفتارکرتی ہے اور عدالت انہیں ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیتی ہے۔ساتھ ہی ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت قومی تنصیبات کو آگ لگا کر توڑ پھوڑ شروع کردی جاتی ہے۔حالانکہ اسی نیب نے عمران دور میں مسلم لیگ ن کے ہزاروں کارکنان کی موجودگی میں رینجرز کی مدد سے حمزہ شہباز کو لاہور ہائیکورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا تھا۔نوازشریف کو تو گرفتار کرنے میں نیب نے حد ہی کراس کردی تھی۔رینجرز اہلکار ایک بین الاقوامی ائیر لائن کے اندر گھس کر نوازشریف اور مریم نواز کو گرفتا ر کرکے لائے تھے،حالانکہ بین الاقوامی ہوائی قوانین کے تحت ایسا خلاف قانون ہے۔شہباز شریف کی گرفتاری کے وقت ہفتے کے روز رینجرز اور نیب اہلکاروں کو ان کے گھروں کی دیواریں پھلانگ کر اندر گھسا دیا گیا۔مگر ان میں سے کسی رہنما نے اپنی گرفتاری کے بعد ایسا ردعمل نہیں دیا ،جو عمران خان کی طرف سے دیا گیا۔جیلیں سیاستدان کا دوسراگھر تصور کی جاتی ہیں۔جو عدالتیں عمران خان کو ریمانڈ کے دوران رہا کرسکتی ہیں،کیا وہ آٹھ دن کا ریمانڈمکمل ہونے کے بعد جوڈیشل تحویل کے دوران ضمانت نہیں لے سکتی تھیں۔مگر عمران خان نے اپنی گرفتاری کو پاکستان سے بھی زیادہ اہم سمجھا ۔انہوں نے اس کی پروانہیں کی کہ جس کورکمانڈر لاہور کے گھر کو ان کی اپنی پارٹی کے صف اول کے رہنما آگ لگارہے ہیں۔اس سے محض تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارا روایتی حریف بھارت بیٹھا ہے۔ہم اسے کیا پیغام دے رہے ہیں۔عمران خان کی جماعت کے اس اقدام سے پاکستان کمزورہوا ہے،لیکن عمران خان یہ بھول گئے کہ اگر یہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں اقتدار کے حصول کیلئے انسان کو اتنا بھی آگے نہیں چلے جانا چاہئے کہ جہاں سے واپسی ممکن نہ ہواور آج عمران خود وہ صورتحال لے آئے ہیں کہ اب ہمیں پاکستان چاہئے یا عمران خان...!

تازہ ترین