• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کردیا جس میں ملک کو درپیش سخت مالی مشکلات کے باوجود بظاہر کوشش کی گئی ہے کہ روز افزوں مہنگائی اور غربت سے نیم جاں عوام کو حتی الامکان سہولتیں فراہم کی جائیں۔ کم از کم اجرت 32000 روپے‘ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں بھاری اضافے اور ترقیاتی منصوبوں کیلئے گیارہ کھرب روپے کی خطیر رقم مختص کرکے حکومت نے اپنے اس عزم کا واضح اظہار کیا ہے جس کا بظاہر ایک بڑا سبب یہ ہے کہ عام انتخابات موجودہ سال ہی میں منعقد ہونے والے ہیں۔ بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے ، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا تاہم223 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کیے گئے ہیں ۔انہوں نے ملک کی موجودہ معاشی زبوں حالی کا ذمہ دار مکمل طور پر سابقہ حکومت کو قرار دیا اوراپنے موقف کے حق میں اعداد و شمار کی روشنی میں اپنی جماعت کے گزشتہ دور حکومت اور تحریک انصاف کے دور کی معاشی صورت حال کا جائزہ پیش کیا۔تاہم اس نقطہ نظر میں بھی بہرحال وزن ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے میں لیت و لعل کا مظاہرہ نہ کیا جاتا جنہیں بالآخر ماننا پڑا تو بروقت معاہدہ ہوجاتا جس کے بعد نہ زرمبادلہ کے مسائل اس قدر شدید ہوتے نہ روپے کی قدر اتنی زیادہ گرتی جس کی وجہ سے معاشی ابتری پر قابو پانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔علاوہ ازیں گزشتہ سال کے ملک گیر سیلاب نے بھی معاشی بحالی کے عمل کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور اس میں پچھلی حکومت کا کوئی حصہ نہیں۔ وزیر خزانہ کے مطابق نئے بجٹ کے بنیادی خد وخال یہ ہیں کہ بجٹ کا حجم 14 ہزار 460 ارب روپے رکھا گیا ہے،ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 1150 ارب روپے کی تاریخی رقم مختص کی گئی ہے ، آمدن کا ہدف 9200 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جبکہ قرضوں کے سود کی ادائیگی پر7303 ارب روپے خرچ ہوں گے۔دفاعی اخراجات میں218 ارب روپے کا اضافہ کرکے1804 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔تعلیم کے لیے صرف82 ارب اور صحت کے لیے 26 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔اشیائے ضروریہ کی درآمدات پر ڈیوٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا،پرائم منسٹر یوتھ لون کے لیے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں،ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے کرنٹ اخراجات میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ چالیس ارب کے اضافے کے ساتھ400 ارب کردیا گیا ہے،50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں،معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے استعمال شدہ کپڑوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے اس سے منسلک آلات سے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز بھی بجٹ میں شامل ہے ،معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کردی گئی ہیں،صحافیوں کی ہیلتھ انشورنس کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے اہم اقدامات اور ترسیلات زر میں اضافے کی خاطر بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے پرکشش مراعات بھی بجٹ کا حصہ ہیں جبکہ عام انتخابات کیلئے 48 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔کاروباری طبقے نے اسے بالعموم مشکل حالات میں اچھا بجٹ قرار دیا ہے جبکہ درآمدات پر ڈیوٹی میں محض ایک فی صد چھوٹ کو انتہائی ناکافی قرار دیا گیا ہے۔ ترقی کی شرح کو جو رواں سال نصف فی صد سے بھی کم رہی اسے ساڑھے تین فی صد تک بڑھانے کا عزم خیرمقدم کے لائق ہے ۔

تازہ ترین