• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

تمام ہی والدین اپنی اولاد کے اچھے، مناسب رشتوں کی تلاش میں کوشاں رہتے ہیں اور یہ ایک فطری بات ہے، لیکن وہ والدین، جن کا صرف ایک ہی بچّی ہو تو اُن کا معاملہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ یہ واقعہ میری اکلوتی بیٹی سے متعلق ہے، جسے مِن و عن آپ کی نذر کررہا ہوں۔

میری بیٹی اے لیول کے بعدجب بی بی اے سے فارغ ہوئی، تو ہمیں اُس کی شادی کی فکر لاحق ہوئی۔ اس حوالے سے اُس سے بات کی، تو اُس نے جواباً یہ کہہ کر ہم دونوں کو الجھا دیا کہ ’’مَیں مزید تعلیم کے لیے باہر جانا چاہتی ہوں۔‘‘ بلاشبہ، یہ اُس کی ایک اچھی، مثبت سوچ تھی، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اُس کی تعلیم مکمل ہونے سے کچھ ہی عرصے قبل میں ریٹائر ہوچکا تھا اور اب ہمارے مالی وسائل ایسے نہیں تھے کہ اُسے باہر بھیج سکتے۔ مَیں نے دبے دبے الفاظ میں اپنی اس پریشانی کا ذکر کیا، تو وہ بھی کچھ فکرمند ہوگئی۔ 

پھر مَیں نے بڑی محبت سے اُسے سمجھایا کہ ’’فی الحال تم اپنا گھر بسالو، اللہ تعالیٰ کی رضا سے کوئی قابل اور ہم خیال لڑکا مل جائے، تو تم دونوں مل کر باہر جانے کی کوشش کرنا۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ ربّ العزت تمہاری یہ آرزو ضرور پوری کرے گا۔‘‘ لیکن بیٹی اس بات پر راضی نہیں ہوئی۔ میں عجب کش مکش میں تھا کہ کیا کیا جائے، اس دوران اہلیہ نے آنے والے کچھ رشتوں کے حوالے سے بیٹی سے ہلکا پھلکا اظہارِ پسندیدگی کیا، تو وہ چراغ پا ہوگئی، جس کے بعد لامحالہ ہم دونوں خاموش ہوگئے، لیکن یہ احساس بھی ہردَم ستاتا رہتا کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، بعد میں کہیں کسی مشکل میں نہ پڑجائیں۔

اکلوتی بیٹی ہونے کے ناتے ہم دونوں کا رویّہ اُس کے ساتھ انتہائی نرم تھا، خاص طور پر میرا۔ اُسے ڈانٹنا تو دُور کی بات، مَیں نے کبھی اونچے لہجے میں بات بھی نہیں کی تھی ، البتہ اہلیہ کبھی کبھی جھنجھلا کر ڈانٹ ڈپٹ کردیا کرتی تھیں، تاہم، میرا رویّہ ہمیشہ پُرشفقت ہی رہتا کہ ہماری ایک ہی بیٹی ہے اور وہ بھی کسی کی امانت ہے۔ خیر، یہ عرصہ بہت ہی بے چینی اور اضطراب میں گزرا۔ اسی دوران چند جگہوں سے ملازمت کی آفر آئی، تو اُس نے ایک امریکی کمپنی کو ترجیح دے کر ملازمت اختیار کرلی، لیکن رشتے کا مسئلہ پھر بھی جُوں کا تُوں ہی رہا۔ یہ ملازمت بھی اُس نے غالباً یہ سوچ کر کی تھی کہ اُسے مُلک سے باہر جانے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ میری بیٹی شروع ہی سے ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت حسّاس بھی تھی۔ 

وہ جانتی تھی کہ یورپ، امریکا یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک جانے کے لیے اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے اوراپنے گھر کے حالات کا بھی اُسے اچھی طرح پتا تھا۔ بہرحال، اُس نے جہاں ملازمت کی، وہاں نہ صرف کافی سہولتیں میسّرتھیں، بلکہ ماحول بھی بہت اچھا تھا۔ وہاں ایک سال کام کرنے کے بعد اس نے ایک مقامی ٹی وی چینل جوائن کرلیا اور بحیثیت نیوز پروڈیوسر کام کرنے لگی۔ اس طرح ایک سال ایک امریکی کمپنی اور چارسال الیکٹرانک میڈیا میں کام کرکے اس نے اپنا ہدف خاصی حد تک پورا کرلیا۔ 

اب ہماری طرف سے شادی کا مطالبہ مزید زور پکڑگیا کہ کسی طرح باہر جانے سے پہلے اس کا رشتہ طے ہوجائے۔ بیٹی بھی کچھ نیم رضامند سی ہوگئی، لیکن مسئلہ یہ درپیش تھا کہ جہاں رشتہ ہوگا، پتا نہیں، وہ لوگ اس بات کو مناسب سمجھیں گے یا نہیں؟ ہوسکتا ہے، لڑکا یا اس کے گھر والے اس بات پر رضامند نہ ہوں۔ اس دوران بیٹی کے بہت سے اچھے رشتے آئے، لیکن اجنبی ہونے کے ناتے ہر رشتے میں ایک رسک ضرور تھا۔ مَیں ہر روز، خصوصاً رات کو سوتے وقت، اللہ سے بہت دیر تک گڑگڑا کر بیٹی کے روشن مستقبل کی دعا مانگا کرتا۔

