دُنیا اس وقت مرعوب کردینے والے ہتھیاروں کی دوڑ کے زمانے سے گزر رہی ہے، امریکہ میں جب X37B خلائی جہاز میناتور VI اور پھر مصنوعی زلزلہ، سونامی اور سیلاب ہارپ کا معاملہ سامنے آیا تو کہا جانے لگا کہ یہ امریکہ کا حتمی اور فیصلہ کن جارحانہ ہتھیار ہے، اسکے بعد سازشی نظریہ بھی اختتام پذیر ہوا۔ اس نے اس کا استعمال بے دریغ کیا اور میں نے ہارپ ٹیکنالونی پر ’’جنگ‘‘ میں 28 فروری 2010ء کو کالم لکھاجو کم لوگوں کی نظروں سے گزرا مگر پھر جاپان میں سونامی آیا تو میرا کالم 23 مارچ 2011ء کو ’’جنگ‘‘ میں شائع ہوا تو اُس کی پذیرائی حد سے زیادہ تھی، اس پر ریمارکس کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں پر آگئی تھی، اِس سے قطع نظر امریکی اور مغربی دُنیا کا ایک تھنک ٹینک ایمری نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور پھیلایا یہ گوگل پر بھی موجود ہے اور چین کے Bingپر بھی تبصروں کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے جس پر کئی سوالات اٹھے کہ اِس کو کیوں اہمیت دی گئی، آیا یہ کالم خود امریکی کے اشارے پر لکھا گیا یا خود میری اس ریسرچ کا حصہ ہے۔
یہ سوال بھی اٹھا کہ اِس کو شائع کیا جائے یا نہیں تو میں وہ ٹی وی ٹاک شو کا لنک لے کر اخبارکے ایڈیٹر کے پاس پہنچا جس سے ثابت ہوتا تھا کہ جاپان کا 2011ء کا زلزلہ اور سونامی مصنوعی تھا اور یہ کہ امریکہ جاپان کو اس لئے سزا کے مرحلے سے گزارنا چاہتا تھا کہ جاپان کے شہنشاہ نے چینی صدر سے 2010ء میں دو مرتبہ ملاقات کی تھی، اس لئے کہ دُنیا کی تجارتی کرنسی ڈالر کی بجائے کسی اور کرنسی کو بنا لیا جائے۔ سوال یہ ہوا کہ ایمری جیسے تھنک ٹینک نے کیوں میرے مضمون کو اہمیت دے کر انگریزی میں ترجمہ کیا اور پھیلایا تو عین ممکن ہے کہ وہ اِس خوفناک ہتھیار کے ڈاراوے کو بڑھانا چاہتے ہوں مگر ہمارا مسئلہ تو یہ تھا کہ وہ قارئین کی علم میں آئے اور امریکہ کی چہرہ دستیوں اور انسان دشمنی کے عمل سے لوگ آگاہ ہوں۔
اب روس نے ایک ایسے میزائل کی آزمائش کی ہے جسے اس نے R 26 Rubezh ہائپر سونک میزائل کا نام دیا ہے۔ یہ ایک ایٹمی اسلحہ کا حامل بیلسٹک میزائل ہے۔ اِس کی صلاحیت یہ ہے کہ وہ میزائل شیلڈ کو توڑ دیتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ نے پولینڈ اور ہنگری جو میزائل شیلڈ لگا رکھی ہیں اور جو افغانستان میں لگا رہا ہے یہ میزائل اُس کو بے اثر کردے گا۔ روسی اسے حتمی اور آخری فیصلہ کن ہتھیار کہہ کر دُنیا سے روشناس کرا رہے ہیں۔ روس کے ڈائریکٹرریٹ جنرل اسٹاف ولادی میر زورودنٹسکی نے روسی وزیراعظم ولادی میر پیوٹن سے اس کا تعارف یہ کہہ کر کرایا کہ یہ میزائل کا نظام روس کی اسٹرٹیجک جوہری طاقت کی صلاحیت کو غیرمعمولی طور پر بڑھا دے گا اور یہ ہائپر سونک ہونے کی وجہ سے امریکی میزائل شیلڈ کے نظام کو درہم برہم کردے گا اور کسی اور کے لئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اس کی رفتار کی حد سے آگے بڑھ سکے۔ اب اگر اِس نظام میں کسی چیز کی گنجائش ہے تو وہ یہ ہے کہ کتنا موثر ایٹمی اسلحہ یہ میزائل لے کر جا سکتا ہے۔ امریکیوں نے جب میناتور فور بنایا تھا تو یہ کہا تھا کہ اُس کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ وہ دُنیا کے کسی بھی جگہ پر ایک گھنٹہ کے اندر اندر حملہ آور ہوسکتا ہے اسطرح اس نے زمین و سمندر کی گہرائی میں چھپی ہوئی کسی بھی چیز کو تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے،اسلئے کہ مخالف کے پاس ردعمل کا وقت دستیاب نہیں ہوگا۔ مگر پھر یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر روس یا چین یا کسی ایسے ملک کو جو ردعمل کی صلاحیت رکھتا ہے اُس کی طرف یہ میزائل رُخ کرے تو یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ ایٹمی حملہ ہے اور جواب میں وہ امریکہ پر ایٹمی حملہ کردے۔ اس لئے ایسے میزائل پر کام شروع کیا گیا جو روایتی بارود یا غیرایٹمی مادہ سے تیار کیا گیا ہو اور جسے شناخت بھی کرلیا جائے کہ ایٹمی میزائل اُن کی طرف نہیں آرہا ہے، ابھی امریکہ ایسے میزائل کے کئی تجربات کرچکا ہے مگر وہ زمینی کشش کی حد پار نہیں کرسکا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اُن کے دو تجربات کم از کم دو مرتبہ تو ناکام ہوئے۔ روسی یہ کہتے ہیں کہ اُن کے کروز میزائل میں جو رہنمائی کا نظام لگایا ہوا ہے اس کے مواد تک دوسرے ممالک ابھی تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
تیسری طرف روس نے یہ اطلاع دی ہے کہ چین کی نیوی (ROCN) نے اپنی ایک آبدوز (SSBN) سے 2 جوہری JL-2 بلیسٹک میزائل امریکہ کے شمال میں ریاست اوریگون کے قریب مگر آزاد سمندری علاقہ میں30 اکتوبر 2013ء اور 20 اکتوبر 2013ء کو آزمایا ہے۔ اِس کے یہ معنی ہیں اِن کی آبدوز امریکی ساحلوں کے قریب سمندر میں موجود ہے اور خود امریکی اِس کو تلاش نہیں کرسکے، اِس کو چھپانے کے لئے وہ اپنے اخبارات میں شہاب ثاقب کے ٹوٹنے کا نام دیتے رہے مگر روس کے ویاز جو پہلے سے خبر دینے والے ریڈار ہیں اور روس نے اُن کو اپنے تمام ساحلوں پر لگا رکھا ہے، اس کو شناخت کیا اور اِس خبر کو نشر کیا۔ چینی نیوی نے 2010ء میں بھی ایسا ہی کیا تھا اور اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا اظہار اِس مشق کے ذریعے کیا۔ اس طرح چینیوں نے امریکیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ امریکہ پر ایٹمی حملہ کی صلاحیت سے آراستہ ہوگئے ہیں اور یہ نہیں رہا کہ صرف امریکہ اُن پر حملہ کردے تو وہ خاموش رہیں گے۔
چوتھی طرف چین نے ایئرکرافٹ کو مارنے کے لئے میزائل تیار کرلئے ہیں اور وہ پاکستان کو بھی فراہم کردیئے ہیں۔ پاکستانی ایئرفورس اِس میزائلوں سے لیس ہے جو انڈیا کے بہت قیمتی اور مہنگے ایئرکرافٹ طیارہ بردار جہازوں کو نشانہ بنا کر اپنا دفاع کرسکتے ہیں۔ یہ میزائل بھی ہائپر سونک ہیں اور Hydersonic Aircraft Carrier Killer Missile کہلاتے ہیں۔ پاکستان کے پاس CM-400AKG جنکی فضاء سے زمین پر مارنے کی استطاعت ہے اورجو TF-17 تھنڈر میں نصب کردیئے گئے ہیں۔ یہ ہتھیار 2012ء کی ایک فضائی نمائش میں دکھایا گیا تھا۔ یہ ہتھیار پاکستان کے ایئرفورس کے پاس وافر مقدار میں موجود ہیں۔ JF-17 تھنڈر طیارہ بذات خود بہت جدید فائٹر طیارہ ہے جو ہم جہتی مقاصد کے لئے استعمال ہوسکتا ہے اور اِس میں 400AKG میزائل کا لگانا، اُس کو قاتل طیارہ بنا دیتا ہے۔ اس کی رفتار بھی سپر سونک اور میزائل شیلڈ اِس کو روکنے سے عاری ہے۔ اس کی مار کی حد 180 سے 250 کلومیٹر ہے اور یہ جامد اور سست رفتار ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی رفتار ہائپر سونک ہونے کی وجہ سے یہ پاکستان کا ،فی الوقت حتمی ہتھیار ہے جو دشمن کی صفوں کو پلٹ سکتا ہے۔ اس کے ایئرکرافٹ کیریئر اور کس قریب آتی ہوئے کروز میزائل یا افواج کو کامیابی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس لئے پاکستان کو اب اپنے اندرونی امن کو درست کرنے میں اپنی تمام تر کوشش صرف کرنا چاہئے۔