ایک شام حسبِ معمول مَیں اپنے کلینک میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک عُمررسیدہ خاتون کلینک میں داخل ہوئیں۔ وہ سرتاپا سفید لباس اور سفید ہی چادر میں ملبوس تھیں۔ وہ اگرچہ ایک مریضہ کی حیثیت سے آئی تھیں، لیکن مجھے کچھ اور ہی محسوس ہورہا تھا۔ بہرحال، انھوں نے اپنے کچھ عوارض بتائے، تو مَیں نے اُنہیں دوا دے دی۔ اس دوران مَیں نے ایک بات محسوس کی کہ اپنے مرض کے سے متعلق بات کرنے کے علاوہ وہ مسلسل زیرِ لب کچھ پڑھ رہی تھیں۔ دوا لینے کے بعد جب وہ جانے لگیں، تو میں نے بے اختیار اُن سے پوچھ لیا کہ ’’آپ کہاں سے تشریف لائی ہیں؟‘‘ میرے استفسار پر انہوں نے جس جگہ کی نشان دہی کی، وہ میرے کلینک سے کافی دُور تھی اور جہاں وہ رہتی تھیں، وہاں کئی ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کے کلینکس بھی موجود تھے۔ 

اُن کے پُرشفقت لہجے اور رویّے سے مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے اللہ نے میرے لیے انسانی شکل میں کوئی فرشتہ بھیجا ہے۔ باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ مجھے اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ اُن سے اپنی الجھن شیئر کرلی جائے۔ مَیں نے اپنی بیٹی کا مسئلہ بتایا، تو ایک ٹھنڈی سانس بَھری اور ایک وظیفہ بتا کر نصیحت کی کہ ’’آپ اور آپ کی اہلیہ وقتاً فوقتاً اِس کا ورد کرتے رہیں، اِن شاء اللہ! آپ کا مسئلہ بخیر و خوبی حل ہوجائے گا۔‘‘ پھر انہوں نے بتایا کہ ’’میری 3 بیٹیاں تھیں، ان کی تعلیم کے دوران ہی میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، تو میرے حالات انتہائی دگرگوں ہوگئے، لیکن مجھے اللہ کی ذات پر پورا بھروسا تھا، مَیں نے اللہ تعالیٰ سے لَو لگالی اور اٹھتے بیٹھتے اس وظیفے کا ورد کرنے لگی۔

اور اسی کی برکت سے واجبی تعلیم کے باوجود میری تینوں بیٹیوں کے رشتے اچھے گھرانوں میں طے پاگئے، اب وہ اپنے شوہروں کے ساتھ مُلک سے باہر پُرآسائش زندگیاں گزار رہی ہیں۔‘‘ بزرگ خاتون کے جانے کے بعد مَیں کچھ دیر کلینک میں بیٹھا اور پھر گھر پہنچتے ہی اہلیہ کو وظیفے سے متعلق بتا کر تاکید کی کہ ’’خود بھی پڑھیں اور بیٹی کو بھی اس کا ورد کرنے کو کہیں۔‘‘ بس، پھر کیا تھا، کچھ ہی دن بعد بیٹی کے معیار اور وژن کے مطابق ایک رشتہ اتنا اچانک آیا کہ جو ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا اور یہ سب کچھ اس قدر اچانک اور حیرت انگیز طور پر ہوا کہ سب حیران رہ گئے۔ ہم نے ضروری معلومات اور چھان بین کے بعد سادگی سے دونوں کا نکاح کرواکے کینیڈا کے لیے اپلائی کروادیا اور پھر رخصتی کے چند ماہ بعد ہی دونوں اچھے پوائنٹس کی بنیاد پر2018ء میں کینیڈا چلے گئے۔ وہاں میری بیٹی اپنی خواہش کے مطابق ٹاپ کلاس یونی ورسٹی سے انوائرنمنٹ میں ماسٹرز کے بعد اسی ادارے سے منسلک ہوگئی، جب کہ میرے داماد ایک امریکی کمپنی سے وابستہ ہیں۔

بلاشبہ، اللہ انسان کے خلوصِ نیّت کا صلہ ضرور دیتا ہے، کبھی کبھی تاخیر ضرور ہوجاتی ہے، مگر صلہ ضرور ملتا ہے۔ جس طرح وہ بزرگ خاتون میرے کلینک تشریف لائیں وہ وظیفۂ خاص بتایا ،جس کے نتیجے میں پس ِپردہ کچھ عوامل کارگر ہوئے۔ تاہم، بیٹی کی جہدِ مسلسل کوبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ ایسے مسیحائوں کو شاید ان ہی لوگوں کے لیے بھیجتا ہے، جن کے جذبے سچّے ہوں۔ میری بیٹی الحمدللہ صوم و صلوٰۃ کی پابند ہے۔

اپنی پوری تعلیم کے دوران اس نے اپنی پوری توجّہ صرف اور صرف تعلیم پر مرکوز رکھی۔ اہم تقریبات میں بھی صرف اس لیے شرکت نہیں کرتی تھی کہ وقت ضائع نہ ہو، ہمیں اُس کے اس طرح کے ’’لائف اسٹائل‘‘ پر کبھی کبھی بڑا رحم بھی آتا تھا، لیکن اس کے تعلیمی جنون کے آگے ہم بھی بے بس تھے۔ یاد رہے، اُس نے اے لیول کے بعد آئی بی اے جیسے ادارے سے اسکالر شپ ہی پر تعلیم حاصل کی اور تعلیم کے بعد ملازمت کرکے اپنی ہی محنت، جدوجہد اور لگن سے باہر جانے میں کام یاب ہوئی۔ اللہ پاک ہماری بچّی کو ہر بُری نظر سے محفوظ رکھے اور دین و دنیا میں نیک نام و سرفراز کرے۔ (ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)

سنڈے میگزین سے مزید